سی پیک اور بلوچستان کا سرداری نظام

بلوچستان کے مسئلے کا جب بھی ذکر آتا ہے،بلوچستان کے سردار ذہن میں آتے ہیں ۔اب سی پیک تو بلوچستان میں بن رہا ہے ، بلوچ سردار اس میں اپنا اپنا حصہ کیسے ڈالیں گے اور کس طرح اپنے اپنے علاقوں سے سی پیک کو گزرنے دیں گے ۔یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اس کا نہ تو جواب مرکزی حکومت کے پاس ہے نہ صوبائی حکومت کے پاس ۔ یہ لوگ کتنے طاقتور ہیں یہ کوئی نہیں جانتا، ویسے بلوچستان کا سرداری نظام کافی پرانہ ہے میرے دادا ان سرداروں کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے اور ان کے ساتھ بہت وقت گزارے بھی تھے۔ انہوں نے مجھے بہت کچھ بتایا تھا، جغرافیائی حالات کے مطابق بلوچستان کا سرداری نظام جو موجودہ دور میں ہے اس کی بنیاد رابرٹ سنڈیمن نے 1876 میں رکھی تھی جب وہ بلوچستان کے چیف کمشنر اور گورنر جنرل ہند مقرر ہوئے تھے۔ اس نے بلوچستان میں سرداروں کو بہت سی مراعات دیں انہیں ذاتی اورسرکاری نوکریاں دیں اور ہزاروں لوگوں کو ان سرداروں کی توسط سے وظیفہ دیئے جاتے تھے اور انہی سرداروں کے اولادوں کو خصوصی وظیفہ دیئے جاتے تھے اور ان کو پڑھانے کیلئے بیرون ملک بھیجا جاتا تھا تاکہ ان کی اولاد مفت تعلیم حاصل کر سکے۔ملک سمیت بیرون ملک میں بھی کئی مثالیں موجود ہیں ان سرداروں کی بڑی مثالیں یہ ہے کہ سب سردار اعلی تعلیم یافتہ ہیں کئی سردار آج بھی اپنے اپنے علاقوں میں بیٹھے ریمورٹ کنٹرول کے ذریعے حکومت میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ۔بلوچستان میں غریب کا بچہ غریب تر اور امیر کا بیٹا امیر ہوتا جا رہا ہے۔اگر غریب کا بچہ پڑھ لکھ لیتا ہے تواس کو اعزازی منشی کی ڈگری دی جاتی ہے۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 8 اپریل 1976ء کو کوئٹہ میں سرداری نظام کے خاتمے کا اعلان کیا مگر تا حال اس پہ عمل نہ ہو سکا مرحوم ضیاء الحق نے تمام سرداروں کو اپنے اپنے علاقوں میں امن کیلئے خوش کیا اور خود آرام سے حکمرانی کے مزے لیتے رہے اسی طرح پرویز مشرف نے بھی یہ نظام ختم کرنے کی بھر پور کوشش کی جس کی وجہ سے نوب اکبر بگٹی کو بھی شہید کیا گیا مگر پھر بھی سرداری نظام بالکل ختم نہیں ہو سکا۔
آج بھی بلوچستان میں کئی سرداروں کے اوطاق سسٹم اور جبری مشقت لینے والا نظام ٹس سیمس ہی نہ ہوا ۔ یہ سردار اپنے من پسند فیصلے کرتے ہیں، ہنری مورثی نے 1893ء میں جب اس وقت کے ہندوستان اور افغانستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن کی سرحد ی لکیر کھینچی توعجیب و غریب صورتحال پیدا ہوگئی اس سرحدی لائن نے کئی پشتون قبیلوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ایک ہی قبیلے کے لوگ مشترکہ تاریخ مشترکہ ماضی ایک زبان ایک طرح کی روایات ،ایک باپ کی اولاد کو سرحدی لائن میں تقسیم کرکے ہندوستانی اور افغانی بنا دیاگیا۔مورثی نے اس غیر فطری تقسیم کے متلعق کہا کہ ہم ان دونوں لوگوں کی معاشی ترقی اور معاشی مفادات ہندوستان کے ساتھ منسلک کر دیں گے تاکہ آئندہ یہ افغانستان کے بجائے ہر چیز کیلیئے ہندستان کی طرف دیکھیں یہ وہ پالیسی تھی جس نے غیر فطری لائن کو قابل قبول بنا دیا۔ 1948ء سے آج تک سرزمین بلوچستان کو امن نصیب نہ ہوا ۔ بلوچ سرداروں کو انگریزوں سے کوئی شکایت نہیں تھی بقول لالہ ہتورام تاریخ بلوچستان میں لکھتے ہیں کہ بلوچ وفادار لوگ ہیں وہ اپنی وفاداری کی خاطر اپنی جان تک دے دیتے ہیں اور اگر دوستی کو نبھانے پرآجائیں تودنیا کی کوئی طاقت ان کو روک نہیں سکتی اور بلوچستان میں یہ سب صدیوں سے چلا آ رہا ہے بلوچ حتی کہ جنگ آزادی میں بھی پیش پیش تھے ۔حیرت انگیز بات ہے کہ رابرٹ سنڈیمن دنیا کے واحد لیڈر تھے جو بلوچستان میں بغیر محافظ کے سفر کرتے تھے اس کی وجہ ان کا بلوچوں سے محبت تھی۔ کبھی کسی نے اس کی طرف ایک انگلی تک نہ اٹھائی۔ اس نے تمام قبائلی علاقوں میں سرداروں کو اس طرح اپنے پنجرے میں بند کیا کہ آج تک سردار نہ بھول سکے۔ انہوں نے بلوچ قوم کو بہت سے فائدے بھی پہنچائے، ان سرداروں کے علاقوں میں ا سکول کھلوائے، ہسپتال کھلوائے اور تو اور ان سرداروں کے بیٹوں کو بیرن ملک پڑھائی کیلئے بھی بھیجا ،حتیٰکہ اس نے ہر سردار کے حصے میں کوٹہ سسٹم نافذ کیا مگر آج کے حالات میں کوئی سردار اپنے علاقے میں تن تنہا نہیں گھومتا اس کے ساتھ دس بیس باڈی گارڈ ہوتے ہیں ۔آج تمام سردار اپنی اپنی حفاظت کیلئے دوسروں کا سہارا لیتے ہیں، کل ان سرداروں کا کیا حال ہو گا جب سی پیک بنے گا ؟۔کل یہ سب سردار سی پیک کی وجہ سے انگریزوں کی وفاداریاں یاد کریں گے اور چینی کو ان کی جگہ پہ قبول کریں گے اور سی پیک کی وجہ سے کیسے انگریزوں کو بھول پائیں گے جن کی دولت آج تک تمام سردار عیش کر رہے ہیں۔ کیا ان انگریزوں کو پاک چین دوستی گوارہ ہو گا ؟۔
بلوچوں کا مشہور قول ہے کہ جب آپ اپنا حق لینے کے لیے کھڑے ہوں تو سب سے پہلے آپ اپنی جان سے ہاتھ دھونے کے لیے تیار ہو جائیں ،ہو سکتا ہے اس جنگ میں آپ کی جان چلی جائے لیکن جان جانے سے آپ کے لوگوں کو اگر کسی کا حق مل جائے تو آپ کی قربانی ضائع نہیں جائے گی ۔بلوچوں میں بدلے کی آگ ہر وقت رہتی ہے۔ مجھے پتا نہیں کیوں یہ خدشہ ہے کہ بلوچ سردار اس منصوبہ کے دوران چین کا ساتھ دیں گے یا نہیں؟ کیا آج کے انگریز ترقی یافتہ چین کو چین سے رہنے دیں گے؟ یہ ایک بڑا سوال ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔
سی پیک پر واویلا تو کیاجارہا ہے مگر ،اقتصادی راہداری منصوبہ کے 9 ملین روپے بلوچستان میں خرچ کیے جارہے ہیں، سوئی گیس،ریکوڈک،سیندک سے بلوچستان کو کچھ نہیں ملا تو سی پیک منصوبے سے بلوچستان کو کیا حاصل ہوگا۔اگر کچھ حاصل ہوگا تو اس میں سرداروں کا کتنا حصہ ہوگا یہ سب کچھ آج کے سردار سوچتے ہیں۔ آج کل انہی سرداروں کی آپس میں لڑائیاں بھی مشہور ہیں اسی طرح اکثر سرداروں کی آپس میں رشتے داریاں بھی مشہور ہیں ۔بلوچستان کا سرداری نظام اتنا پرانا ہے جتنا آپس کی دشمنیاں پرانی ہیں۔ ان دشمنوں نے ان کو پیچھے دھکیل دیا ،ان حالات کے پیش نظر بلوچستان میں تشویش کی لہر ہے۔ انگریزوں نے کہا تھا کہ اگر بلوچوں کو عزت سے قتل کر دو تو وہ خود گردن آپ کے سامنے پیش کر دیں گے اگر زبردستی قتل کرنے کی کوشش بھی کی تو آپ کو بھی قتل کر سکتے ہیں حتیٰ کہ 1958ء میں نواب نوریز خان کی قیادت میں بلوچوں نے پہاڑوں کا رخ کیا اور حکومت وقت سے جنگ کا اعلان کردیا وہ کئی ماہ تک پہاڑوں پہ رہے پھر ایک دن حکومت وقت نے قرآن پہ ہاتھ رکھ کر کہا کہ اب ہماری جنگ ختم ہے مگر اگلے روز اس کو اس کے دوستوں سمیت جیل میں ڈال دیا گیا۔ ان پہ بغاوت کا مقدمہ چلا کر ان کو عمر قید کی سزاء دی گئی پھر ان کو اور ان کے عزیزوں کو 1962ء میں پھانسی دے دی گئی ،پھر ایک بوڑھے سردار کو بلا کر ان کے اپنے دوستوں کی لاشیں دکھائی گئیں اس وقت اس سردار نے تاریخی جملے کہے یہ سب میرے بیٹے ہیں یہ بلوچ کا خون ہے آزادی کی راہ میں قربان ہونے والے،اب جنگ تا قیامت جاری رہے گے۔ انہی دو فقروں نے کئی سرداروں کو آزادی کی راہ پہ گامزن کر دیاتھا 1948ء سے اب تک کئی سردار شہید کیے گئے اور کئی سردار اپنے اپنے علاقوں میں عوام پر ظلم ڈھاتے رہے اور کئی سردار ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ بلوچستان میں 55 فیصد آبادی بلوچوں کی ہے۔ 35 فیصد پشتون اور 10 فیصد دیگر قومیں آباد ہیں ۔بلوچستان کے تعلیمی نظام کو تباہ اور اوطاقوں میں تبدیل انہوں نے ہی کیااور ہسپتالوں کو بند کرنے کیلیئے کوئی کسر نہ چھوڑی ۔سرکاری عمارتوں کو ذاتی عمارت میں تبدیل کر دیا ۔ کیا یہ سردار سی پیک کو چلنے دیں گے؟ کیا یہ سردار اپنے اپنے علاقوں سے سی پیک کے روٹ چھوڑیں گے؟ اگر چھوڑیں گے تو کیا اس کاکیا معاوضہ لیں گے ؟بلوچستان کے کئی سردار اپنے اپنے علاقوں میں سی پیک کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے تو اس کا حل کیا ہوگا؟ جب سی پیک مکمل ہو گا یہ سردار کیا گل کھلائیں گے ؟۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان سرداروں کے کہنے پہ ان کے عوام اپنی جان تک دیتے ہیں۔ یہ سردار سی پیک میں اپنا حصہ کیسے لیں گے۔ یہ سوچنے کی باتیں ہیں۔گزشتہ دس سال میں کئی واقعات بلوچستان میں ہوئے جس نے بلوچستان کا نام بہت بدنام کیا، جس میں ڈیرہ بگٹی میں ڈاکٹر شازیہ کیس تھا۔ اسی طرح نصیرآباد میں 5 لڑکیاں زندہ درگور کرنا یہ ایسے واقعات تھے جو سی پیک پہ اثر انداز ہوں گے۔ ان واقعات سے ایک خوف ہوگا ۔ ہر حکومت نے سرداری نظام کے خاتمے کا اعلان تو کیا مگر عمل کروانے کیلیئے کوئی عملی کام نہ ہو سکا بلوچستان کے غریب عوام ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کیلئے ترس رہے ہیں اور غریب عوام پانی کی بوند بوند کیلئے ترس رہے ہیں۔ ان تمام مسائل کی جڑ تو کوئی نہ کوئی ہے۔ ہم کس کو گنہگار ٹھیرا سکتے ہیں؟۔ بلوچستان کے تمام مسائل کی جڑ کوئی نہ کوئی تو ہے جس کی سزا بلوچ غریب عوام بھگت رہے ہیں۔ غریب کی آواز اٹھانے والے کی زندگی کا چراغ گل کر دیا جاتا ہے۔ اگر انگریز انہی سردارں کے خلاف اس وقت کاروائی کرتے تو شاید یہ سرداری نظام آج نہ ہوتا اور ان کی جگہ تعلیم یافتہ نوجوان ہوتے ۔دنیانے جس تیزی سے ترقی کی اسی طرح بلوچ سرداروں نے بھی ترقی کی ۔ان کے پاس جدید اسلحہ جدید ہتھیار آ گئے جنہیں جہاں چاہے جس وقت چاہے استعمال کر سکتے ہیں کیا یہ ہتھیار سی پیک کے دوران استعمال ہونگے یا ان چینیوں کی گاڑیاں آرام سے پاک چین کا سفر طے کریں گی؟۔
ان سب سوالات کے جوابات کسی کے پاس نہیں، ہمارے پاس نہ حکومت پاکستان کے پاس نہ چینی حکومت کے پاس سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان سرداروں کو کس طرح قابو پایا جائے گا۔ دنیا میں کیا سے کیا ہو رہا ہے اور ہمارے بلوچستان میں بیت الخلا سے لوٹے چرا لیتے ہیں،گلاس کو زنجیر سے باندھنا پڑتا ہے,چپلیں مسجد میں محفوظ نہیں۔ تو سی پیک کو بھلا سردار کیسے محفوظ ہونے دیں گے ؟سرداری نظام کے حوالے سے بلوچستان پاکستان کا ایک اہم صوبہ ہے۔ جس طرح بلوچستان رقبے کے لحاظ سے ملک کا بڑا صوبہ ہے اسی طرح کرپشن کے حوالے سے یہ صوبہ کسی سے پیچھے نہیں ہے ۔صوبہ بلوچستان افغانستان اور ایران کے سرحدی علاقوں سے ملتا جلتا ہے جہاں پرانے دور میں کافی بڑے سردار گزر چکے ہیں جن کے رسم و رواج ملتے جلتے ہیں اس خطے میں اسمگلنگ کی ایک بڑی وجہ یہاں کے سردار ہیں ان کے علاقوں میں نہ پولیس کی چلتی ہے نہ فوج نہ ایف سی کی اگر کسی کی چلتی ہے تو وہ یہی سردار ہیں۔ ان کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہلتا ۔ان کی مرضی سے پوسٹنگ اور تبادلے کیے جاتے ہیں۔ اب جب سی پیک بلوچستان میں بن رہا ہے تو لوگوں کی سوچیں بدلنی چاہیے اور ہر سردار کے بچے کی طرح غریب کے بچوں کو بھیا سکول میں جانا چاہیے۔ تعلیم ہی واحد حل ہے جو سی پیک کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہو سکتا ہے آج بھی بلوچ پتھروں کے زمانے میں رہے ہیں ایک مرتبہ ایک سردار سے ایک انگریز صحافی نے پوچھا آپ نے پہلا قتل کس عمر میں کیا تو وہ ہنسنے لگا اور کہنے لگا کچھ ٹائم یاد نہیں ہاں البتہ اتنا یاد ہیں کہ14 سال کا تھا جب پہلا قتل کیا ۔اسی طرح ایک ضلع میں ایک نوجوان نے بے روزگاری سے تنگ آ کے الیکشن میں حصہ لیا تو اسے الیکشن کے دوران سر عام قتل کیا گیا اور الیکشن ملتوی کردیاگیا۔ تین ماہ بعد دوبارہ الیکشن ہوئے تو وہی سردار جیت گیا۔ اسی طرح 1951 میں ایک جٹ نے الیکشن میں حصہ لیا اس کو مار دیا گیا۔ اس روز کے بعد آج تک اس سردار کے مد مقابل کوئی جٹ نہ آ سکا ۔آج تک دیکھنے والے توبہ توبہ کر رہے ہیں اگر بلوچستان میں کوئی ان سرداروں کے مد مقابل ہے تو وہ سردار ہی ہے۔ بلوچستان کے کئی سردار پہلے کتے پالتے تھے اور وہ کتے انسانوں کو زندہ کھا جاتے تھے مگر آج کل یہ رسم بلوچستان میں ختم ہو گئی ہے۔ بلوچستان کے تمام اضلاع میں سرداری کا رواج عام ہے۔ ملک سے باہر رہ کر بھی کچھ سردار اپنے اپنے علاقوں میں آج بھی کنٹرول سنبھال رکھے ہوئے ہیں ایک غیر ملکی سردار سے ایک صحافی نے پوچھا کہ آپ کے عوام کے ساتھ تعلقات کیسے ہیں تو بول پڑا ہمارے ہاں لوگوں کی حثیت شطرنج کی بساط پر بچھے بے جان مہروں کی طرح ہے جس مہرے کو جس جگہ رکھیں ہماری مرضی ہے۔
بلوچ عوام کی قسمت میں یہ بلوچ سردار کب آئے اور کب تک جائیں گے یہ کوئی نہیں جانتا ہاں البتہ یہ سب کو معلوم ہے کہ سی پیک پہ ان سرداوں کا کتنا حصہ ہو گا؟ایسامحسوس ہوتا ہے کہ بلوچوں کی قسمت میں غلامی والا ماحول قسمت سے ملا ہے۔ سردار بھی عوام کو بھیڑ بکری سے زیادہ نہیں سمجھتے ، کیا اہل اقتدار سی پیک میں آنے والی رکاوٹ میں ان سرداروں سے مقابلہ کریں گے یا یہ سردار خاموش بن کے اپنا اپنا حصہ سی پیک سے لیں گے یہ ایسا سوال یہ جس کا جواب سی پیک بنانے والوں کے پاس بھی نہیں ہے۔

حصہ
mm
ببرک کارمل جمالی کاتعلق بلوچستان کے گرین بیلٹ جعفرآباد سے ہے ۔ان کے ماں باپ کسان ہیں مگر اس کے باوجود انہوں نے انہیں ایم اے تک تعلیم جیسے زیور سے آراستہ کیا۔ ببرک نے ابتدائی تعلیم اپنے گائوں سے حاصل کیا اور اعلی تعلیم کیلئے پھر کوئٹہ کا رخ کیا ان کی پہلی تحریر بچوں کے رسالے ماہنامہ ذہین میں شائع ہوئی اس کے بعد تحاریر کا نہ رکنے والا سلسہ جاری وساری رہا اب تک دو ہزار کے لگ بھگ تحاریر مختلف رسالوں اور اخبارات میں چھپ چکی ہیں۔یہ پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں جبکہ ان کی تحاریر ان اخبارات اور رسالوں میں چھپ چکی ہیں اور چھپ رہی ہیں جن میں (روزنامہ پاکستان) بلاگ رائیٹر (روزنامہ ایکسپریس) بلاگ (حال احوال) کوئٹہ بلاگ رائیٹر جبکہ ان کی فیچر رپورٹس ( ڈیلی آزادی)کوئٹہ (ڈیلی مشرق )کوئٹہ ماہنامہ جہاں نما کوئٹہ میں آج تک چھپ رہی ہیں۔ان کی کہانیاں (ماہنامہ پھول) لاہور (ماہنامہ ذہین) لاہور (ماہنامہ اردو ڈائیجسٹ)لاہور ( ماہنامہ پیغام) لاہور (ماہنامہ روشنی)پنڈی (ماہنامہ افکار جدید) لاہور میں چھپ چکی ہیں ۔ان کاا یک مستقل سلسلہ بلوچستان کے حوالے ماہنامہ اطراف انٹرنیشنل کراچی میں بھی چل رہا ہے اس کے ساتھ یہ بچوں کے لیے بھی بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ ماہانہ (پارس) کے مدیر بھی ہیں۔ کئی ادبی ایوارڑ بھی مل چکے ہیں اور ٹی وی، پہ کچھ پروگرام بھی کر چکے ہیں۔ جبکہ اکسفورڈ پریس کی کتاب میں بھی ان کی تحریر شائع ہو چکی ہے۔ببرک پاکستان رائیٹر سوسائیٹی بلوچستان کے نائب صدر بھی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں