ایوان اقتدار میں چوہے بلی کا کھیل

بچپن سے پچپن کے قریب آن پنہچے مگر اقتدار کے ایوانوں میں چوہے بلی کا جو کھیل اول روز سے دیکھ رہے تھے وہی آج بھی چل رہا ہے۔ جو ’’چوہے‘‘سمجھتے ہیں کہ ’’بلی‘‘ کا دل اب ’’دودھ‘‘ سے اچاٹ ہو گیا ہے، وہ بچوں کے درسی کتب میں موجود وہ سبق ایک بار پھر سے ضرور پڑھیں جس میں ’’چوہوں‘‘ کی ’’مجلسِ شوریٰ‘‘ نے بہت سوچ بیچار کے بعد یہ طے کیا تھا کہ بلی کی آمد سے قبل چوہوں کو ہوشیار کرنے کے لیے، بلی کے گلے میں ایک گھنٹی باندھ دی جائے۔ مگر وہ ’’مجلسِ شوریٰ‘‘ اپنے ارمانوں کے تھان لپیٹ کر اس مایوسی کے ساتھ برخواست ہوگئی تھی کہ ’’بلی کے گلے میں گھنٹی آخر باندھے، تو کون؟‘‘۔
محمد علی جناح نے پاکستان بنایا اس لیے ہم انہیں ’’قائداعظم‘‘ کہتے ہیں مگر یقین جانیں کہ جس لیڈر نے ’’بلی‘‘ کے گلے میں کامیابی کے ساتھ ’’گھنٹی‘‘ باندھ دی، وہ قائداعظم سے بھی بڑا لیڈر بن کر ابھرے گا اور وہ وقت آئے گا ضرور۔ میں نہیں تو میرے بیٹے، وہ نہیں تو ان کی اولادیں ایک دن انشاء اللہ یہ منظر ضرور دیکھیں گی۔ موجود سیاستدانوں کے ’’کیڈر‘‘ میں تو مجھے ایسا کوئی لیڈر دور دور تک نظر نہیں آ رہا۔ مگر میں اللہ کی ذات سے مایوس نہیں۔ اس نے ’’فرعون‘‘ کے لیے ’’موسیٰ‘‘ پیدا کیا تھا۔
آپ نے کبھی مردے کی ’’حالتِ سکرات‘‘ دیکھی ہے؟ یہ موت اور زندگی کی درمیانی کیفیت ہوتی ہے۔ یہ وہ حالت ہوتی ہے جس میں بندہ دنیا سے جا چکا ہوتا ہے مگر ابھی نہیں گیا ہوتا۔ اس کے جسم میں جان ہوتی ہے مگر وہ دنیا میں نہیں ہوتا۔ یہ وہ کیفیت ہوتی ہے جس میں بندہ دنیا میں بھی موجود ہوتا ہے اور غیب کے پردے میں مستور آخرت کے مناظر بھی دیکھ رہا ہوتا ہے مگر دنیا والوں کو بتا نہیں سکتا کہ وہ کیا کچھ دیکھ رہا ہے۔
ہمارے سیاستدان جب بادشاہ گروں سے مک مکا کرکے اقتدار کی ’’سکراتی دیوار‘‘ پر جا بیٹھتے ہیں تو سچ یہ ہے کہ وہ بیک وقت دونوں اطراف کے مناظر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہ بول نہیں سکتے، بیان نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ نوازشریف صاحب نے کچھ دن قبل بیان دیا تھا کہ ’’میرا دل کرتا ہے کہ سب کچھ بتا دوں‘‘۔ بے نظیر صاحبہ، مشرف سے این آر او کرکے مشرف کے حرمِ اقتدار میں داخل ہوئیں۔ کل شہید بی بی کی برسی پر ان کے شوہر نامدار نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ہم کوئی نیا این آر او‘‘ ہونے نہیں دیں گے۔
بندہ پوچھے کہ بھائی آپ کس سے مخاطب ہیں، کس کو چتاؤنیاں دے رہے ہیںَ؟ اگر آپ اور میاں صاحب ہمیشہ ’’این آر او‘‘ اور ’’مک مکا‘‘ کر کے ہی اقتدار میں آتے رہے ہیں تو پھر دوسرے ’’چوہوں‘‘ کو کیوں یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بھی اپنی قیمت لگوائیں اور عوامی ووٹوں کو ایک ٹوکرے میں ڈال کر کسی کے ہاتھ چند کوڑیوں کے عوض بیچ دیں یا پھر تحدیث نعمت کے طور پر بوٹوں کی اوپری سطح کے ساتھ ساتھ تلوے بھی چاٹیں

حصہ

جواب چھوڑ دیں