نیا سال۔۔۔کچھ باتیں

سال کا آخری دن ہے۔ دسمبر کی پرچھائیاں اترنے اور نیا سال شروع ہونے کو ہے۔ وقت کیسے گزرتا ہے کچھ پتا نہیں چلتا، وقت بارش کا وہ بلبلا محسوس ہوتا ہے جو قطرہ گرتے ہی بنتا ہے اور پھر پھٹ جاتا ہے۔ دن گزرتے جارہے ہیں۔ کچھ لوگ نئے سال کی آمد پر خوش ہیں، کچھ سال، زندگی سے کم ہونے پر اداس، کچھ نئے سال کے جشن منانے کے پروگرام، پارٹیاں منانے کی پلاننگ کر رہے ہیں تو کچھ سال گزرنے پر محاسبہ کا میزان لگائے بیٹھے ہیں۔ کیا عہد و پیمان کیے تھے، اپنے ساتھ، اپنے متعلقین، اپنے چاہنے والوں کے ساتھ، کیا پایا، کیا کھویا، زندگی میں نئے لوگ کتنے کس نسبت سے شامل ہوئے، کون زندگی سے نکلا۔۔۔۔ ایک لمبی لسٹ تھامے بیٹھے ہوں گے۔ کوئی سرا ہاتھ نہیں آئے گا کہ سال کا یہ آخری دن بھی گزر جائے گا۔ پھر بولیں گے ”چھوڑو یار!!! جو ہوا سو ہوا۔ اب نئے سال کی شروعات نئے عزم سے کرتے ہیں۔ نئے سال کی خوشی منانے والے عجب اندازوں سے خوشی مناتے ہیں۔ کہیں مخلوط محافل میں، شراب و کباب میں شباب ڈال کر موج مستی، رقص و سرور، موسیقی کی دھن پر سر دھنتے، شیمپین کے پیگ پیٹ میں انڈیل کر سال کا اختتام کریں گے اور نئے سال کو شروع کریں گے۔
ہر ایک مرضی کا مالک ہے۔ کسی کو سمجھ بوجھ ہے تو کوئی سمجھ بوجھ سے نابلد۔۔۔۔ صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے، عمریوں ہی تمام ہوتی ہے۔ ہر جگہ مختلف انداز، مختلف موسموں میں نئے سال کی شروعات ہوتی ہیں۔ ایران اور پڑوسی چند ممالک نیا سال بلکہ نوروز بہار کی آمد کا پیغام دیتا ہے۔ چین چوں کہ قمری کلینڈر کے تابع ہے اس لیے اس کی تاریخ ہر سال بدل جاتی ہے۔ اس دفعہ چین کا نیا سال 16فروری کو شروع ہوگا۔ جاپان مغربی کلینڈر کے تابع رہ کر نیا سال مناتا ہے۔ اس کی تہذیبی رسومات کا رنگ خاصہ گہرا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں نیا سال جنوری سے شروع ہوتا ہے۔ مغربی تہذیب کی چھاپ واضح ہوتی ہے۔ ترقی پسندی کے نام پر لوگ وہ کچھ کرتے ہیں کہ شیطان بھی ان سے ٹیوشن لینے کی فکر میں لگ جاتا ہے۔ مخلوط محافل، رقص و سرور، نائٹ کلب میں پارٹی سے روکو تو پسماندہ ثابت کر کے ترقی پسندی کا قاتل بنا کر دقیانوسیت کا لیبل، اور ٹھپہ لگا لیتے ہیں۔ کیوں کہ آپ ان کی عزت کا خیال رکھتے ہو۔ کہ ان مخلوط پارٹیوں میں خواتین، بہنیں، بیٹیاں خبیث الفطرت انسان کے چنگل سے بچ جائیں جو اس موقع پر ان کی نیم برہنی و غنودگی کا فائدہ اٹھاتا ہے مگر نہیں۔۔۔۔ آزادی کا بھوت تو اس وقت اترتا ہے جب لڑکی شادی سے پہلے ماں بننے کی نوید سناتی ہے۔ (اگر ایسے لوگوں کو اپنی خواتین کی عزت تار تار ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تو بقول شخصے وہ لبرل یا ترقی پسند نہیں بلکہ گھٹیا انسان ہے)
خیر!!!! یہاں تو یہ بتانا مقصود ہے کہ نئے سال کی آمد پر دوبارہ سے عہد و پیمان ہوتے ہیں۔ لسٹ بنتی ہے کیا کرنا ہے، کیا چھوڑنا ہے، کون سی نئی عادت، کام، علم، فن حاصل کرنا ہے۔ کچھ دل ہی دل میں ارادے ہوتے ہیں، جو راز بنتے ہیں۔ کہیں لڈو پھوٹتے ہیں تو کہیں دل کے پھپھولے۔۔۔۔ میں تو یہ مشورہ دوں گا کہ سالِ گزشتہ کا محاسبہ کریں۔ جو برا ہوا اس پر استغفار، جو اچھا ہوا اس پر پرامید رہیں۔ خوش ہوں، شکر ادا کریں۔ مزید میرا ایک مشورہ یہ بھی ہے کہ نئے سال کی آمد کے موقع پر اپنی ذات، اپنی زندگیوں پر نظر رکھیں۔ ناامید ہونے کی بجائے امید کا دامن تھامے رہیں۔ اللہ جی کی رضامندی پانے کے بہانے ڈھونڈیں، نبی پاک صلی علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے ذرائع ڈھونڈیں، گزشتہ گناہوں، خطاؤں پر نادم ہوں۔ کیوں کہ بقولِ دانا: زندگی کی کتاب میں اتنی غلطیاں نہ کرو کہ پینسل سے پہلے ربڑ ختم ہو جائے اور توبہ سے پہلے زندگی۔۔۔۔۔ ساتھ ہی ساتھ دلوں کو بغض، عناد، حسد، نفرت، کدورت سے پاک کریں۔ دلوں میں جو دراڑیں پڑ گئی ہیں انہیں بھرنے کی کوشش کریں۔
رشتوں کو محبت، اپنائیت سے استوار رکھیں کہ محبتوں میں وفا قائم رہے۔ ایک نیا سال شروع ہونے کو ہے تو اپنے لیے اور آپ کے لیے یہی دعا ہے کہ ہمیں اپنے حصے کی مسرتیں حاصل رہیں۔ عزیزوں کی رفاقت، بے رحم دنیا سے نباہ کرنے میں مدد کرے۔ اللہ جی عافیت، وسعت، رحمت، برکت کے دروازے کھول دے۔ نعمتوں پر شکر والی زندگی عطا کرے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، اطاعت، عشق نصیب فرمائے۔ آخری بات یہ کہ امت بنیں، خوشیاں پھیلائیں، محبت اور امن، سکون و سلامتی کا پیغام عام کریں۔ اور ہاں! آپ کو نیا سال مبار ک ہو۔

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں