جمعہ کے کلچر کا خاتمہ

بارہ ربیع الاول کو جمعہ کا مبارک دن تھا
طویل عرصہ بعد مسجد جانے کی تمام تر تیاری کی۔ صاحبزادے کو ساتھ لیا اور مسجد رضوان پہنچ گیا۔پھر ہوا کچھ یوں کہ بچپن کی یادیں ، نکھر نکھر کر یاد آنے لگیں۔
منظر کچھ نہیں بدلا تھا۔ بس کردار بدلے تھے۔
چھوٹے بچوں کا انبوہ عظیم تھا جو ٹولیوں کی صورت میں اپنے دوستوں کے ساتھ آئے تھے اور امام صاحب کی تقریر سے بے نیاز باتوں میں مشغول تھے۔
ہر تھوڑی دیر بعد کوئی بڑا ان کو گھورتا۔ کوئی ہونٹوں پہ انگلی رکھ کر خاموش ہونے کا اشارہ کرتا۔ وہ کچھ دیر کیلئے خاموش ہوتے اور پھر شروع ہو جاتے۔
یعنی ایک شور تھا جو مسجد میں گونج رہا تھا۔
چھوٹے چھوٹے بچے تیار ہو کر اپنے والد کے ساتھ ٹوپی پہن کر مسجد خوشی خوشی چلے آئے تھے یہ وہ بچے تھے جو عام دنوں میں ان کے والد کی عدم موجودگی میں نہیں آپاتے تھے۔
گویا کہ ہر مسجد میں شورہوتا تھا اور کچھ بڑے ہوتے تھے جو ان کو رضاکارانہ کنٹرول کرنے کی ناکام کوشش کرتے۔
نماز جمعہ کے بعد کی الگ سرگرمی۔کوئی کھیل۔ گپ شپ۔ پھلوں کی خریداری۔ سوشلائیزیشن اورجمعہ کی نماز کے خصوصی کھانا روایات تھیں۔
مگر ہوا کچھ یوں کہ جمعہ کی چھٹی اچانک سے ختم کر دی گئی۔ کہا گیا کہ اس سے ملک کو معاشی نقصان ہے مگر بظاہر نظرنہ آنے والے مسائل فیصلہ کرنے والوں کی موٹی عقل کو نظر نہیں آسکتے تھے اور وہ نہیں آئے
مگر، اب سب کچھ بدل گیا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ چھوٹے بچے اب جمعہ کو جا نہیں پاتے اس لیے کہ گھر میں ان کے والد نہیں۔دوئم،اسکول کی گاڑیاں ہی ایک بجے نہیں پہنچ پاتیں اور جمعہ کی نماز اور اس کی تیاری اکثر رہ جاتی ہے۔
میں جہاں نماز پڑھتا ہوں وہاں نہایت کم بچے ہوتے ہیں جن کی عمر دس سال سے کم ہو۔اللہ کی خیر و برکت اور رحمت کا پیمانہ نہایت الگ ہے اس کا کوئی تعلق ظاہری شماریاتی حساب کتاب سے نہیں۔
اول تو اسلام میں چھٹی کا ہی کوئی تصور نہیں مگر اگر کرنی ہے تو جمعہ کی کیوں نہیں ؟
اہل یہود کی نقل میں ہفتہ اور اہل نصاریٰ کی پیروی میں اتوار کی چھٹی ہو سکتی ہے تو اہل اسلام کیوں نہ ممیز ہونے کیلئے جمعہ کوچھٹی کریں۔
نوازشریف صاحب کو اپنے ساتھ پیش آنے والے مسائل کی وجوہات کا صحیح ادراک نہیں۔ ان کے ساتھ جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کی ۔۔۔وجوہات کچھ اور ہیں یہ اللہ کی لاٹھی ہے۔ اگر وہ کچھ سمجھ سکیں۔

حصہ
mm
کاشف حفیظ صدیقی ایک تحقیقاتی ادارے سے وابستہ ہیں ۔ کراچی کے مقامی روزنامے میں طویل عرصہ "منظر۔پس منظر" کے نام سے کالمز بھی لکھتے رہے ہیں ۔ 7 تحقیقی کتب کے مصنف بھی ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں