ایک مطیع الرحمان اور بھی تھا‎

جون 2006 اورمئی 2016 میں بظاہر کوئی مطابقت یا مماثلت نہیں۔ مئی 2016 کو مطیع الرحمان نظامی کو بنگلہ دیش نے دسمبر 1970 کی جنگ میں مشرقی پاکستان میں پاکستان پاکستانی فوج کا ساتھ دینے کے جرم میں پھانسی دے دی۔ جرم کیا تھا؟ ایک محب وطن پاکستانی پر اپنے وطن کے دفاع کا الزام تھا۔۔۔۔۔ اس وقت جب بنگلہ دیش موجود بھی نہ تھا۔
ایک مطیع الرحمان اور بھی تھا۔۔۔ راشد منہاس کا انسٹرکٹر فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان اگست 1971ء کی روشن صبح تھی۔ تمام ہواباز اپنے اپنے طیارے میں اگلی نشست پر پرواز کے لیے تیار بیٹھے تھے کہ ’’رن وے‘‘ پر ایک موٹر نظر آئی، جس میں ان ہوابازوں کو تربیت دینے والا انسٹرکٹر مطیع الرحمان بیٹھا تھا۔ بیس سالہ تربیتی پائلٹ راشد منہاس بھی اپنی دوسری سولو فلائیٹ پر جانے کے لیے بیٹھا تھا۔ وہ اپنے انسٹرکٹر مطیع الرحمان کے حکم پر رک گیا۔انسٹرکٹر کچھ بات کرنے کے بعد اس کے طیارے میں بیٹھ گیا۔ دوران پرواز مطیع الرحمان نے راشد منہاس کو سر پرضرب لگا کر بے ہوش کیا اور پرواز کا کنٹرول سنبھال کر طیارے کا رخ ہندوستان کی جانب موڑ دیا۔اس وقت جب ہندوستان کا فاصلہ 40 میل رہ گیا تھا، راشد منہاس کو ہوش آیا اور انہوں نے طیارے کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کی، اس میں ناکامی کے بعد نوجوان پائلٹ کے پاس اپنے طیارے کو ہندوستان لے جانے سے روکنے کا ایک ہی راستہ رہ گیا تھا اور انہوں نے ہندوستانی سرحد سے محض میل دور طیارے کو گرا کر اپنی جان پاکستان کے لیے قربان کردی۔
راشد منہاس کو 21 اگست 1971 کو مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔راشد منہاس کو بعد از وفات پاکستان کا سب سے اعلیٰ فوجی اعزاز نشان حیدر دینے کا اعلان اس وقت کے صدر جنرل یحییٰ خان نے کیا۔وہ اس اعزاز کو پانے والے سے سب سے کم عمر اور پاک فضائیہ کے اب تک واحد رکن ہیں۔
جس جگہ اس کم سن مجاہد کا طیارہ زمین سے ٹکرایا تھا وہ اب ’’شہید ڈیرا‘‘ کہلاتی ہے۔ پہلے اس کا نام ’’جَنڈے‘‘ تھا۔ یہ کراچی سے شمال مشرق کی جانب دریائے سندھ کے مغربی کنارے سے ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
بنگالی پائلٹ انسٹرکٹر فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان کے لیے بنگلہ دیش حکومت 35 سال کوشش کرتی رہی کہ اس کی لاش کراچی کے قبرستان سے نکال کر ڈھاکہ لے جائی جائے لیکن پاکستان نے بنگلہ دیش کی یہ درخواست قبول نہیں کی۔مشرف حکومت نے ایک دن خاموشی سے یہ فیصلہ کر لیا کہ اس غدار کی میت بنگلہ دیش کے حوالے کر دی جائے۔ جون 2006ء کوبنگلہ دیش سے ایک ٹیم کراچی پہنچی، مطیع الرحمن کی قبر کشائی ہوئی ، اس کی لاش بنگلہ دیش کے پر چم میں لپیٹ کر ڈھاکہ پہنچا دی گئی۔ڈھاکہ میں اسے غیر معمولی پروٹوکول کے ساتھ میر پور کے علاقے میں دفن کر دیا گیا۔پوری اکیس توپوں کی سلامی دی گئی۔ بنگلہ دیش کے سب سے بڑے فوجی اعزاز بئر شسترا سے نواز کر قبر میں اتار دیا گیا !! 35 سال پہلے پاکستان کا غدار راشد منہاس کا بنگالی انسڑکٹر مطیع الرحمان 35 سال بعد بنگلہ دیش کا ہیرو قرار پایا۔۔۔
پائلٹ انسٹرکٹر فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان اپنے عہدے سے، اپنے حلف سے غداری کے مرتکب ہوا۔ مطیع الرحمان کا کردار ایک غاصب کا کردار رہا۔ مطیع الرحمٰن ایک مسلم ملک کے خلاف غیر مسلم ملک انڈیا کا آلہء کار بنا۔ اگر مطیع الرحمٰن باقاعدہ بنگلہ دیش کی نمائندگی کرتے ہوئے شہید ہوتا تو بات اور تھی۔
مطیع الرحمان نظامی متحدہ پاکستان میں رہتے ہوئے ، دفاع پاکستان کے لیے خدمات انجام دیتے ہوئے مجرم قرار پائے اورایک جعلی ٹریبونل کے ذریعے انتہائی سفاکی کے ساتھ 10اور 11مئی 2016ء کی درمیانی رات ڈھاکہ کی سنٹرل جیل میں پھانسی لگا دیا گیا۔
سقوطِ ڈھاکہ بہت بڑا المیہ تھا۔ عوامی لیگ کے برسر اقتدار آجانے کے بعد بنگلہ دیش میں پاکستان کا دفاع کرنے والوں کو چن چن کر قتل کیا گیا۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد محب وطن پاکستانیوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ مکتی باہنی اور انڈین فوجوں نے جب مشرقی پاکستان پر حملہ کیا تو ہر محب وطن پاکستانی نے اپنے وطن کے دفاع کیلئے کوشش کی۔ یہ نہ کوئی جرم تھا اور نہ زیادتی۔ جرم اور زیادتی تو بھارت کی جارحانہ فوج اور ان کے ایجنٹ عوامی لیگی مکتی باہنی کے مسلح دستے کر رہے تھے۔ بہرحال پاکستانی فوجوں کو ہتھیار ڈالنا پڑے۔ پاکستانی فوجیوں اور دیگر پاکستانی افراد انڈیا کی قید کی ذلت اْٹھانی پڑی۔
1974ء میں دہلی میں پاکستان، بنگلہ دیش اور انڈیا کے درمیان ایک سہ فریقی معاہدہ طے پایا تھاجس کے مطابق تینوں ملکوں نے عہد کیا کہ ماضی کے کسی واقعہ کو بنیاد بنا کر تینوں ممالک میں کہیں بھی کسی شخص پر کوئی کیس نہیں چلایا جائے گا۔ اس معاہدے پر پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو، بنگلہ دیش کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن اور انڈیا کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے دستخط کیے۔ اس لحاظ سے 2010ء میں شروع کیے جانے والے عوامی لیگی حکومت کے انتقامی ہتھکنڈے ریاستی دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں۔وائے افسوس! پاکستان معاہدے کا فریق ہونے کے باوجود اپنا فرض ادا نہ کرسکا۔ اگر اس معاہدے کی بنیاد پر معاملہ عالمی عدالت میں لے جایا جاتا تو یہ صورت حال نہ ہوتی۔
جون 2006 اورمئی 2016 میں بظاہر کوئی مطابقت یا مماثلت نہیں مگر جون 2006کو ایک غدار ہیرو قرار پایا اور مئی 2016 کو ایک ہیرو غدار ٹھہرا۔۔۔۔۔۔ قومیں افراد کا ہجوم بن جائیں تو انجام ایسا ہی ہوتا ہے۔

حصہ

2 تبصرے

  1. بہت پر اثر مگر دل خراش تحریر!ماضی و حال کے متعدد واقعات اس بات کے گواہ ہیں کہ اہلِ اسلام کو ذلت آمیز شکست
    ہمیشہ اپنوں کی غداری کی وجہ سے ہی ہوئی.
    دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کیطرف
    اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
    اسکی ایک وجہ ہر ہر سطح پر میرِ کارواں میں خو دلنوزی کی کمی بھی ہے …

جواب چھوڑ دیں