کوزہ گری

کتنا خوبصورت کام ہے نا ؟ کوزہ گری!
عام سی مٹی کو دلکش ،خوبصورت اورکارآمد شکل دینا ۔۔۔اپنے ذہن مین موجود تصویر کو اپنے نرم ہاتھوں اور پیروں کی مسلسل حرکت سے مٹی کے سانچے مین ڈھالنا اور اس طرح ڈھالنا کہ بے قیمت مٹی قیمتی ،نفیس چیزوں میں ڈھل کر دلکش شکل اختیار کر لے۔
کوزہ گر۔۔۔ وہ نفیس فنکار ہوتا ہے جو اپنا آپ اس کام کے لئے وقف کر دیتا ہے وہ اپنے ارادے اور مرضی سے خود کو مٹی میں ملالیتا ہے اس مٹی میں محبت کی نرمی اور گرمی کو اپنے دل کی گہرائیوں سے ہاتھوں کے راستے چکنی گیلی مٹی میں ایسے منتقل کرتا ہے کہ بے جان برتن کا وجود اپنا آپ بتانے لگ جاتا ہے یہ کوزہ گر اس کام کے لئے اپنا آپ تج دیتا ہے ،سب بھول جاتا ہے اس کی زندگی مٹی کے نام ہو جاتی ہے اس کا ذہن نفیس سے نفیس شکلیں بنانے میں ایسا مصروف ہوتا ہے کہ پھر وہ اپنا آپ کھپا دیتا ہے۔
ادھر مٹی کا معمولی ڈھیر بھی خود کو کوزہ گر کے سپرد کرتا ہے تبھی بات بنتی ہے وہ چاک پر چڑھنے، بہت سارے چکر لگانے اور ہر تبدیلی قبول کرنے کے لیے کوزہ گر پر دل کی گہرائیوں سے بھروسہ کرنے کو یوں تیار ہوتا ہے کہ پھر آخری شکل بن کر بھٹی میں پکنے اور تپنے تک نقش و نگار سے آراستہ ہونے تک وہ سراپا سپردگی رہتا ہے۔
پھر کوزہ گر اس ماسٹر پیس کو مارکیٹ میں فخر سے پیش کرتا ہے اس کا دل اس وقت مسرت سے بھر جاتا ہے جب لوگ اس کے کوزہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں جب وہ اس کی خوبصورتی و رعنائی کی تعریف کرتے ہیں جب وہ شوکیس کی زینت بنتا ہے ضرورت بنتا ہے اہمیت اختیار کرتا ہے۔
کوئی سمجھا؟ یہاں کوزہ کون ہے اور کوزہ گر کون؟
افسوس میرے نوجوانوں کو چند ہزار کے “ٹیچر “تو دستیاب ہیں کوئی کوزہ گر نہیں !
کوئی اتالیق نہیں !
کوئی وہ نرم گرم اور مشقت کے عادی ہاتھ نہیں جو اخلاص سے ان کی صورت گری کر سکیں شاید اسی لئے میرے کوزے وقت کی مارکیٹ میں اپنی وقعت نہیں منوا پا رہے
وہ ٹیرھے میڑھے ہیں۔
نقش و نگار دلآویز نہیں۔
بھٹی میں پکتے بھی ہیں مگر شوکیس میں سجتے نہیں۔
سجیں بھی کیسے کوئی شکل ہی نہیں بن پاتی ان کی۔۔۔
اور اگر کچھ کوزہ گر ہیں بھی تو ان کے ہاتھ اپنے ذہن کی طرح تنگ ذہن سے کوزے بنا رہے رہے ہیں۔
اور وہ “دوسری طرف “کے کوزہ گر؟ وہ تو ہر کوزے کی شکل ہی بگاڑنے پر تلے ہوئے ہیں۔۔۔۔
ضرورت ہے کچھ محبت کی شدت و حدت رکھنے والے کوزہ گروں کی! کوئی ہے؟
ہے کوئی ؟
کوئی ملے تو بتائیے گا؟

حصہ

جواب چھوڑ دیں