ہے کوئی جواب؟ 

ڈرے اور سہمے ہوئے بچے مکان کے ایک کونے میں دبکے ہوئے بیٹھے تھے۔ایک روتی ہوئی لڑکی کسی چیز کی آڑ میں بیٹھی خود کو دوپٹے میں چھپائے لرز رہی تھی۔ماں ایک طرف مصلیٰ بچھائے خدائے ذوالجلال سے عافیت طلب کر رہی تھی کہ خدایا! تو ہی ہے، معلوم نہیں تمہیں کیامنظور ہے، ہماری مدد فرما، ان بدھوؤں سے ان کی سفاکیت سے ہماری حفاظت فرما اور اگر تمہیں یہ فیصلہ نہیں منظور تو ہمیں اپنے پاس بلا لے، کوئی ہماری عزتوں ، عصمتوں کو تار تار نہ کر پائے۔ وہ دعا میں ہی مشغول تھی کہ بچوں کی سسکیاں بڑھ گئیں اور وہ روتے ہوئے بچے ڈرے ڈرے ماں کے پاس آگئے۔ ماں نے جلدی سے نماز مکمل کی اور بچوں کی طرف متوجہ ہوئی۔ تب اسے پتا چلا کہ مکان کو ایک طرف سے آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیاہے۔بچے بے آواز رو رہے تھے، وہ آواز تک نہیں نکال سکتے تھے کہ آوز سن کر خونی درندے چادرو چاردیواری کا تقدس پامال کر کے ناموس کی دھجیاں اڑانے میں کمال رکھتے تھے۔
ماں نے سوچا گھر میں رہے تب بھی جل جائیں گے، باہر نکل جائیں ممکن ہے جان کی امان پائیں۔ وہ بھول رہی تھیں کہ بدھو سسکتی انسانیت کو دیکھ کر ان پر دیوانہ وار ٹوٹ پڑتے ہیں ۔بدھوؤں نے ہی تو ان کے مکان کو آگ لگائی تھی کہ اندر رہنے والے لوگ آگ سے جان بچا کر باہر بھاگیں اور ہم ان کی عزت و عصمت سے کھیل کر ہوس کی آگ بجھائیں اور پھر انہی کے خون سے اپنی پیاس بجھائیں۔نمنماتی صورتیں لیے یہ گھرانہ مصائب کے جبڑوں میں خود کو پیش کرنے آگ سے بچاؤ کے لیے گھر سے نکل گیا۔ بدھوؤں نے اپنی چال کامیاب ہوتی دیکھی تو ان کی عید ہوگئی، خوشی سے سرشار وہ اپنی چھریوں کو تیز کرنے لگے۔
وہ ایسے خوش تھے جیسے چیل، گدھ اور شکرے مردہ جانوروں کو دیکھتے ہی فضاؤں میں غول در غول اپنی مخصوص آوازیں نکالتے ،اڑانے بھرتے خوشی منا رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح جب مظلوم اور سسکتی انسانیت کا انبوہ کثیر بدوؤں نے دیکھا تو اپنے خشک ہونٹوں پر اپنی پیاسی زبانیں پھیرنے لگے۔ ماں اپنے بچوں کو لیے سہمتی ہوئی آگے بڑھی تو ان جیسے اور بھی بہت سے گھرانے چادر ، چاردیواری، سایہ، حفظ و امان سے محروم ہوئے کسی محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں سوئے مقتل جارہے تھے۔انہیں خبر ہی نہ تھی کہ چند لمحوں میں ان پر ایک اور قیامت ٹوٹنے والی ہے۔ وہ مع اہل و عیال خونی خلعت پہنے بقائے دوام کی طرف روانہ ہونے والے ہیں۔ وہ ذراسا آگے بڑھے تو آگے خونی بھیڑیے انہیں کے منتظر تھے۔
ٍ ماں نے اپنے بچوں پر ایک اداس نگاہ ڈالی جیسے ابھی کوئی گدھ آئے گا اور اس کے سامنے اس کے بچے کو اٹھا لے جائے گا، یا پھر جیسے وہ اب ان سے جدا ہونے والی ہے۔ بچوں میں سے ان کے بڑے بیٹے ،جو بمشکل دس سال کا تھا،نے اپنی ماں کی پریشانی بھانپتے ہوئے معصومیت سے کہا:امی!یہ لوگ اب ہمیں بھی مار دیں گے؟یہ آپی کو اٹھا کے لے جائیں گے؟ امی جی ! یہ آپ کے بھی کپڑے پھاڑ دیں گے۔امی ! آپ ناں…..!یہ میری قمیص لے لیں ،اس نے قمیص اتارکر ماں کو دیتے ہوئے کہا۔ جب وہ آپ کے کپڑے پھاڑیں آپ یہ پہن لینا۔بچے اپنی معصوم سوچ ،اپنے معصوم عزائم سے آگاہ کر رہے تھے ،سا تھ ہی معصوم سے ذہن میں لائحہ عمل بھی طے کر رہے تھے۔ اور ماں کا دل کٹا جارہا تھا۔ اس ماں کے پاس آج بچوں کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا جو ہر ہر سوال پر اپنے بچوں کو مطمئن کر لیا کرتی تھی۔
وہ لڑکا اپنی بہن کی طرف متوجہ ہوکے بولا: آپی ! جب وہ آپ کو کچھ کہیں ناں ؟ تو آپ میرے پیچھے چھپ جانا میں کچھ نہیں ہونے دوں گا، آپ ڈرو نہیں۔معصوم سا بھائی اپنی بہن کی ناموس کی تحفظ میں یہ تک بھول گیا تھا کہ وہ تو ابھی چھوٹا ہے۔ اس پھول کو تو خود ابھی تحفظ کی ضرورت ہے۔ اس جیسے بچے تو ان گدھوں اور بھیڑیوں کا ایک نوالہ ہیں۔یہ انہی باتوں میں مگن چلے جارہے تھے کہ خونی بدھو چشم حقارت سے گھورتے ہوئے ان کی طرف بڑھے ۔ وہ بھیڑیے اور سانڈ دکھ رہے تھے،’’ بدھ مت کے پیروکار بھی انسان ہیں ‘‘ یہ سنی ہوئی بات جھوٹ معلوم ہو رہی تھی۔انہوں نے بھاگنے کی بجائے خود کو حالات کے بھنور میں چھوڑ دینا مناسب سمجھا۔ انہیں پتا تھا کہ اگر وہ بھاگنے لگے تو اس سے بھی دردناک موت مقدر ہوگی اور اگر بالفرض بچ بھی گئے تو کون ہمیں قبول کرے گا؟
بدھو وجد سے مخمور ان کی طرف لپکے اور ایک ایک کے خون سے اپنی پیاس بجانے لگے۔ کسی نے بھی جان بچانے کی کوشش نہ کی، جیسے وہ اس پر بھی راضی ہوں۔وہ جان چکے تھے کوئی انہیں بچانے نہیں آئے گا۔اللہ کو یہی منظور ہوگا۔ وہ جانتے تھے کہ انہیں نبی پاک ﷺ کا امتی ہونے کی سزا مل رہی ہے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ خون مسلم ارزاں ہے۔انسانیت کا ڈھونگ رچانے والی تنظیمیں سر بمہر ہیں۔ انسانیت کے پرستار مسلم حکمران بھی خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں، تو کچھ اپنی رنگینیوں میں مگن ہیں۔وہ سوچ ہی رہی تھی کہ ایک بدھو بھیڑیے کا خنجر اس کے معصوم بچے کی گردن کو چھو چکا تھا۔وہ چیخ سنتے ہی پیچھے مڑی تو اس کا دوسرا بیٹا جو اپنی بہن کی عزت و عصمت کا رکھوالا بنا تھا، اپنی بہن کو بدھوؤں سے تو بچا چکا تھا مگر موت سے نہ بچا پایا تھا۔ بدھوؤں نے آسان شکار پہلے کیا ، دونوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
اس کے آنسو خشک ہوچکے تھے، گلے میں پھانس اٹکا تھا۔ وہ آنکھیں موند کے موت کا انتظار کرنے لگی۔ساتھ دل ہی دل میں رب کے حضور فریاد کرنے لگی کہ
الٰہی!طارق بن زیاد کو بھیج دے،
الٰہی ! موسی ٰ بن نصیر کو بھیج دے،
خدایا! ہماری مدد فرما،
خدایا!محمد بن قاسم کو بھیج دے ۔
اس کی دعا ابھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ اس نے ایک بدھو کو اپنے قریب محسوس کیا ، آنکھیں کھولیں توایک سانڈ ہاتھ میں خنجر لیے اس کے سر پر موجود تھا،وہ اٹھی تو بدھو نے اسے بازو سے پکڑ کراپنی طرف گھسیٹنے کی کوشش کی۔ اس نے دھکا دیا اور خود کو اس کے چنگل سے چھڑا کر بھاگی ، پھٹا ہوا دوپٹہ بدھو کے ہاتھ میں رہ گیا اور وہ اس کے ہاتھ سے نکل گئی مگر عورت ذات کہاں تک بھاگتی؟ یہاں تو ان کے سروں پر موت کے بادل منڈلا رہے تھے، بدھ مت کے پیروکار جنگلی درندوں سے بدتر شکل دھارے خون مسلم سے پیاس بجھانے کی میں لگے تھے۔ اسے بھاگتا ہوا دیکھ کر بدھو بدمعاشوں کی ٹولی اس پر جھپٹ گئی ، اس کے کپڑے پھاڑ دیے۔
وہ روتی رہی ، چلاتی رہی۔ کبھی خدا کو پکارتی تو کبھی نبی کا واسطہ دیتی مگر بدھو یہی کہتے کہاں ہے تمہارا خدا؟ وہ روتی ہوئی اپنے بیٹے کو پکارنے لگی: احمد بیٹا! دیکھو ناں….ان ظالموں سے بچاؤ ناں….قمیص دو ناں….بدھ مت کے پیروکار قہقہے لگاتے رہے اور اس کی تمام تر آوازیں،آہ و بکا، سسکیاں، چیخیں، گوش سحاب کی نذر ہوگئیں اور پھر آسمان نے وہ منظر دیکھا جس نے تاریخ کے بھی رونگھٹے کھڑے کر دیے ۔ اس بدھوؤں نے اس پاکباز مسلم عورت کا سر قلم کر دیا۔اور میں اور آپ اور ہمارے چنیدہ حکمران خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے۔ اس بات سے بے پرواہ کہ یہ وقت ہم پر بھی آسکتاہے۔ یا کل بروز قیامت خدا تعالیٰ نے سوال کیا تو کیا جواب دیں گے؟ ہے کوئی عذر؟

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں