مکافات عمل

وہ اور سلو دونوں گہرے دوست تھے۔
دونوں ہم جماعت اور پڑوسی بھی تھے۔
کالج بھی ایک تھا اور رہائش بھی ایک ہی محلے میں تھی۔
دونوں ساتھ گھومتے پھرتے۔
دوستی ایسی کہ روز کا اٹھنا بیٹھنا بھی ایک ساتھ تھا۔
اس کی اور سلو کی دوستی کافی پرانی تھی۔
ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی کہلاتے تھے۔
وہ اور سلو روز بیٹھ کر خوش گپیاں کیا کرتے۔
حسب معمول دونوں دوست خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
سلو نے جوں ہی سامنے سے گرلز اسکول کی لڑکیاں آتی دیکھی تو ٹک ٹکی باندھ لی۔
سلو نے کہا یار دیکھ کیا پیس جارہا ہے۔
وہ مسکرایا اور بولا وہ چھوڑ یار یہ دیکھ کیا بچی ہے۔
سلو نے منہ بناتے ہوئے کہا تیری تو کوئی چوائس ہی نہیں۔
اس پر دونوں دوستوں کے درمیان زوردار قہقہوں کا تبادلہ ہوا۔
اتنے میں سلو نے دائیں جانب سے آتی ہوئی ایک لڑکی کو دیکھا۔
سلو نے اس سے کہا یار حسینہ قاتل تو دیکھ کیا چیز آرہی ہے۔
اس کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔
سلو ایک بار پھر اپنے دوست سے مخاطب ہوا یار دیکھ تو کیا غضب کی حسینہ ہے۔
اس بار بھی اس نے جواب نہیں دیا۔
سلو کی نظریں مسلسل لڑکی کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔
سلو ایک بار پھر بولا یار جانی دیکھ تو کیا کنچا پیس، ابھی سلو کے الفاظ پورے ادا ہی نہیں ہوئے تھے۔
وہ چیخا چپ کر میری ” بہن” ہے۔

حصہ
mm
سید ثاقب شاہ اپنے قلمی نام ابن شاہ سے بھی لکھتے ہیں،گریجویٹ ہیں۔مانسہرہ کے رہنے والے ہیں لیکن ان دنوں کراچی میں مقیم ہیں۔

جواب چھوڑ دیں