ہمیں چاہئیے کہ ۔۔

اسرائل سے ہندستان تک اور ٹرمپوں سے مودیوں تک ہمارا کام بس اتنا ہے کہ ظلم کو ظلم کو کہیں اور بلا تفریق پوری دنیائے انسانیت  اور تمام مستضعفین فی ا لارض کے لیے حصول انصاف کی جدوجہد کو ہر ممکن قوت و استقامت  کے ساتھ جاری  رکھیں ۔ رہی تبدیلی تو ہم صرف انفرادی تبدیلیوں اور صرف اپنے اہل و عیال کو نار ِجہنم سے بچانے کی کوششوں کے مُکَلَّف ہیں ۔ اجتماعی تبدیلی تو صرف مالک حقیقی کے اختیار میں ہے اور وہ عادل بھی ہے اور ہر شے پر قادر بھی !

۱۹۷۹ میں شامی وزیر خارجہ سے گفتگو کرتے ہوئے امام خمینی نے وہ مشہور جملہ کہا تھا جو آج ضرب ا لمثل بن چکا ہے کہ’’ اگر تمام مسلمان اکٹھا ہو کر ایک ایک ڈول پانی ڈالیں تو اسرائل بہہ جائے گا‘‘ لیکن  مسلمانوں کو آج تک نہ ڈول نصیب ہوا ہے نہ بالٹی اور نہ  چلو بھر پانی! دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی اکثریت کو اپنی ہوس کی پیاس بجھانے ہی سے فرصت نہیں ۔یا پھر وہ سوچتے ہیں کہ پہلے اپنے تحفظ کی پیاس تو بجھا لیں پھر اگر کچھ پانی بچ رہا تو اسرائل پر انڈیلنے کے لیے ڈول یا بالٹی بھی تلاش کر لیں گے !

رہے یہودی تو انہوں نے اگر حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہم السلام )ہی کو   نبی مان لیا ہوتا تو آج نہ اسرائل کا کوئی وجود ہوتا نہ دنیا  اتنے عذابوں میں گرفتار ہوتی ! یہودی در اصل دجال کے منتظر ہیں جنہیں وہ مسیح اس لیے کہتے ہیں کہ عیسائی دنیا دھوکے میں رہے ۔ یہودیوں نے عیسائیوں اور بالخصوص فلانجسٹوں ،ایوانجلسٹوں اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں کو یقین دلا رکھا ہے کہ جب تک مسجد اقصیٰ کو گراکر ’ہیکل ‘کی تعمیر نہ ہوگی اور جب تک یروشلم یعنی القدس شریف یا بیت ا لمقدس کو با ضابطہ طور پر اسرائل کی ایسی مکمل راجدھانی  نہیں بنایا جائے گا جہاں اسے تسلیم کرنے والے ان تمام  ملکوں کے سفارت خانے بھی ہوں جو ابھی ’عارضی طور پر ‘ تل ابیب ‘ میں  واقع ہیں ،اس وقت تک ’مسیح موعود ‘ واپس نہیں آئیں گے ! صہیونیت کے ایجنٹ ٹرمپ کا حالیہ اعلان اسی کی شروعات ہے جسے اسرائل کی توقع کے بر خلاف اس کے خانہ زاد ادارے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل تک نے قبول کرنے اور توثیق کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اسرائل کی یہ ہزیمت ’حبل من ا لناس ‘ کے چھینے جانے کا اشاریہ ہے اور  نہ صرف غزہ کی معاشی ناکہ بندی کے خاتمے بلکہ مغربی کنارہ، الخلیل اور القدس (مشرقی یروشلم )  سمیت پورے  فلسطین کے دیواری محاصرے   کے خاتمے کی اُلٹی گنتی شروع ہو چکی ہے ۔ ان شا اللہ ۔ کیونکہ صہیونی یہودی اور ان کے سبھی قدرتی حلیف اور ابلیسی مددگار پاگل ہو رہے ہیں ۔ انہیں یہ احساس ستانے لگا ہے کہ ستر پچھتر برسوں میں اقتدار پر قابض ہونے اور دنیا کو نظریاتی ،تہذیبی ، سماجی اور ثقافتی  طور پر اپنا غلام بنا لینے کے باوجود وہ ابھی تک اپنے اصل نصب ا لعین کو نہیں پا سکے ہیں ۔نہ  ٹرمپیانہ اقدام کے باوجود یروشلم کو تل ابیب کی جگہ اسرائلی راجدھانی بنانے کو پوری دنیا کی حمایت حاصل ہو سکی نہ مسجد اقصیٰ اور قبۃا لصخریٰ کو ڈھا کر اس کی جگہ وہ اپنا ہیکل بنا سکے نہ ان کے قدرتی بھارتی  حلیف ساڑھے چار سو سال قدیم مسجد کو مسمار کرنے میں کامیاب ہوجانے کے باوجود اس کی جگہ اپنے خوابوں کا ’’بھویہ  مندر ‘‘تعمیر سکے۔ صہیونیوں کو محسوس ہوتا ہے کہ ’گریٹر اسرائل ‘  اور عالمی حکومت کے قیام  میں ان کے اندازے سے زیادہ تاخیر ہو چکی ہے ۔ ان کے مزعومہ گریٹر اسرائل کے نقشے  میں ارض مقدس حجاز یعنی مدینہ منورہ سے لے کر پورا عراق ،شام ،لبنان ،اردن ،صحرائے سینا ،جنوبی ترکی اور دریائے فرات سے دریائے نیل کے درمیان کا پورا علاقہ شامل ہے !ان کا عقیدہ ہے کہ یہ ’سرحدیں ‘ ان کی مقدس کتاب تالمود میں درج تفصیلات کے عین مطابق ہیں !

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم اب بھی سورہے ہیں بلکہ عرب حکمرانوں کی اکثریت اپنی تمامتر دولت کے ساتھ صہیونیت کی مٹھی میں جا چکی ہے ۔

ڈیوڈ بن گوریان نے مئی ۱۹۴۸ میں صہیونیت کے چارٹر کا اجرا کرتے ہوئے کہا تھا کہ ۔۔

’’ہمیں ہر طرح کی پر تشدد جارحیت کے لیےتیار رہنا چاہئیے ،ہمارا ہدف شام لبنان اور اردن کے ٹکڑے کرنا ہے ۔پھر ہم عرب دنیا کے ٹکڑے کریں گے اور اس کے بعد ہم پورٹ سعید ،اسکندریہ اور سینائی پر بمباری کریں گے ۔۔‘‘!

 پچھلے سولہ سترہ برسوں میں وسطی ،مغربی اور جنوبی ایشیا اور شمالی افریقہ ،لیبیا، عراق ،شام، لبنان ،ایران ،قطر ،سعودی عرب،مصر اور ترکی میں جو کچھ ہوا ہے اور ہو رہا ہے وہ  بیشتر صہیونی مقتدرہ کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے لیکن مکرو ا ومکر اللہ وا للہ خیر ا لماکرین !

کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ سب کچھ صہیونی مقتدرہ کی مرضی کے مطابق نہیں ہوا ہے!اہل ایمان کے مٹھی بھر لیکن طاقتور دشمنوں کو چھوڑ کر اسرائل کے حامیوں کی تعداد بڑھنے کے بجائے پوری دنیا میں گھٹتی جا رہی ہے ۔ دنیا میں خیر اور شر کی واضح تقسیم کا آغاز بھی ہو چکا ہے ۔وہ چاہے عرب اور مسلمان ہی کیوں نہ ہوں ،صہیونیت اور اس کے مددگاروں کی  یکساں بد انجامی مقدر ہے ۔لیکن ،سوال یہ ہے کہ ہم کدھر ہیں ؟

حصہ
mm
لکھنو کے رہنے والے عالم نقوی ہندوستان کے ایک کہنہ مشق صحافی،اور قلم کار ہیں وہ ہندوستان کے مختلف اخبارات و جرائد ور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں