توبہ کا دروازہ کھلا ہے

اللہ تعالی نے انسان کو احسن تقویم پر پیدا کیا،اسے نِک سُک سے درست کیااورمتناسب بنایا، مگر پھر یہ اپنے کرتوتوں کی بناء پر سب نیچوں سے نیچ اور جانوروں سے بد تر ہو جاتا ہے۔
اس کی فطرت میں۔۔۔ خوف بھی ہے اور لالچ بھی۔۔۔یہ فیاض بھی ہے اور بخیل بھی۔۔۔ یہ کمزور بھی ہے اور طاقتور بھی۔۔۔یہ بہادر بھی ہے اور بزدل بھی ۔۔۔خدا ترس بھی ہے اور ظالم بھی۔۔۔ یہ غلام بھی ہے اور آقا بھی۔۔۔ یہ متکبر بھی ہے اور عاجز بھی۔۔۔یہ آخرت کا انکار بھی کرتا ہے اور اقرار بھی ۔۔۔یہ اللہ کا بندہ بھی ہے اور شیطان کا مطیع بھی۔
غرض یہ کہ انسان متضاد صفات کا مجموعہ ہے۔ آخرت سے بے نیاز ہو کر زندگی گزارنے والا انسان ۔۔۔زمین کی ہلکی سی جنبش۔۔۔ سمندروں کے طوفان۔۔۔دریاؤں کی طغیانی۔۔۔ بجلی کی کڑک۔۔۔ بادلوں کی گرج۔۔۔ رات کی تاریکی اور باد باراں سے گھبرا جاتا ہے۔
تو اے انسان 
کیا تجھے اس چھا جانے والی آفت کی خبر نہیں پہنچی؟
کتنے ہی چہرے اس روز ذلیل و خوار محنت سے نڈھال تھکے ہارے دہکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے، جو لوگ اس دن سے بے پرواہ ہوکر زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں،لوگوں کے حقوق غصب کر رہے ہیں،جنہوں نے اپنی عیش و عشرت کے لیے دوسروں کی زندگیوں کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے ،جو خودی کو فراموش کرکے خدا بن گئے، جنہوں نے اپنی خدائی قائم کرنے کے لیے لاکھوں بے گناہ بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور جوانوں کو موت کی نیند سلا دیا ،جنہوں نے ہنستے بستے شہروں کوکھنڈر بنادیا، جنہوں نے زمین کے خزانوں اور وسائل پر قبضہ جما کر غریبوں کو اپنا معاشی اور سیاسی غلام بنا رکھا ہے ،جن کی ہوس ملک گیری نے بحر و بر میں فساد برپا کر رکھا ہے ،کوئی چیز ان کے شر سے محفوظ نہیں ہے، انکا ہر قدم قانونِ فطرت کے خلاف ہے ،یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو کبھی زوال نہیں آئے گا، یہ دنیا یونہی چلتی رہے گی، کبھی ختم نہیں ہو گی،نہ کبھی قیامت آئی گی نہ حساب کتاب ہوگا۔
مگر اے غافل انسان 
اس وقت کیا ہوگا جب:
آسمان پھٹ جائیگا۔
جب تارے بکھر جائیں گے۔
جب سمندر پھاڑ دیئے جائیں گے۔
جب قبریں کھول دی جائیں گی۔
جب سورج لپیٹ دیا جائے گا۔
جب تارے ماند پڑ جائیں گے۔
جب پہاڑ چلائے جائیں گے۔
جب دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں ان کے حال پر چھوڑ دی جائیں گی۔
جب جنگلی جانور جمع کیے جائیں گے۔
جب روحیں جسموں سے جوڑ دی جائیں گی۔
جب زندہ زمین میں گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ:
تجھے کس قصور میں مارا گیا۔
جب آسمان کی کھال اتار لی جائے گی۔
جب زمین ہلا ماری جائے گی۔
اور وہ اپنے اندر کے سارے بوجھ باہر پھینک دے گی۔
اے نادان انسان
تجھے معلوم ہے کہ کیا ہے القارعہ؟ تجھے کیا خبر کہ کیا ہے وہ عظیم حادثہ؟
یہ وہ دن ہوگا جب انسان پروانوں کی طرح بکھرے ہوئے ہوں گے۔
اور پہاڑ دھنکی ہوئی رنگین اون کی طرح ہوجائیں گے۔
جب اعمال نامے تولے جائیں گے۔
اور جب کوئی راضیہ میں جائے گا۔
اورکسی کا ٹھکانہ حاویہ ہوگا۔
اور تجھے معلوم ہے کہ حاویہ کیا ہے؟
اے انجام سے بے خبر انسان۔۔۔ جس چیز کا تو انکار کرتا رہا اس وقت کیا ہوگا جب جہنم کھول دی جائے گی۔
اور جنت سامنے لائی جائے گی۔
جب تو رو رو کر کہے گا
کاش۔۔۔ میں مٹی ہوتا۔
کاش۔۔۔ میں نے انکار نہ کیا ہوتا۔
کاش۔۔۔ میں منکروں کا ساتھی نہ ہوتا۔
کاش۔۔۔ میں ایمان لانے والوں میں شامل ہوتا۔
اے نادان انسان
اس وقت کو اپنے تصور میں لا جب اہل جنت تجھ سے سوال کریں گے کہ کیا چیز تجھے دوزخ میں لے آئی؟
اس وقت تو ندامت سے کہے گا کہ
میں نماز نہیں پڑھتا تھا ۔
حق پرستوں کا مذاق اڑاتا تھا۔
ان کی مخالفت کرتا تھا۔
اور آخرت کا منکر تھا۔
اے انسان 
اللہ نے تجھے دل و دماغ اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں عطا کیں، بولنے کو زبان اور دیکھنے کو آنکھیں بخشی اور تجھے نیکی اور بدی کے دو راستے بتا دیئے اور دونوں راستوں کی تجھے سہولت دے دی مگر تونے نیکی کے راستے پر چلنے کی ہمت نہیں کی، کسی مسکین کی سرپرستی نہیں کی نہ کسی قریبی یتیم اور خاک نشین کو کھانا کھلایا۔ تونے اپنی دولت کو عیاشی میں لٹایا اور فخر کے ساتھ کہا کہ میں نے ڈھیروں مال اڑا دیا تیرا خیال تھا کہ تجھے کوئی نہیں دیکھ رہا ہے اور تو یہ بھی سمجھتا تھا کہ تیرے اوپر کوئی بھی قابو نہیں پاسکتا ہے ۔تو تکبر کے گھوڑے پر سوار تھا تیری یہ خام خیالی تجھے لے ڈوبی۔
اے انسان 
تجھے بار بار تلقین کی اور بتایا کہ یہ راستہ دوزخ کی وادی ہے مگر تو باز نہ آیا تو یتیموں، مسکینوں، بیواؤں، ناداروں، بیماروں اور بے سہارا لوگوں کے حقوق پر ڈاکے ڈالتا رہا تجھے بار بار نصیحت کی کہ
لوگوں سے منہ پھلا کر بات مت کر۔
غیبت نہ کر۔
مال جمع نہ کر۔
اسے گن گن کر نہ رکھ۔
لیکن تونے ایک نہ مانی اور سمجھتا رہا کہ:
تو اور تیرا مال ہمیشہ رہے گا۔
تجھے سخت تنبیہ کی کہ
تجھے تیرے مال سمیت حطمہ میں ڈالا جائے گا۔
اورتجھے یہ بھی بتایا گیا کہ حطمہ اللہ کی آگ ہے۔
مگر تو مسلسل جہنم کے راستے پر چلتا رہا۔
اے انسان  
تجھے یہ بھی بتایا کہ جن کو تو ترقی کی راہ پر گامزن دیکھتا ہے وہ سب خسارے میں ہیں یہ صاحبِ ثروت، دولت مند اور صاحب اقتدار نفس کے بندے بن کر دنیا میں فساد پھیلا رہے ہیں۔ سب خسارے میں ہیں ۔تجھے تیرے رب نے کامیابی کا راستہ بتایا کہ:
ایمان لاکر نیک اعمال کر۔
حق داروں کے حقوق ادا کر۔
اللہ اور بندوں کے حقوق پر دست درازی سے بچ۔
حق اور سچ کا راستہ اختیار کر۔
اور حق کا ساتھ دے۔
سچائی کے راستے میں جو تکلیفیں آئیں انہیں برداشت کر۔
صبر کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑ
۔۔۔مگر افسوس اے نادان انسان تونے اپنے رب کے احسانات کو فراموش کردیا اللہ کا راستہ چھوڑ کر شیطان کا راستہ اختیار کر لیا۔
اے غافل انسان
آنکھ بند ہونے سے پہلے اپنے رب کی طرف لوٹ آ۔ توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں