ڈومور اور نو مور

امریکی نائب صدر مائیک پینس افغانستان میں امریکی افواج سے اپنے خطاب میں پاکستان کو کھلے عام دہمکی دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ’’ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کو واچ لسٹ پہ رکھا ہوا ہے‘‘۔
ان کا فرمانا ہے کہ’’دہشت گردوں کو پناہ دینے کے دن ختم ہوگئے، پاکستان کو امریکا کی شراکت داری سے بہت کچھ حاصل ہوگا، لیکن دہشت گردوں اور مجرموں کو پناہ دینے سے بہت کچھ کھونا پڑے گا‘‘۔
انکا مزید فرمانا تھا کہ ’’کسی بھی ملک کے ساتھ شراکت داری اْس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک ایک پارٹنر دہشت گردوں اور جنگجوؤں کی مدد کرتا رہے تو شراکت داری کامیاب نہیں ہوسکتی، امریکا کو عالمی دہشت گردوں اور پاکستان میں سرگرم جنگجوؤں سے آج بھی خطرات کا سامنا ہے‘‘۔
یہ ہے وہ لب و لہجہ جو Do More کے نعرے کے ساتھ پاکستان کے ساتھ اختیار کیا گیا۔ جی ہاں وہی پاکستان جس کے ٹھمکے لگانے والے صدر ایک ہی کال پہ لیٹی پوزیشن پہ چلے گئے تھے۔ جن کے بہادر جرنیلوں نے طالبان کے سفیر کو امریکہ کے حوالے اس حالت میں کیا کہ جب اس کے جسم پہ ایک چیتھڑا بھی نہیں تھا۔ ملک سے سینکڑوں افراد کو امریکہ کے حوالے کر کے ڈالر لیے گئے۔
’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگا کر ملک کی خودمختاری کو ہی داؤ پہ لگا دیا گیا۔ مگر بعد میں خود ہی احساس ہوا کہ ہم ذلت کے عمیق گڑھے میں گرتے جا رہے ہیں۔آپ اس جنگ کو اپنی زمین پہ لے آئے ہیں جس کے آپ حصہ دار ہی نہیں۔ سانحہ باجوڑ سے لیکر سانحہ اے پی ایس تک پاکستانی ہی زمین سرخ ہوئی۔ اس عرصے میں اسامہ بن لادن سے لیکر ملا منصور سب پاکستان ہی میں کھیت ہوئے۔
اب پاکستان کا موقف ہے کہ اب امریکی لڑائی پاکستانی سرزمین پہ نہیں لڑی جائے گی۔ اب پاکستان کے مطلوب دہشت گردوں کے امریکی اور افغانی سیف ہیونز مزید برداشت نہیں۔ موقف یہ بھی اختیار کیا جا رہا ہے کہ امریکہ۔ تم کو پاکستان کی ضرورت زیادہ ہے بنسبت پاکستان کو تمہاری۔ پاکستان کو افغانستان میں بھارتی کردار بھی قبول نہیں جو مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ جس پارٹنرشپ کی امریکی خواہشمند ہیں اسی طرح کی پارٹنرشپ کی اب پاکستانی بھی خواہش مند ہیں۔
اہل پاکستان کو سمجھ لینا ہو گا کہ پاکستان کیلئے آزمائیش کے دن بہت ہیں۔ پاکستانی فضائیہ کے موجودہ اور ان سے قبل کے سربراہان کئی دفعہ یہ اعلان کر چکے ہیں کہ ہم ڈرونز کو گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر اسکا عملی مظاہرہ آج تک نہیں کیا جا سکا۔
امریکہ کے خلاف قرارداد کی حمایت تو اسرائیل سے سفارتی تعلقات رکھنے والے بھارت نے بھی کی ہے تو کیا امریکہ اسکے خلاف کوئی کاروائی کرے گا ؟
غیرت اور ڈالرزکے حصول کی خواہشات میں بہت فرق ہے۔ یقیناًپاکستان روس کے قریب ہوا ہے مگر امریکہ کو No More کہنے کی ہمت کاسہ لیسوں کی بس کی بات نہیں۔
امریکہ کے خلاف کل 182 ممالک نے باوجود امریکی کھلے عام دھمکی کے ،امریکہ کے خلاف ووٹنگ کی،جس کی ایک بڑی وجہ عوامی دباؤ بھی ہے۔ جو کراچی سے لیکر جکارتہ کے میدانوں تک نظر آیا۔ یورپ میں بڑے بڑے مظاہرے نظر آئے۔
یہ ایک کامیابی ہے،جس سے حوصلہ ملتا ہے۔باوجود امریکی لفظی ہٹ دھرمی کے عملی طور پہ بیت المقدس میں سفارت خامہ منتقل کرنا اس قدرآسان نہیں۔ہم کو بین الاقوامی بدلتے تناظر میں ہروقت مستعداورچوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ابھی مزید امتحان سامنے ہیں۔ایمانیات میں جب تک اللہ وحدہ لاشریک لہ کا تصور راسخ نہ ہو تو ہمارے درمیان ہی ایسے افراد بھی موجود ہیں جو ہم کو کھندڑ بن جانے اور موت کے خوف سے ڈرا کر غلامی پہ قائل کرتے رہیں گے۔

حصہ
mm
کاشف حفیظ صدیقی ایک تحقیقاتی ادارے سے وابستہ ہیں ۔ کراچی کے مقامی روزنامے میں طویل عرصہ "منظر۔پس منظر" کے نام سے کالمز بھی لکھتے رہے ہیں ۔ 7 تحقیقی کتب کے مصنف بھی ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں