آج کا نوجوان قانون سے باغی کیوں؟

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کچھ روز قبل ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ اگر بابے سے کوئی غلطی بھی ہوجائے تو اسے مان لینا چاہیے اور اس پر تنقید نہیں کرنی چاہئے کیوں کہ بابا کسی کا برا نہیں سوچتا۔ چیف جسٹس کا یہ بیان کس کے لیے تھا اور کس کے لیے نہیں ہم اس بحث میں نہیں پڑتے ،تاہم عدالت سے پھانسی کی سزا پانے والے ایک شخص کی رہائی سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ بابا اکثر وبیشتر ایسے فیصلے کرکے پوری قوم کو حیران وپریشان ضرور کردیتا ہے۔
قانون سے کوئی بالا تر نہیں ، قانون سب کے لیے ، انصاف کا بول بالا ہوگا، امیر وں کے لیے الگ اور غریبوں کے لیے الگ قانون نہیں چلے گا۔ یہ سب باتیں روزانہ کی بنیاد پر کبھی سیاسی مداریوں کے منہ سے سنتے ہیں تو کبھی بابے کے منہ سے ۔ لیکن 70سالوں سے ایک ہی منظر آنکھوں کے سامنے ہے اور وہ ہے قانون صرف غریبوں کے لیے اور انصاف صرف امیروں کے لیے۔اس سے آگے نہ تو کچھ دیکھا اور نہ ہی کبھی سنائی دیا۔
ہمیں وہ عورت بھی یاد ہے جس کے جوان سالہ بیٹے کو بے دردی سے مار دیاگیا اور اس نے عدالت میں کھڑے ہوکر یہ کہا تھا میری جوان بیٹیا ں ہیں لہذا میں یہ مقدمہ واپس لیتی ہوں۔ ہم تو اسے بھی نہیں بھولے جسے عدالت نے 18سال بعد یہ کہہ کر رہا کردیا کہ قانون اس ناانصافی پر شرمندہ ہے۔ یاد تو ہمیں وہ مقدمہ بھی جس کی ننانوے سالہ تقریب عدالت میں ہی منائی گئی۔ کیسے بھول سکتے ہیں جب ایک بے روزگاری سے تنگ نوجوان کو معمولی سی چوری پر سزا سنائی گئی اور نیب نے اربوں روپے لوٹنے والوں کوپلی بارگین کے تحت آزاد کردیاتھا۔ یاد تو ہمیں رمضان المبارک میں مجسٹریٹ کے وہ چھاپے بھی ہیں جب ایک غریب پھل فروش فروٹ صرف پانچ روپے اضافی قیمت پر بیچ رہا تھا اور اسے موقع پر ہی چھ ماہ کی قید کی سزا اور پانچ ہزار روپے جرمانہ کردیا تھا جب کہ بھولے تو اسے بھی نہیں جس نے قومی خزانوں کو اربوں کھربوں کا نقصان پہنچایا مگر قانون کی پہنچ سے دور رہا۔ کیسے بھولاجائے اس کیس کو جو سابق وزیراعظم شوکت ترین کے خلاف بنا جس کا اب تک کوئی فیصلہ نہیں آسکا۔ بھٹو کا کیس آج بھی بھٹو کی ہی طرح زندہ ہے۔ ایک نوجوان کو سڑک کے بیچ گولیاں ماری جاتی ہیں اور قاتل اول تو گرفتار نہیں ہوتے اور اگر ہوجائے تو چند گھنٹوں یا چند دنوں میں وہ کس طرح آزاد گھوم رہے ہوتے ہیں یہ سب بھی روزانہ کی بنیاد پر آپ کا قانون ہمیں دکھاتا ہے۔
بابے نے سوچا میں نے انصاف کیا مگر اس انصاف نے کتنے نوجوانوں کو باغی کیا اس کا کوئی حساب نہیں۔ اگر صحیح معنوں میںآج نوجوانوں سے معلوم کیاجائے تو ان کا قانون اور انصاف سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ 90فیصد نوجوانوں کی رائے یہی ہوگی کہ انہیں اس کھوکھلے اور ذاتی مفادات کے لیے بنائے گئے قانون پر ایک پائی کا بھی بھروسہ نہیں رہا۔ آج کا نوجوان ان لٹیروں کو دیکھتا ہے اور ان کے حوالے سے جب فیصلے دیکھتا ہے تو اس کی نظر میں قانون کی کوئی وقعت نہیں رہتی۔ بابا جی آج کا نوجوان قانون سے باغی ہورہا ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ غلطی پر برا بھلا نہ کہاجائے، یہ کیسے ممکن ہے۔؟
شاہ زیب نے کیا خود کہا تھا کہ آؤ مجھے قتل کردو؟ یا پھروہ خود اس گولی کے سامنے آگیا جس نے ایک ہنستا بستا گھر اجاڑدیا؟ اگر جیلوں میں سروے کیاجائے تو ہزاروں افراد ایسے موجود ہیں جن کے مدعیوں نے انہیں معاف کردیا ہے مگر آپ کا یہ کھوکھلا قانون انہیں آزاد نہیں کررہا کیوں کہ ان کے جیب میں یا پیسے نہیں یا پھر شاہ رخ جیسی طاقت ۔ کیا آپ کے قانون نے شاہ رخ کو نیک نمازی بناکر رہا کیا ہے یا اس نے جیل کم اسپتال میں زیادہ جو لمحے گزارے اس میں حج کرلیا تھا ؟
بابے کے غلط فیصلے تاریخ میں اکا دکا ہوتے تو پھر سمجھ آتی۔ مگر یہاں تو غلط فیصلوں سے ہی پوری تاریخ بھری پڑی ہوئی ہے، اور اب بھی بابا یہ کہہ رہا ہے کہ اگر کوئی غلط فیصلہ ہوجائے تو اسے مان لینا چاہیے۔ کیسے مان لیں ۔ ہمیں تو یہ بھی یاد ہے کہ ایک چیف جسٹس کا بیٹا اغوا ہوگیا تھا اور اس پر جتنی اذیت قوم نے بھگتی تھی وہ شاید ہی کسی اور محسوس بھی کی ہو۔ جگہ جگہ ناکے لگا کر آپ کے قانون نے جس طرح غریبوں کو لوٹا اور انہیں ذلیل کیا اسے کیسے بھول سکتے ہیں۔ ہزاروں افراد اس وقت لاپتہ ہیں جن کے لواحقین آج بھی اپنے پیاروں کی راہیں دیکھ رہیں ان کی امیدوں کا محور یہی بابا ہے مگر بابا نے کبھی ان پر اس طرح ایکشن نہیں لیا جتنا اپنے پیارے کے لیے لیا تھا اور صرف ایک ماہ کے اندرہی ان کا پیارا بازیاب بھی ہوگیا۔اسی طرح ایک اور سابق چیف جسٹس کا بیٹا کرپشن کے الزام میں نہ تو گرفتار ہوتا ہے اور نہ ہی اسے کوئی سزا ہوتی ہے اور معاملہ ختم بھی ہوجاتا ہے۔ یہ بابا کی طاقت تھی جس نے یہ سب کچھ کروایا۔ بابا اگر چاہے تو یہی طاقت دوسروں کے لیے بھی استعمال کرکے غریبوں کی بھی دعائیں لے سکتا ہے ۔
ایک شخص کھلے عام یہ کہتا پھررہاہے کہ وہ بابے کے خلاف تحریک چلائے گا بابے نے اس کے ساتھ ناانصافی کی ہے۔بابا اس کے خلاف کوئی توہین عدالت کا کیس نہیں بناتا،جب کہ دوسری طرف یہی حرکت اگر کوئی غریب کردے توا س پرفوری طورپر توہین عدالت کا لیبل لگا کر جیل بھیج دیاجاتا۔ بابے کا یہ کیسا انصاف ہے،جو ستر سالوں سے صرف غریب کے لیے ہی ہے۔ امیر ستر سالوں میں آج بھی بابے کی پہنچ سے دور ہیں۔

حصہ
mm
روزنامہ جسارت سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف بلاگز ویب سائٹس پر بلاگ ‘فیچرز اور تاریخی کہانیاں لکھتے ہیں۔ روزنامہ جسارت کے سنڈے میگزین میں بھی لکھ رہے ہیں۔ روزنامہ جناح کراچی میں بطور سندھ رنگ میگزین کے انچارج کے طورپر اپنی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ زیادہ تر معاشرتی مسائل پر لکھنے کا شوق ہے۔ اس کے علاوہ کراچی پریس کلب کے ممبر اورپاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے بھی ممبرہیں۔

جواب چھوڑ دیں