سزائے موت کا قانون،درست یا غلط؟

پاکستان میں نافذالعمل آئین1973 میں ملک کی تمام پارلیمانی جماعتوں نے متفقہ طور پر منظور کیا، جس کے تحت پاکستان میں کوئی بھی قانون قرآن و سنّت کیخلاف نہیں بنایا جاسکتا اب چونکہ اسلام میں سزائے موت کا تصور موجود ہے لہذا یوں سزائے موت کو پاکستان کے قانون کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اسلام میں سنگین جرائم سرزد ہونے پرسزائے موت کے احکامات ہیں جیسے کہ قتل،اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت یا حالت جنگ میں مدمقابل کے لیے۔
دنیابھر میں سزائے موت زیادہ تر قتل یا بغاوت کے جرم میں سنائی جاتی ہے لہذا بحث کو ان ہی جرائم اور ان کے نتیجے میں ملنے والی سزائے موت تک محدودرکھا ہے۔ اسلام میں بنیادی طور پر دو قسم کے حقوق بیان کئے گئے ہیں حقوق اللّہ اور حقوق العباد، حقوق اللّہ سے مراد اللّہ کے حقوق ہیں یعنی فرائض نماز، روزہ، حج، زکوۃ وغیرہ۔ ان حقوق میں کوتاہی کو معاف کرنا خالصتاً اللّہ کا اختیار ہے لیکن اسلامی تعلیمات کے مطابق حقوق العباد جن کا تعلق انسانوں سے ہے یعنی ماں باپ کے حقوق، بہن بھائیوں کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق وغیرہ ان حقوق میں کوتاہی، اللّہ تب تک معاف نہیں کرتا جب تک متاثرہ شخص یا گروہ معاف نہ کردے یا پھراسلامی قانون کے مطابق مجرم کو سزا نہ دے دی جائے۔ اسلام میں قاتل شخص کے لئے معافی کا تصور بھی موجود ہے جس میں لواحقین کواختیارحاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے بغیر کسی دباو کے خون بہا کی رقم کے عوض قاتل کو معاف کرسکتے۔درج ذیل چند آیات بیان کی گئی ہیں جن سے ہمیں اسلام میں سزائے موت کے احکامات سے متعلق معلومات ملتی ہیں۔
“کسی مومن کو دوسرے مومن کا قتل کردینا زیبا نہیں مگر غلطی سے ہوجائے( تو اور بات ہے ) جو شخص کسی مسلمان کو بلا قصد مارڈالے اس پر ایک مسلمان غلام کی گردن آزاد کرنا اور مقتول کے عزیزوں کو خون بہا پہنچانا ہے ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ لوگ بطور صدقہ معاف کردیں اگر مقتول تمھاری دشمن قوم کاہو اور ہو وہ مسلمان تو صرف ایک مومن غلام کی گردن آزاد کرنا لازمی ہے، اگر مقتول اس قوم سے ہو کہ تم میں اور ان میں عہد پیمان ہے تو خون بہا لازم ہے جو اس کے کنبے والوں کو پہنچایا جائے اور ایک مسلمان غلام کا آزاد کرنا بھی ضروری ہے پس جو نہ پائے اس کے ذمّے دومہینے کے لگاتار روزے ہیں اللّہ تعالی سے بخشوانے کے لئے اور اللّہ تعالی بخوبی جاننے والا اور حکمت والا ہے۔”
دنیا بھر میں سزائے موت کے خلاف آواز اٹھانے میں سرے فہرست ادارہ ایمنسٹی انٹر نیشنل (AI) ہے اس ادارے نے 1977 میں سویڈن میں سزائے موت کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے ایک کانفرنس منعقد کی جو 1979 میں نوبل انعام حاصل کرنے میں سنگ میل ثابت ہوئی اس کانفرنس میں ایک عالمی منشور پیش کیا گیا جس میں تمام ممالک سے سزائے موت کو ختم کرنے کی اپیل کی گئی اور اسی سال AI نے دنیا بھر کے ممالک میں سزائے موت کے اعداد شمار پر مبنی ایک رپورٹ شائع کی تب سے ہی AI سزائے موت کو مانیٹر کرنے اور اس حوالے سے نگرانی کر نے اور اس کے خلاف آواز اٹھانے والے ادارے کے طور پر جانا جانے لگا۔1981 میں AI نے فرانس کے صدارتی انتخابات کے دوران فرانس میں سزائے موت کے خلاف لوگوں کو متحرک کرکے بھرپورمہم چلائی اور صدارتی امیدواروں سے سزائے موت کے خاتمے کا مطالبہ کیا جو بعد میں نو منتخب صدرنے منطور کرلیا اور فرانس میں سزائے موت ختم کردگئی۔ نومبر 2007 میں AI نے کچھ دوسری انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ میں پانچ ملین لوگوں کے دستختوں کے ساتھ ایک قرار داد پیش کی جس میں اقوام متحدہ (UN) سے سزائے موت کو دنیا بھر سے ختم کروانے کے لئے کردار ادا کرنے کی اپیل کی گئی۔ دسمبر 2007 میں UN نے اس قرار داد کو منظور کرلیا تو یوں اس مقصد میں UN بھی شامل ہوگیا ان تمام کاوشوں کے نتیجے میں اب تک 105 ممالک ایسے ہیں جہاں سزائے موت کا قانون مکمل طور پر ختم کردیا گیا ہے اور 8 ممالک ایسے ہیں جہاں سزائے موت کو فوج سے متعلق معاملات تک محدود کردیا گیا ہے اور 29 ممالک ایسے ہیں جہاں سزائے موت کا خاتمہ تو نہیں کیاگیا لیکن سزائے موت پانے والے مجرموں کی سزا پر عمل درآمد روک دیا گیا ہے مجرم عمر قید کی سزا کاٹتے ہیں۔2014 تک پاکستان بھی ان ممالک میں شامل تھا لیکن آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد جب نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تو سزاء پر عمل درآمد دوبارہ شروع کردیا گیا۔
اس کے علاوہ 56 ممالک ایسے ہیں جہاں سزائے موت کاقانون بھی ہے اور اور اس پر عمل درآمد بھی ہوتا ہے ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔
بنیادی طور پر AI کے سزائے موت پر پانچ اعتراضات ہیں جوکہ اس ادارے کی آفیشل ویب سائٹ سے لئے گئے ہیں۔
پہلا اعتراض یہ ہے کہ سزائے موت ایک حتمی اور ناقابل واپسی سزاہے جس میں غلطی کا عنصر ہمیشہ موجود رہتا ہے جسے کبھی ختم نہیں کیا جاسکتا AI کے مطابق امریکہ میں 1973 سے اب تک 150ایسے قیدی تھے جنہیں سزائے موت سنائی گئی لیکن بعد میں بے گناہ ثابت ہونے پر رہا ہوگئے اور کچھ ایسے بھی سزا یافتہ قیدی تھے جن کے مجرم ہونے پر شدید شکوک و شبہات تھے لیکن انہیں پھانسی دے دی گئی۔
مندرجہ بالا بیان کئے گئے اعتراض کی حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہo منصف بھی انسان ہوتے ہیں اور ان سے غلطی بھی ہو سکتی ہے لیکن ہمیشہ بیماری کا علاج کرنا ترجیح ہوتا ہے نہ کہ بیمار عضو کو کاٹ کر پھینک دیا جائے اس لئے بجائے سزائے موت کو ختم کرنے پر توانائیاں صرف کریں ہمیں دنیا بھر میں عدالتی نظام کو جدید سائنسی خطوط پر استوار کرنے کے لئے کوششیں کرنی چاہیے نظام انصاف کو بہتر بنانے کے لئے کام کرنا چاہیے۔ آخر سائنس نے اتنی ترقی کی ہے وہ کس کام آئے گی ہمیں ثبوت اکھٹا کرنے کے جدید طریقوں کو اپنانے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے مزید قانون سازی کی ضرورت ہے نہ کہ کسی قانون کو ختم کرنے کی کیوں کہ یہ ایک فطری قانون ہے اور اسلام بھی دین فطرت ہے اسی لئے سزائے موت کا تصور پیش کرتا ہے مثلا اگر کسی کو کوئی شخص قتل کر دے اور قا تل پکڑلیا جائے اس پر جرم بھی ثابت ہوجائے پھر مقتول کے لواحقین سے سوال کیا جائے کہ قاتل کے لئے سزا تجویز کریں تو میرے خیا ل سے 99 فیصد لواحقین موت کی سزاتجویز کریں گے اسی سے لواحقین کی تسلی ہوگی یہی انصاف کا بھی تقاضہ ہے۔
۔AI کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اس بات کا کوئی قابل ذکر ثبوت موجود نہیں ہے کہ سزائے موت جرائم کی روک تھام کے لئے معاون ثابت ہوئی ہے۔
اس اعتراض کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر دنیابھر کے ممالک میں قتل کی وارداتوں کی شرح کا جائز لیا جائے جو کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے منشیات اورجرائم کی جانب سے شائع ہو تے ہیں تو درج ذیل معلو مات ملتی ہیں۔
105 ایسے ممالک بشمول 13 مسلم ممالک جہاں سزائے موت کے قانون کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے ان ممالک میں زیادہ سے زیادہ قتل کی وارداتوں کی شرح 63.25 ہنڈراس کی ہے اور کم سے کم 0.51 آسٹریا کی ہے باقی ممالک میں زیادہ تر کی شرح 5 سے کم ہے۔
8ایسے ممالک بشمول 2 مسلم ممالک جہاں سزائے موت کا جزوی خاتمہ کیاگیا ہے ان ممالک میں زیادہ سے زیادہ قتل کی وارداتوں کی شرح 108.64 ایلسلاویڈر کی ہے اور کم سے کم 1.36 اسرائیل کی ہے۔
29 ایسے ممالک بشمول 13 مسلم ممالک جہاں سزائے موت کے قانون کا خاتمہ تو نہیں کیا گیا لیکن سزائے موت پانے والے مجرموں کو عمر قید میں رکھا جاتاہے ان ممالک میں ذیادہ سے زیادہ قتل کی وارداتوں کی شرح 09۔13 وسطی افریقی جمہوریہ کی ہے اور کم سے کم 49۔0 برونائی دارالسلام کی ہے ان میں شامل باقی تمام ممالک کی شرح 13 سے کم ہے۔
56 ایسے ممالک بشمول29 مسلم ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے جہاں سزائے موت کا قانون بھی موجود ہے اور اس پر عملدرآمد بھی ہوتا ہے ان ممالک میں زیادہ سے زیادہ قتل کی وارداتوں کی شرح 66 عراق اور اس کے بعد 21۔43 جمیکا کی ہے اور کم سے کم 25۔0 سنگاپور اور پھر 31۔0 جاپان کی ہے۔ پاکستان میںیہ شرح 81۔7 ہے اور ان میں شامل ممالک میں زیادہ تر کی 10 سے کم ہے۔
مندرجہ بالا اعدادشمار کو مد نظر رکھتے ہوے اس اعتراض کہ اس بات کا کوئی واضح ثبوت نہیں ہے کہ سزائے موت جرائم کی روک تھام میں مدد گار ثابت ہوتی ہے سے اس حد تک تو اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ صرف سزائے موت کو نافذ کر لینے سے جرائم کی شرح میں کمی نہیں لائی جاسکتی اس کے لئے ان وجوہات کا خاتمہ بھی ضروری ہے جن کی وجہ سے لوگ جرائم کرتے ہیں جن میں سماجی، معاشرتی اور معاشی ناانصافیاں شامل ہیں۔ ہمارا دین اسلام بھی ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں اگر سزائے موت کا حکم ہے توساتھ ہی ساتھ سماجی معاشرتی اور معاشی انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام پر بھی بہت زور دیا گیا ہے کیونکہ انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کے بغیر جرائم کی روک تھام ممکن نہیں۔لیکن ایک رائے یہ بھی ہے کہ ایسے ممالک جہاں نا انصافیوں کی وجہ سے جرائم کی شرح سزائے موت کے ہوتے ہوئے بھی زیادہ ہے اگر وہاں سے سزائے موت کا خاتمہ کر دیا گیا تو جرائم کی شرح مزید بڑھ سکتی ہے لیکن ایک بات تو واضح ہے ایسے ممالک جن کی معیشت بہتر ہے اور انصاف کا نظام بھی موثر ہے اور سزائے موت بھی دی جاتی ہے وہاں قتل کے جرائم کی شرح انتہائی کم ہے جس کی مثال سنگاپور (0.25) اور جاپان (0.31) ہیں۔
۔AIکا تیسرا اعتراض یہ ہے کہ اکثر ممالک میں ملزم کو اپنے دفاع کا پورا حق نہیں دیا جاتا اور تشدد کے ذریعے اعترافی بیان لے کر سزادے دی جاتی ہے ان ممالک میں ایران ‘ عراق اور چین کی مثال دی گئی ہے۔
اور AI کا چوتھا اعتراض یہ ہے کہ سزائے موت کو سیاسی مخالفین کے خلاف بھی استعمال کیا جاتا ہے جس میں ایران اور سوڈان کی مثال دی گئی ہے۔
بجا طور پر ان دونوں اعتراضات میں حقیقت ہو سکتی ہے لیکن اس بنیاد پر سزائے موت ختم کرنے کے جواز تلاش کرنے کے بجائے سیاسی اور سفارتی سطح پر ایسے اقدامات کرنے چاہیے جس کے ذریعے ایسے واقعات کو روکا جاسکے کیونکہ دنیا میں اور بھی قوانین اور آلات ہیں جن کے غلط استعمال سے کسی کی جان لی جاسکتی ہے تو پھر کیا سب ختم کردیا جائے ؟ نہیں بلکہ نظام میں موجود خامیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔
۔AI کا پانچواں اعتراض یہ ہے کہ اگر کوئی ملزم غریب ہے یا کسی اقلیت سے تعلق رکھتا ہے تو اس کیلئے زیادہ امکان ہے کہ اسے سزائے موت دے دی جائے اس کی وجہ مذہبی تعصب ہے اور اس کے علاوہ غربت کی وجہ سے آپ اچھے وکیل کی خدمات بھی حاصل نہیں کرسکتے اگر مدعی مالدار ہے تو وہ اچھے وکیل کے ذریعے آپ پر برتری لے جا سکتا ہے اور یہ بھی کے نچلی عدالتوں سے سزائے موت پانے کے بعد سپریم کورٹ تک اپیلیں کرنا غریب آدمی کے بس کی بات نہیں۔
بے شک یہ اعتراضات بھی درست ہیں اور یہ مسئلہ دنیا بھر کے بیشتر مما لک کے نظام انصاف کو لاحق ہے غریب شخص کے لئے بہت مشکل ہے کہ وہ مہنگے وکیلوں کی خدمات حاصل کرسکے اور موجودہ نظام انصاف میں وکیلوں کی مہارت اور تعلقات کا مقدمہ پر کافی اثر ہوتا ہے اس سلسلے میں ایک حدیث ہے جسے اسی معنی میں لیا جا سکتا ہے۔
” رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلم نے اپنے حجرے کے دروازے پر جھگڑنے والوں کا شور سنا ، آپ باہر نکل کر ان کی طرف گئے اور فرمایا میں ایک انسان ہوں اور میرے پاس جھگڑا کرنے والے آتے ہیں، ہو سکتا ہے ان میں سے کوئی دوسرے سے زیا دہ زبان آور ہو اور میں یہ سمجھوں کے وہ سچا ہے اور میں اس کے حق میں فیصلہ کردوں، میں جس شخص کے حق میں کسی دوسرے مسلمان کے حق کا فیصلہ کردوں تو وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے ، وہ چاہے تو اسے اٹھالے یا چاہے تو چھوڑ دے۔ (صحیح مسلم)
ایک رائے یہ بھی ہے کہ اقلییتوں اور غریب لوگوں کا استحصال تو اور بھی معاملات میں ہورہا ہے جو کہ بلآخر ان کی موت کا باعث بنتا ہے سزائے موت تو ایک قانونی عمل ہے چس میں بہرحال کوئی نہ کوئی جواز دیا جا تا ہے بجائے اس سزا پر اعتراض کرنے کے دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں کو ان وجوہات کے خلاف جدو جہد کرنے کی ضرورت ہے جو جرائم کی وجہ بنتی ہیں جن میں تعلیم کی کمی اور مالیاتی نظام کی خرابیاں شامل ہیں تو پھر کیوں نہ اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوخہد کرلی جائے ؟اور دنیا بھر میں ایسے نظام کے لئے جدو جہد کی جا ئے جس میں غریبوں کا استحصال اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نہ ہو۔
یہاں کو شش کی گئی ہے کہ ان ممکنہ دلائل کو لکھا جائے جو سزائے موت کے حق میں یا خلاف دئیے جا سکتے ہیں لیکن موضوع کی وسعت اور حساسیت کو مد نظر رکھتے ہوئے کو ئی حتمی رائے نہیں دی گئی اس پر اور بھی بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے جو کہ سزائے موت کے حق میں اور خلاف بھی ہو سکتا ہے لہذا سزائے موت پر فیصلہ آپ کا۔

حصہ

3 تبصرے

  1. بلاگ کا موضوع انتہائ اہم ہے. بہت سے حقائق بیان کئے گئے ہیں. بہتر ہوتا اگر سردست اس بات کا بھی تذکرہ کردیا جاتا کہ پاکستان میں سزاۓ موت پر غیر اعلانیہ پابندی کب سے کب تک رہی اور اس کے محرک کون تھے.

  2. آپ کا تبصرہ درست ہے
    پاکستان میں سزائے موت پر عملدرآمدپر پابندی پیپلز بارٹی کے دور حکومت میں 2008 میں لگائی گئی اور 2014 تک رہی اس پابندی کی وجہ ایمنسٹی کی UN میں پیش کی جانے والی قرار داد ہی بتائی گئ لیکن خراب معیشت کی وجہ سے عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینے کی خاطراور بیرونی دنیا میں پاکستان کا لبرل اور سافٹ امیج بنانے کی خاطر جن لابی کی خدمات حا صل کی جاتی ہیں ان کی فرمائش بھی ہو سکتی ۔

جواب چھوڑ دیں