روزی خود پہنچتی ہے __ پھر حرام خوری کیوں؟

دنیا میں ہر شخص مال و دولت کمانے میں سرگرداں نظر آتا ہے _ ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ مال کمائے ، زیادہ سے زیادہ آسائشیں فراہم کرے ، زیادہ سے زیادہ اسبابِ راحت حاصل کرے ، تاکہ اس کی اور اس کے متعلقین کی زندگی آرام سے گزرے _ اسے ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں اس کی کمائی میں کچھ کمی نہ آجائے ، کہیں اس کی آسائشیں چھن نہ جائیں ، کہیں اس کے ذرائع آمدنی محدود نہ ہوجائیں _ خلاصہ یہ کہ وہ ہر وقت ننّانوے کے پھیر میں لگا رہتا ہے _ چنانچہ پیسہ اس کا مطلوب و مقصود بن جاتا ہے _ بسا اوقات اس خواہش اور طلب میں وہ حلال اور حرام کی تمیز بھی نہیں رکھ پاتا اور اس پر ہر وقت بس پیسہ کمانے کی دْھن سوار رہتی ہے، چاہے وہ جس ذریعہ سے حاصل ہو _
اگر آدمی کے دل میں یہ عقیدہ جاگزیں ہوجائے کہ اس کی قسمت میں جو کچھ لکھا ہے وہ اسے ہر حال میں مل کر رہے گا تو اس کے ذہن و دماغ پر ہر دم پیسہ سوار نہیں رہے گا اور وہ اپنی کمائی میں حلال و حرام کو پیش نظر رکھے گا _ ایک حدیث میں یہی بات بہت اچھے انداز سے سمجھائی گئی ہے _
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :
” اے لوگو ! اللہ سے ڈرو اور اچھے طریقے سے روزی طلب کرو _ اس لیے کہ کسی شخص کو اس وقت تک موت نہیں آئی گی جب تک اس کے نصیب میں جتنی روزی لکھی گئی ہے وہ اسے حاصل نہ ہوجائے ، اس لیے اللہ سے ڈرو اور اچھے طریقے سے روزی طلب کرو _ جو حلال ہے اسے لے لو ، جو حرام سے اسے چھوڑ دو _”سنن ابن ماجہ
اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے صراحت سے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالی نے کسی شخص کی تقدیر میں جتنی روزی لکھ دی ہے ، جب تک وہ اسے مل نہ جائے اس وقت تک اسے موت نہیں آسکتی _ اس لیے اسے بے فکری کے ساتھ روزی کمانے میں لگنا چاہیے اور صرف ان ذرائع کو اختیار کرنا چاہیے جنھیں اللہ تعالی نے حلال کیا ہے اور ان ذرائع سے بچنا چاہیے جنھیں اس نے حرام قرار دیا ہے _
اس حدیث میں ‘ توکّل’ کی تعلیم دی گئی ہے _ توکّل یہ نہیں ہے کہ آدمی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے اور یہ سوچ لے کہ جو کچھ اس کی قسمت میں ہے وہ تو اسے مل کر رہے گا ، چاہے وہ کچھ کرے یا نہ کرے _ توکّل یہ ہے کہ آدمی ہر ممکن تدبیر اختیار کرے ، جو کچھ اس کے بس میں ہے، نوکری ، روزی حاصل کرنے کے لیے تمام جائز ذرائع اختیار کرے ، ساتھ ہی اطمینان رکھے کہ اللہ تعالٰی نے جو کچھ اس کی تقدیر میں لکھ رکھا ہے وہ اسے مل کر رہے گا _
یہ عقیدہ آدمی کو سکون و طمانینت کی دولت سے مالامال کردیے گا اور سکون سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں _ یہ عقیدہ اس کے دل میں بیٹھ جائے تو وہ اِدھر اْدھر منھ نہیں مارے گا اور حلال و حرام کی تمیز سے بے پروا نہیں ہوگا ، بلکہ ہر کمائی کے وقت ضرور سوچے گا کہ یہ جائز ہے یا ناجائز؟ صحیح ہے یا غلط؟ حلال ہے یا حرام؟
جو شخص یہ عقیدہ اپنے دل میں بٹھا لے وہ کام یاب ہے ، وہ خوش نصیب ہے ، اور حقیقت میں وہی مال دار ہے _ اللہ تعالی ہم سے ہر شخص کو اس کی توفیق عطا فرمائے ، آمین

حصہ
mm
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی صاحبِ طرز قلم کار ،مصنف اور دانش ور ہیں۔ وہ تصنیفی اکیڈمی، جماعت اسلامی ہند کے سیکریٹری اور سہ ماہی مجلہ تحقیقات اسلامی کے نائب مدیربھی ہیں۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں