رزق حلال ذریعہ برکت اور حرام وجہ قلت

اللہ کریم نے انسانی زندگی کو شکمِ مادر میں وجود کے ساتھ ہی حرکت سے مشروط کر دیا ہے جو اس کی زندگی کی اساس کے لیے لحد تک ضروری ہے۔ اللہ رب العزت ہر چرند، پرند اور درند کو اس کی خوراک پہنچاتا ہے مگر اپنی جگہ کسی کو خوراک کا ایک دانہ تک نہیں ملتا اور حرکت کرنے پر ہاتھی اور وہیل مچھلی جیسے دیو قامت جاندار بھی پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں۔ انسان کو اشرف المخلوقات کے درجہ پر فائز کیا تو اس کی زندگی کی خصوصیات بھی بدل دی گئیں۔اسے عطا ہونے والا یا تو حلال ہوگایا پھر حرام ہوگا۔
رزق حلال وہ ہر قسم کا کھانا اور خوراک ہے جو انسان پاکیزہ اور طیب طریقے سے حاصل کرتا ہے اور رزقِ حرام وہ ہر قسم کی خوراک یا ضروریاتِ زندگی ہیں جو انسان یا تو منع کئے گئے طریقے سے حاصل کرتا ہے یا پھر وہ ہے ہی حرام۔۔۔کیونکہ حلال رزق مشقت کا نتیجہ ہے اور ایسا ہر قسم کا رزق جو کسی بھی ایسے ذرائع سے حاصل کیا جائے جس میں کوئی مشقت بھی نہیں اور وہ کسی دوسرے کی حق تلفی سے حاصل کیا گیا ہو، محض حرام کے زمرے میں آتا ہے۔
لیکن یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ حلال تھوڑا ہونے کے باوجود برکت کا خزانہ ہے اور حرام خزانہ ہونے کے باوجود برکت سے خالی ہے۔ کتیا حرام ہے اور کئی کئی بچے دیتی ہے اور بکری حلال ہے اور ایک بچہ دیتی ہے، کتیا ذبح نہیں ہو سکتی بکریاں ذبح ہوتی ہیں اس کے باوجود آپ کبھی مشاہدہ کریں تو آپ کو بکریوں کے ریوڑ تو بآسانی نظر آئیں گے مگر کتوں کا کوئی ریوڑ نظر نہیں آتا کیونکہ حلال میں برکت ہے۔جب اللہ کریم نے حلال میں برکت رکھ دی تو کسب حلال کمانے والوں سے اپنی خاص محبت کا اظہار فرمایا چنانچہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہے:’’کسب حلال کمانے والا اللہ کا دوست ہے‘‘
جب انسان اللہ رب العزت کی ناراضگی مول لیتے ہوئے شیطان کی راہ پر قدم رکھتا ہے تو رحمن اپنی رحمانیت کا ہاتھ اس پر سے اٹھا لیتا ہے اور شیطان اسے اپنے مکروہ شکنجے میں کس کر اس کے لیے حرام راستے آسان کر دیتا ہے اور اگر یہی شخص حلال راہوں پر قدم رکھتا ہے تو اس کے لیے رحمانیت کے سب دروازے کھل جاتے ہیں اور حلال کی طرف راہیں ہموار کر دی جاتی ہیں فیصلہ اس اشرف المخلوقات کے اپنے ہاتھ میں ہے۔
آقا علیہ الصلوۃو السلام کے پاس ایک شخص بھیک مانگنے آیا، آپؐ نے اس سے کہا کہ کیا تیرے پاس کچھ نہیں۔ اس نے کہا کہ ایک پیالہ ہے جس میں میں پانی پیتا ہوں اور ایک کمبل ہے جسے میں رات کو بچھاتا ہوں۔ آپ علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا ان دونوں چیزوں کو بازار میں بیچو اور ایک کلہاڑی خریدو اور لکڑیاں کاٹ کر اپنا پیٹ پالو کیا تم اس بات کو پسند کرو گے کہ روزِ آخرت تمہارے چہرے پر بھیک مانگنے کا نشان ہو؟۔
چنانچہ حرکت میں برکت اور محنت میں ہی عظمت ہے اس بات کا یقین کر لیجیے کہ اگر حلال اور طیب رزق پیٹ میں جاتا ہے تونفس کی طرف سے تقاضا بھی حلال کا آتا ہے اور نیک امور کے فیصلے صادر کئے جاتے ہیں اور اگر پیٹ میں جانے والا رزق حرام اور مشتبہ ہے تو نور ایمانی بجھ جاتا ہے اور اس کے دل پر شیطان کا قبضہ ہو جاتا ہے تو تقاضا بھی حرام کا ہی اٹھتا ہے اور انسان تمام مخلوقات کے لیے درندہ بن جاتا ہے اور انسانیت سر جھکائے شرمسار رہ جاتی ہے۔
چنانچہ دلوں کے سکون اور اطمینان کے لیے محنت سے حاصل کیے گئے کسب حلال کی طرف متوجہ ہوں اور پھر دیکھیں کہ رحمت خداوندی کس طرح بڑھ کر تھام لیتی ہے اور اس قلت کو برکت کی کثرت میں بدل ڈالتی ہے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں