کچھ علاج اس کا بھی اے چارۂ گراں ہے کہ نہیں

آپ گزشتہ چند سالوں سے یہ محسوس کرتے آرہے ہونگے کہ ملک کے کئی ادارے ایک ایسی بیماری کو دنیا سے ہمیشہ کیلئے ختم کرنے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر رہے ہیں جسے دنیا ’پولیو‘ کے نام سے جانتی ہے۔ اس بیماری کو دنیا سے ختم کرنے کا عزم کچھ عالمی تنظیموں نے کر رکھا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک سے اس بیماری کو ہمیشہ کیلئے شکست دے دی گئی ہے لیکن بدقسمتی سے اس بیماری کے وائرس نے پاکستان میں اپنا تھوڑا بہت وجود برقرار رکھا ہے۔ اس تھوڑے بہت وجود کو ختم کرنے کیلئے ایک ملک گیر مہم چلائی جا رہی ہے اور بہت ہی زوروشور سے چلائی جا رہی ہے۔ میڈیا کو بھی اس مہم میں استعمال کرنے کیلئے اربوں روپے صرف کئے جا رہے ہیں۔ ہسپتالوں میں ویکسینیشن کیلئے خصوصی سیل قائم کئے جا رہے ہیں۔ ملک بھر میں لاکھوں ٹیمیں تشکیل دی جارہی ہیں اور انہیں یہ ٹاسک دیا جا رہا ہے کہ گھر گھر جا کر بچوں کو پولیوں کے قطرے پلائیں۔ ان ٹیموں کو اس طرح ترتیب دیا جا رہا ہے کہ کوئی گھر ایسا نہ رہ پائے جس میں ایک بھی بچہ ان قطروں سے محروم رہ سکے۔ مزید کچھ اور ٹیموں کو تشکیل دیا جا رہا ہے اور ان کی یہ ذمہ داری لگائی جارہی ہے کہ وہ گھر گھر جا کریہ چیک کریں کہ پولیو کی ٹیم وہاں قطرے پلانے گئی تھی یا نہیں۔ کچھ مہینوں سے تو ان ٹیموں کو اسکولوں میں بارہا بھیجا جا رہا ہے اور اسکول انتظامیہ پررینجرز کے ذریعے یہ دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ ان ٹیموں کو اسکول میں پڑھنے والے پانچ سال سے کم عمر بچوں میں قطرے پلانے کیلئے اجازت دی جائے۔ یہ تمام تر کوششیں پاکستان میں عالمی تنظیموں کے بے حد دباؤ کے نتیجے میں کی جارہی ہیں اور اس میں بے تحاشہ سرمایہ اور قوت صرف کی جارہی ہے۔ عالمی تنظیموں کو یہ خطرات لاحق ہیں کہ پولیوکا وائرس کہیں دوبارہ پاکستان سے ان کے اپنے ممالک میں منتقل نہ ہوجائے اور ان کا خدشہ کسی حد تک درست بھی ہو سکتا ہے۔ ان تمام باتوں سے قطع نظر یہ بات واقعی خوش آئند ہے کہ پاکستانی حکومت اس بیماری کو پاکستان سے بھی ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کے اقدامات کر رہی ہے اور عوامی رائے عامّہ کو اس بیماری کو شکست دینے کیلئے ہموار کیا جا رہا ہے۔
اب ایک نظر کرم تصویر کے دوسرے رخ یعنی دوسری بیماریوں کی صورتحال پر ڈالتے ہیں۔عالمی ادارۂ صحت (WHO) کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں سب سے زیادہ پائی جانے والی بیماریوں میں سرفہرست سانس اور پھیپھڑوں کی بیماریاں ہیں جن کا تناسب 51فیصد ہے۔ 2006ء میں ان بیماریوں کے ایک کروڑ 60 لاکھ 56 ہزار کیس رپورٹ ہوئے؛ جن میں سے 25.6 فیصد، پانچ سال سے کم عمر بچوں سے تعلق رکھتے تھے اور ان بچوں کی مجموعی تعداد 40 لاکھ سے زائد بنتی ہے۔ علاوہ ازیں، جو بیماریاں پاکستان میں زیادہ ہیں ان میں ملیریا بھی شامل ہے؛ جس سے سالانہ کم از کم 40 لاکھ لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ اس کے بعد ڈائریا (ہیضہ) ہے جس کے سالانہ 45 لاکھ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی سے متاثرہ، ایک کروڑ 20 لاکھ افراد اس ملک میں موجود ہیں، جن میں سے سالانہ 60 لاکھ لوگ ان ہی موذی بیماریوں کے باعث اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق، 50 سے 60 فیصد پاکستانی خواتین، خون کی کمی کا شکار ہیں۔ یعنی اگر اس تناسب کو مدنظر رکھتے ہوئے محتاط تخمینہ بھی لگایا جائے، تو یہ تعداد کسی بھی طرح پانچ کروڑ خواتین سے کم نہیں بنتی۔ دوسری بیماریوں میں ٹی بی، انفلوئنزا (زکام)، شوگر (ذیابیطس)، کینسر (سرطان) اور غذائیت کی کمی (malnutrition) کے باعث ہونے والی متعدد طبّی پیچیدگیاں اور دماغی و اعصابی امراض شامل ہیں۔
پاکستان میں بچوں کی جتنی بھی بیماریاں پائی جاتی ہیں ان میں سرفہرست نمونیا (Pneumonia) ہے ۔ اس بیماری کو پاکستان میں بچوں کا ’نمبر ون کلر(No. 1 Killer)‘ قرار دیا گیا ہے۔اگر اس بیماری کو عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو اس بیماری سے مرنے والے بچوں کی تعداد کی مناسبت سے پاکستان کا مقام تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ہر سال اس بیماری سے تقریباً ایک لاکھ بچے اپنے والدین کو آنسوؤں کے سیلاب میں بہتا چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملتے ہیں اور یہ تعداد گزشتہ کئی سالوں سے برقرار رہی ہے۔ واضح رہے کہ بچوں میں نمونیہ کی مختلف وجوہات ہو تی ہیں لیکن زیادہ تریہ ایک بیکٹیریا جسے Streptococcus pneumoniaeکہتے ہیں کی وجہ سے ہوتا ہے جو سانس کی نالیوں کے ذریعے پھیپھڑوں میں پہنچتا ہے اور سوزش کا باعث بنتا ہے۔ اس بیکٹیریا کی 80سے زائد اقسام (Strain)پائی جا تی ہیں لیکن صرف2طرح کی ویکسین دستیاب ہیں ایک PCV13جو کہ 13اقسام کے بیکٹیریا کے خلاف مؤثر ہے اوردوسری PPSV23جو 23 کے خلاف کام کرتی ہے۔ نمونیہ کی دوسری اہم وجہ ایک دوسرا بیکٹیریا Haemophilus influenzae type bہے جس کی ویکسین Hibکے نام سے دستیاب ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں پیداہونے والا ہر بچے کو حفاظتی ٹیکے لگائے جا رہے ہیں یا نہیں؟ اگر لگائے جا رہے ہیں تو اموات کی شرح برقرار کیوں ہے؟یہا ں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں کی جانے والی ویکسینیشن کس حد تک مؤثر ہیں؟ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (DUHS)، کراچی میں کی گئی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق، خسرے کی ویکسینیشن کے بعد 30 فیصد بچوں کے خون میں خسرے کے خلاف قوت مدافعت پائی گئی جبکہ 70 فیصد بچوں میں اس مرض سے لڑنے کی طاقت نہیں تھی۔ اسی تناظر میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جو ویکسین پاکستان میں دوسری بیماریوں کے خلاف کی جاتی ہیں، وہ ان بیماریوں کے خلاف کس حد تک مؤثر ہے؟ اس پہلو پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
اگر نمونیہ کا بروقت اور مکمل علاج نہ کروایا جائے تو یہ ایک جان لیوا بیماری کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ پاکستان میں نمونیہ کی وجہ سے زیادہ تر اموات غربت زدہ علاقوں میں واقع ہوتی ہے۔اس کی بنیادی وجہ ماؤں میں تعلیم کی کمی اور اس بیماری سے بچاؤ اور علاج کے بارے میں کم علمی ہے۔ اس بیماری کو عوامی آگاہی مہم کے ذریعے بھی کافی حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے لیکن پاکستان میں ایسی مہمات حقیقتاً نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہمارا میڈیا برڈ فلو سے مرنے والی مرغیوں کی خبریں گھنٹوں نشر کرتا ہے لیکن نمونیہ کی وجہ سے ہر منٹ ایک بچے کی موت کو نظر انداز کرتا ہے جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ملک میں پولیو کی طرز کی عوامی آگاہی مہمات چلائی جائیں اور ان بیماریوں سے بچاؤ اور احتیاطی تدابیر کے بارے میں عوام کو مکمل طور پر آگاہ کیا جائے، جن بیماریوں کی ویکسین موجود ہیں ان کی ہر بچوں اور بڑوں میں ویکسینیشن کو مؤثر اور یقینی بنایا جائے تاکہ اس ملک کا مستقبل صحت مند پاکستان کی صورت میں ابھر سکے۔

حصہ
ڈاکٹرریحان احمد صدیقی ابھرتے ہوئے قلم کار ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے مالیکیولر میڈیسین میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ریحان صدیقی ان نوجوانوں میں شامل ہیں جو سماج کے بڑھتے ہوئے مسائل کا درد اپنے سینے میں رکھتے ہیں اور اپنے قلم سے اس کے تدارک کے لیے کوشاں ہیں۔

2 تبصرے

جواب چھوڑ دیں