یہ علامہ اقبال کے ایک شعر کامصرعہ ہے جوربع صدی سے امت کا درد رکھنے والوں کے لیے امید کا استعارہ ہے مگر درا صل یہ محترمہ بنت الاسلام کے ناول کا عنوان ہے جو سقوط ڈھاکہ کے تناظر میں لکھا گیا ہے ۔یہ ناول 1978 ء میں پہلی دفعہ شائع ہوا جب مشرقی بازو کو جدا ہوئے سات برس گزر چکے تھے ۔ آ نکھوں سے بہتے آ نسوؤ ں کو منجمد ہونے میں اتنا عرصہ تو لگتا ہے! جی ہاں ! کچھ غم ایسے ہوتے ہیں جو رونے سے ہلکے نہیں ہوتے بلکہ دل اور آنکھوں میں ٹھہر جاتے ہیں ۔سقوط ڈھاکہ بھی ایسا ہی ایک موضوع ہے ۔
اس ناول کا انتساب مصنفہ نے نئی اور نوجوان خواتین اور اپنے اس عزیز ادارے کے نام کیا ہے جہاں وہ درس و تدریس کا فریضہ انجام دے رہی تھیں اور اس کی معنویت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب قاری کو معلوم ہوتا ہے کہ ناول کا ماحول اسی کالج کا احاطہ کرتا ہے اور اس کے تمام کردار معاشرے کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں ۔مثبت اور منفی، شیخی خور ، جذباتی ،دلچسپ اور خشک مزاج ، جاہ پرست ، اسلام پسند اور لادین عناصر ، حب الوطن اورغدار وطن …گویا معاشرے میں جتنے اقسام کے کرادار پائے جاتے ہیں ان کی جھلک کالج کے اس ماحول میں نظر آتی ہے ۔یوں تو یہ ایک معاشرتی ناول کی صف میں شامل ہوگا مگر اس میں معاشرے کی تعلیمی ، اخلاقی، روحانی ، نفسیاتی سے معاشی اور حتی کہ سیاسی صورت حال بھی واضح دکھائی دیتی ہے ۔ گویا اس ناول میں ایک معاشرے کے ہر قسم کے کردار کی نمائندگی نظر آتی ہے ۔کالج اور خصو صا ہاسٹل کی زندگی کی بھرپور جھلک نظر آتی ہے۔اوران سے دابستہ کرداروں کے مسائل بڑی خوبصورتی سے اجاگر کیے گئے ہیں ۔ ساتھ ہی ان کو کسی نہ کسی منطقی انجام کی طرف جاتا یا حل ہوتا بھی دکھا یا گیا ہے۔
چار سو سے زیادہ صفحات پر لکھے گئے اس ناول میں بائیس ابواب ہیں جس کا آغاز ایک تعلیمی، تفریحی دورے سے ہوتا ہے ۔جس میں کالج کی لڑکیا ں اساتذہ کے ہمراہ روانہ ہورہی ہیں ۔قاری کی دلچسپی اس سفر کے ذریعے ملک کے بالائی علاقوں کے جغرافیہ اور اپنی تاریخ سے ہوتی ہے ۔ اگلے باب میں ہوسٹل کی سال او ل کی طالبات گڑیا کی شادی کرتی نظر آتی ہیں ۔ اس منظر کشی میں طالبات کی ہلکی پھلکی جھڑپوں کے دوران معاشرتی رسومات کو زیر بحث لایا جا تا ہے ۔اس کے بعد مختلف ابواب میں یکے بعد دیگرے کالج کی سر گرمیاں اسپورٹس ڈے، تقریری مقابلہ، امتحانات کا موسم ، سیلاب زدگان کے لیے ہونے والی کاروائیوں کے علاوہ ٹیچرز میٹنگ ، ٹیچرز اسٹاف روم میں ہونے والی شاعرانہ اور عالمانہ بحثیں ماڈرن عورت خصوصا ورکنگ ویمن کے مسائل کا احاطہ کرتی نظر آتی ہیں اور قارئین ان تمام مناظر ، کرداروں اور مکالموں میں اپنے آپ کو کھوجتا ہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آج شاید مسائل کی نوعیت بدل گئی ہو مگر ان کے عنوانات وہی ہیں جو اس چالیس سال پرانے ناول میں نظر آتے ہیں مثلا ٹیچرز میٹنگ کا ایجنڈے کے تین نکات یوں ہیں :
۔ طالبات کا گستاخ اور شوریدہ سر ہوجانا
۔طالبات کے لباس کی بڑھتی ہوئی عریانی
۔بعض لیکچرر خواتین کا باقاعدگی سے کلاسیں نہ لینا اور کالج کے ٹائم ٹیبل کی پرواہ نہ کرنا
طالبات اور اساتذہ کی اخلاقی صورت حال اور اس کی روک تھام کے اقدامات کا ذکر بھی بڑے فطری انداز میں موجود ہے ۔کالج میں موجود اسٹاف اور طالبات کے مختلف اقسام کے گروہوں کے درمیان پایا جانے والے فرق کا ذکر ان الفاظ میں ہے :
’’….جن لوگوں کے دل میں دین اور وطن کی سچی محبت تھی ۔وہ تو تن من دھن سے مصیبت زدگان کی مدد میں مصروف ہوجاتے ….. جن لوگوں کے دل میں دین اوروطن کی اتنی گہری محبت نہیں تھی تاہم کچھ جذباتی لگاؤ ضرور تھا ۔وہ اپنے اپنے میلان طبیعت کے مطابق رویہ اختیار کر لیتے تھے ۔ان میں سے بعض تو امدادی کاموں میں مدد دیتے اور بعض جان بچا کر بھاگ جاتے اور……بہر حال یہ لوگ دین ااور وطن کے خلاف ہرزہ سرائیوں میں مشغول نہیں ہوتے تھے ۔اب رہا تیسر اگروہ جن کے دل دین کی محبت سے بالکل خالی تھے اور جن کی نگاہوں میں اغیار کے طور طریقے بسے ہوئے تھے انہیں اس عمارت سے بھی کوئی لگاؤ نہ تھا جو دین کی بنیادوں پر قائم ہوئی تھی ۔ان کا رتبہ اونچا تھااور پاکستان ان سے بہت نیچا تھا ۔…..پاکستان بھی جب اپنی کوتاہیوں کے باعث پریشانیوں کا شکار ہوتا تو ان نقادوں کا رویہ سخت غیر ہمدردانہ ، ظالمانہ بلکہ دشمنانہ ہو جا یا کرتا تھا … …….ان دنوں جب پاکستان ایک لمبے عرصے سے سخت قسم کی پریشانیوں اورالجھنوں کا شکار تھا ، یہ تینوں گروہ اپنے اپنے مخصوص رویے کا بھر پور مظاہرہ کر رہے تھے … .. ،.‘‘
ناول میں ۱۹۷۰ ء کا زمانہ دکھا یا گیا ہے ۔ اس کے حوالے سے ملکی صورت حال پر بھی تبصرے ، تجزیے ، خدشات اورتفکرات مختلف کرداروں کی زبانی پڑھنے کو ملتے ہیں۔اس میں انتخابات سے پہلے اور بعد کے واقعات اور حالات مکالمہ کی صورت میں ہیں ۔ خاص طو رپر عین انتخابات کے دن جعلی ووٹ ڈالنے اور ڈلوانے والے حماقت بھرے مناظر دلچسپی کے ساتھ ہمارے انتخابی نظام پر ہلکی سی ضرب لگاتے ہیں۔ انتخاب کے بعد ناول میں موجود تمام کرداراپنے اپنے نظریے کے مطابق رد عمل دیتے نظر آتے ہیں ۔
مصنفہ نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان کشیدگی کے تناظرمیں ایک تمثیل کے ذریعے اپنے قارئین کو اس مسئلے سے آگاہی دینے کی کوشش کی ہے :
’’ …مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی حالت اس وقت ٹھیک ٹھیک مشابہت رکھتی تھی ۔ان دو بھائیوں سے جنہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ بھر پور تعاون کر کے ، بڑی محنت اور کوشش صرف کر کے باپ دادا کے گروی رکھے ہوئے آبائی مکان کو آزاد کرایا اور پھر باہمی محبت کی ترنگ میں آکر اکٹھے رہنے کا فیصلہ کر لیا ۔ اس وقت تو ایسی ایک دوسرے کی چاہت اٹھ رہی تھی کہ آمدنیاں اور اخراجات بھی اکٹھے کر لیے ۔ حد یہ کہ باورچی خانہ تک مشترک رکھا مگر تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ کچھ اخلاقی کمزوریوں کے باعث اور کچھ دونوں کنبوں کے ایسے عناصر کے باعث جو شروع ہی سے مشترکہ رہائش کے مخالف تھے،اختلاف سر اٹھا نے لگے ۔ اب اگر معاملہ گھر کے اندر تک رہتا تو بھی خیر تھی ۔وہ آپس میں کچھ سمجھوتہ کر ہی لیتے ، مگر ستم یہ ہوا کہ ہمسائے اور اہل محلہ بڑے کینہ توز تھے انہیں دونوں بھائیوں کا اتفاق ایک آنکھ نہیں بھا یا ۔انہوں نے بڑے کو چھوٹے کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا کہ دیکھو کماتے تم زیادہ ہو اور کھا تا زیادہ چھوٹے کا کنبہ ہے اور عمر میں تم بڑے ہو اور گھر کا بندوبست کر نے کے اختیارات زیادہ چھوٹے کے پاس ہیں ۔بڑا بھی کچھ جذباتی ساواقع ہوا تھا ،اور معاملات کو دور تک دیکھنے کی صلاحیت سے بہت کچھ عاری تھا ۔وہ ان لگائی بجھائی کرنے والوں کی باتوں میں آکر آئے دن چھوٹے سے بگڑ نے لگا …… ’’ جو کچھ ہوگا دیکھا جائے گا ۔‘‘ بڑے نے کمال بے نیازی سے کہا ’’ بس اب مجھے اپنی کمائی کا ایک پیسہ بھی تمہارے ہاتھ پر نہیں رکھنا اور اپنے کنبے کا بندوبست بھی میں خود کروں گا …تم اپنے کنبے کو سنبھالو…‘‘
یہ تمثیل ملکی حالات کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتی ہے ۔ایک ایسا ناول جس کے قارئین کی غالب اکثر یت خواتین کی ہوسکتی ہے اس مثال کے ذریعے سقوط مشرقی پاکستان کو کسی تاریخی کتب کے مقابلے میں بہتر انداز میں سمجھ سکتی ہے ۔
اس ناول کا مرکزی کردار منزہ اصغر ، اسلامیات کی لیکچرر ہے جو ایک قدامت پسند جاگیردارانہ پس منظر رکھنے کے باوجود تعلیم اور اس کے
نتیجے میں در آنے والے شعور سے مالال ہے ۔ خاندان اورخاص طور منگیتراس کی ملازمت کے شدید مخالف ہیں مگر اپنے والد کی ر ضا مندی اور حوصلہ افزائی کے باعث وہ اس پیغمبری پیشہ سے منسلک اپنا کام عبادت سمجھ کر کر رہی ہے ۔ طالبات میں مرکزی کردار ثمر کا ہے ۔ایک ذہین ،باشعور اور اپنی عمر سے کہیں سنجیدہ اور بہادر طالبہ ہوسٹل میں رہائش پذیرہے اس کے والد مشرقی پاکستان میں ملازمت کرتے ہیں جنہیں بنگالی شدت پسندوں نے مشرقی پاکستان میں شہید کر کے لاش دریا میں ڈال دی ۔اطلاع پہنچنے پر گھر میں سوگ کی منظر کشی پر قاری بڑی مشکل سے اپنے آنسوؤ ں کو ضبط کرتا ہے ۔کالج اور ہوسٹل اسٹاف تعزیت کو آتا ہے ۔کی بیوہ ماں اس صدمے سے نڈھال ہے ۔اس ذہنی کیفیت میں کہے گئے جملے نظریہ پاکستان کے مقصد کو سامنے لاتے ہیں :
’’ ……اس رات پاکستان بنا تھا ….میں نے اس رات بہت عبادت کی تھی … ۔وہ تو ستائیسویں کی رات تھی ….خیر و برکت کی رات ….میں نے اس رات بہت دعا کی تھی ….!!!‘‘
ناول کے اختتامی ابواب کی طرف جاتے جاتے مشرقی پاکستان کے بعد مغربی پاکستان میں بھی جنگ چھڑ جاتی ہے اور آخری پانچ ابواب میں اسی حوالے سے سر گر میوں ، انسانی نفسیات، جذبات ، رویوں اور سر گر میوں کی منظر کشی کی گئی ہے ۔ جنگ کی ہولناکی میں کس طرح سب اپنے اپنے اختلافات ،رنجشیں اور شیخیاں بھول کر ملک کی سلامتی کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں ۔اس میں اجتماعی استغفار اور دعاؤں کی محافل بھی ہیں اور رضا کارانہ امدادی سرگر میاں جن میں فنڈ جمع کرنے سے لے کر فوجیوں کے لیے گرم کپڑوں کی تیاری، تحائف کی تقسیم، اور زخمیوں کی عیادت تک شامل ہے۔ان کے ساتھ فوجیوں کی بیگمات بھی شامل ہیں جو چند سال پہلے بھی ان حالات سے گزر چکی ہیں لیکن اس دفعہ کے حالات کیوں مختلف ہیں اس مکالمے سے معلوم ہوتی ہے :
’’ …۱۹۶۵ء کی جنگ اور اس جنگ میں بہت فرق ہے ‘‘ بیگم امتیاز نے کہا ۔ ’’ وہ جنگ تھی یہ گویا خانہ جنگی ہے ۔تب ہم سب مل دشمن کا مقابلہ کر رہے تھے ، اب یہ خیال ہی کافی جان لیوا ہے کہ مقابلے میں غیر ہی نہیں اپنے بھی ہیں …‘‘
جنگ کے غیر معمولی حالات میں ان ہی سر گر میوں کے دوران زنانہ گفتگو میں بہت سے جوہر کھلتے ہیں ۔ایک خواب جو سب کو دہلا دیتاہے ۔
’’… میں نے دیکھا کہ ایک خوبصورت سی کرسی ہے اور اس کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی ہے تو میں بہت روتی ہوں اور تڑپتی ہوں کہ کسی طرح یہ جڑ جائے مگر وہ نہیں جڑتی ….. وہ کرسی سے علیحدہ ہو کر نیچے گر جاتی ہے ۔اس پریشان کن خواب کو سن کر کسی کی ہمت نہیں ہوتی کہ تبصرہ کرسکے :
’’ …آپ کی کیا مراد ہے مس …‘‘ زرفشاں نے کہا ’’ …وہ کرسی پاکستان تھی اور اس کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ …‘‘ اس نے اپنے اندر اتنا حوصلہ نہ پایا کہ بات کو پورا کر سکے ۔کچھ خواب جن سے حاضرین محفل تو ضرور مسرور نظر آتے ہیں مگر قاری جو تاریخ کے اس سانحہ سے آگا ہ ہے اس خواب کو زیادہ اہمیت دیتا ہے جو منزہ اصغر نے دیکھا تھا :
رسول خدا ﷺ کا حسین ، مقدس ، پاکیزہ اور باوقار چہرہ لیے تشریف لائے ہیں ……نہ مقدس لب ہلے تھے اور نہ کچھ فرمایا گیا تھا مگر لمبی لمبی پلکوں والی سر مگیں آنکھوں سے موتیوں کی طرح آنسوؤں کے قطرے ٹپک رہے تھے اور وہ خاموشی غمگینی ہزار ہا داستانیں بیان فرما رہی تھی ۔! کیسی اندوہناک پیشن گوئی تھی اس بد نصیب قوم کے لیے جسے ’’ امتی ‘‘ کے معزز لقب سے سر فراز فرمایا جا چکا تھا ……..اسے اس امر میں ذرا سابھی شک نہ رہا تھا کہ اس مقدس چہرے پر حزن کے آثار کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ مغربی پاکستان کی بازی ہر چکی تھی ۔چھوٹا بھائی بری طرح مات کھا چکا تھا اور وہ بڑا نادان ’’ فاتح ‘‘ اپنی غلامی کی دستاویز پر دستخط کر رہا تھا ۔
یہ خواب تھایاتخیل مگر رات سولہ دسمبر کی تھی ۔سقوط ڈھاکہ !
آخری باب میں منزہ اصغرکی شادی کا منظر اپنے اسی منگیتر کے ساتھ ہے مگر اس عظیم سانحے کے سامنے مزاجوں کے اختلاف کی حیثیت ختم ہو چکی ہے اور امید کے سائے لیے ناول اختتام کو پہنچتا ہے ۔اس ناول کو پڑھنے والی تیسری نسل جوان ہوچکی ہے ۔ اور نئی نسل کو اپنے مستقبل کی تصویر گری میں ضرور اس ناول سے استفادہ حاصل کرناچا ہیے۔
3 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
چلو ! پلٹ چلیں
معاشی بحران، سیاسی بحران، اخلاقی بحران۔ آج وطن عزیز نجانے کس کس بحران کا شکار ہے۔ ایسے میں ہر صاحب دانش حیران و پریشان ان گتھتیوں کو سلجھانے کی کوشش میں مزید الجھتا چلا جا رہا ہے۔ الجھے ہوئے ریشم کی طرح ہر گرہ کھلنے کی بجائے مزید الجھتی چلی جارہی ہے۔
کچھ زیادہ وقت نہیں گذراجب لوگ گھر میں گندم کی موجودگی کو غنیمت سمجھتے تھے۔ مائیں بچوں کو اسکول سے واپسی پر صبح کے پکے پراٹھے پر اچار کا مصالحہ یا گڑ کی ڈلی رکھ کر شکر کی تاکید کرتی تھیں اور نہیں تو لال مرچ یا ہری مرچ کی چٹنی کا لیپ اور باریک کٹے پیاز ہی سالن کا مزہ دے جاتے، گرمیوں کی دوپہروں میں بیسنی روٹی کے ساتھ پتلی لسی کا مگااور آموں کی دو قاشیں، شام میں دال چاول یا دودھ کی میٹھی کچی لسی کے ساتھ کراری تنوری روٹی نہ صرف پیٹ کا دوزخ بھرتی بلکہ دل شکر سے لبریز اور لب الحمدللہ کے ورد سے تر ہوتے، رات کو سیر ہو کر سوتے تو صبح پرندوں کی طرح اللہ کے بھروسے پر جاگتے۔
سیزن کی سیزن دوسوٹ اور عید بقر عید کے جوتے وہ مزہ دیتے جو آج کپڑوں سے بھری درازیں نہیں دیتیں۔ نہ روپیہ تھا نہ روپے کی ہوس، سادہ گھروں کے سادہ مکیں۔ نہ کسی سے نفرت نہ کسی پہ غصہ، اک دوجے کی محبت سے لبریز ہوتے، میٹھی عید کی سویاں اور بقر عید کی کلیجی وہ لطف دیتی جو رنگ رنگ کے پکوانوں سے بھرے دسترخوان نہیں دے پاتے، آج ہر فرد اللہ کے فرمان کی تصویر بنا ہوا ہے
اَلۡہٰکُمُ التَّکَاثُرُ ۙ﴿۱﴾ حَتّٰی زُرۡتُمُ الۡمَقَابِرَ ؕ﴿۲﴾
ہمیں بھی ہماری منہ زور خواہشات اور نہ مٹنے والی حسرتیں قبروں میں پہنچا کر ہی چھوڑیں گی۔
گھر میں سال بھر کاغلہ، لہسن پیاز سے بھرے ٹوکرے، مصالحوں سے بھرے ڈبے، کپڑوں سے لدی الماریاں اور جوتوں سے بھرے ریک ہونے کے باوجود ہر فرد حالات کا رونا روتا نظر آتا ہے۔ اللہ بخشے امی جان کہا کرتی تھیں ہمیشہ منہ سے اچھے جملے نکالو، بعض اوقات منہ نکلے کلمے پورے ہو جاتے ہیں۔
آج آپکے اور میرے ساتھ بھی یہی ہوا ہے سچ میں منہ سے نکلے جملے پورے ہو گئے ہیں، اب چاہے ناہل حکمرانوں کو الزام دیں یا بگڑتی معشیت کا رونا روئیں، خدا کی کرنی تو ہو کر رہے گی۔ ہماری ناشکری نے ہی یہ دن دکھائے کہ پیاز جیسی حقیر چیز بھی آسمان پر چڑھ بیٹھی اور آٹے جیسی بنیادی چیز بھی دسترس سے باہر ہو گئی۔ ایک شو شا تھی اور اندھی چکا چوند جو گلیمر کی دنیا فلموں، ڈراموں کے ذریعے دکھا رہی تھی، اچھوں اچھوں کی آنکھیں چندھیا گئیں اور ھل من مزید کے چکر میں سبھی زمیں پر آرہے۔
بھول گئے حبیب خدا ﷺ کا وہ فرمان کہ دنیا میں اپنے سے نیچے والوں کو اور دین میں اپنے سے اوپر والوں کودیکھو، ہم نے تو معیار ہی بدل ڈالے اب نہ تو کسی کے زہد و تقویٰ پر رشک ہے اور نہ کسی عالم باعمل پر،بلکہ رشک کی بجائے دل حسد وکینہ سے بھر گئےنتیجہ...
کشمیریوں کے جذبہ ایمانی کو سلام
ہر لمحہ مچلتی ہیں تیرے من میں بہاریں
میخانہ در آغوش ،درختوں کی قطاریں
چشموں کے ترانے ہیں کہ ساون کی ملہاریں
ندیوں میں تری نغمہ آزادی کی تفسیر
اے وادی کشمیر ، اے وادی کشمیر
کشمیر جنت نظیر کے لیے ۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو طلوع ہونے والا آزادی کا سورج طلوع ہوتے ہی گہنا گیا۔ کشمیریوں پر چھائی ظلم کی رات ابھی تک اپنی صبح کے انتظار میں ہے ۔ اتنے سالوں سے بھارت نے وہ کون سا ظلم ہے جو کشمیریوں پر نہ ڈھایا ہو ۔ قیدو بند کی صعوبتیں ، خواتین کی عصمت دری ، قتل عام اور بلا وجہ کی پر تشدد مارپیٹ ۔
کانپ اٹھتا ، چلاتا ، آہ و فغاں کرتا
سانس لیتا اس دور میں گر ہٹلر کوئی چنگیز کوئی
کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور شہ رگ کی جسم کے لئے اہمیت سے کون ناواقف ہے۔ بے قصور کشمیری ایک طویل عرصے سے دن بدن بڑھتے بھارت کے ظلم کو سہ کر بھی ہم سے قائم ایمانی رشتے کو جرآت اور حوصلے سے نبھا رہے ہیں ۔ پاکستان کو کسی بھی فورم پر کامیابی ملے کشمیر میں اس پر خوشی منائی جاتی حالانکہ ایسی ہر خوشی ان پر ظلم کے ایک نئے باب کا آغاز ہی بنی ہے ہمیشہ لیکن ان کا ہر دن پاکستان سے اظہارِ یکجہتی کا دن ہوتا ۔ بھارت نے ہر ممکن حربہ آزما کر دیکھ لیا مگر وہ کشمیریوں کی پاکستان سے دوستی اور محبت کے جذبے کو نہیں مار سکا۔ کشمیری بہن بھائیوں کی اسی محبت اور حوصلے کی وجہ سے آج ہم آزادی کے مزے لوٹ رہے ۔
ہم پاکستانی بھی کشمیر اور کشمیر کے عوام سے محبت رکھتے ہیں ۔ دل دکھتا ہے کہ ہم اس محبت کو اپنے کشمیری بہن بھائیوں کی طرح نہیں نبھا سکے ۔ جس جرآت اور بہادری کا مظاہرہ کشمیری کر رہے ہم بھی اگر اتنی ہمت کر لیتے تو حالات یقیناً مختلف ہوتے۔ بیڑیوں میں جکڑے ابو جندل رضی اللہ عنہُ کو معاہدہ حدیبیہ کی روشنی میں دکھتے دلوں کے ساتھ کفار کو دیا تو پھر چشم فلک نے دیکھا کے محض دو سال بعد جذبہ ایمانی سے سرشار جانثاروں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں اس شان سے مکہ فتح کیا کہ کفار مقابلے کی ہمت ہی نہ کر سکے ۔ اور ایک ہم ہیں کہ اپنے ملک سے لے کر پوری دنیا کے ہر فورم پر کشمیر کے لیے آواز بلند کرتے ہیں اور حق پر ہوتے ہوئے بھی اس کی شنوائی تو دور کی بات غاصب کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی۔
آتی ہے صدا سوختہ لاشوں سے مسلسل
انسان کو آواز دو انسان کہاں ہے
کشمیری جبر سہ کر بھی ہمارے لئے کھڑے ہیں اور ہم آزاد ہو کر بھی ان کے درد کا درماں نہ کر پائے۔ دن منائے، جلسے جلوس نکالے، تقریریں کیں، نعرے لگائے، قلم سے صفحات بھرے، قصیدے لکھے، قراردادیں منظور کروائیں اور حاصل وصول کچھ بھی نہیں۔ جس پر ہم کھڑے ہیں یہ ایمان کا کون سا درجہ ہے ؟؟ یقیناً کشمیری عوام ایمان اور جرآت میں ہم سے بہت آگے ہیں۔
کشمیریو ! تمھارے...
خوش فہمی
دستک دے کر خوش فہمی میں نہ رہنا
یہ دیوار نہیں اس کا دروازہ ہے
اپنی منشا کے مطابق نتیجہ نکالنا، ہر کام کو اپنی خواہش کے مطابق خیال کرنا خوش فہمی کہلاتا ہے۔
انسان کو جسمانی امراض کی طرح نفسیاتی امراض بھی لاحق ہوتے ہیں حرص و طمع بغض اور کینہ انہیں میں خوش فہمی بھی شامل ہے اس کی بنیاد غرور اور تکبر ہے یہ شخص اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے اور اپنی بات کو حتمی تصور کرتا ہےخوش فہمی کا ہونا کوئی انہونی با ت نہیں ہے۔ ہر شخص زندگی میں اکثر اوقات نہیں تو بعض اوقات ضرور کسی نا کسی خوش فہمی میں مبتلارہتاہے ۔ بعض اوقات لوگ طرح طرح کئی کئی خوش فہمیوں میں مبتلا رہتے ہیں خوش فہمی اور غلط فہمی میں کیا فرق ہے؟ ان کا بنیادی فرق یہ ہے کہ غلط فہمی میں مبتلا شخص کے اندر کسی نا کسی صورت میں اپنی غلطی تسلیم کرنے کی گنجائش موجود ہوتی ہے جبکہ خوش فہمی میں مبتلا شخص اس صلاحیت سے قطعاً محروم رہتاہے۔ آج ہم اپنی قومی خوش فہمی کی بات کریں گے کہ اللّہ پاک ہمیں صرف نسبتوں کے سہارے ہی معاف کر دے گا عمل کی کوئی خاص ضرورت نہیں اور اگر عمل ہے بھی تو اخلاص کا نام و نشان موجود نہیں۔
انسان زندگی میں جو خوش فہمی ہوتی ہے یہ بہت مسائل پیدا کرتی ہے اللہ پر کامل ایمان رکھنا اور اس کی امید لگانا اور اس کے ساتھ اپنی زندگی کے شب و روز گزارنا یہ بہت اعلیٰ بات ہے لیکن خوش فہمی میں مبتلا ہوکر عمل کا راستہ چھوڑ دینا حق کی جدوجہد اور تقوی کا راستہ ترک کر دینا یہ انسان کو بہت دور تک لے جاتا ہے یقینا اچھی نسبت انسان کو بہت فائدہ دیتی ہے لیکن اس کے لئے بھی ایمان اور عمل کی شرط ہے اگر کسی شخص کا عقیدہ ٹھیک نہ ہو تو نسبت سے کیا فائدہ یہاں قرآن مجید جو قیامت تک انسانوں کی ہدایت کے لیے ہے کہ سورہ بقرہ میں یہودیوں کی بات کو مثال کے طور پر پیش کرتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے لاڈلے ہیں پہلے تو ہمیں کوئی عذاب ہونا ہی نہیں ہے اگر ہوا بھی تو صرف کچھ دن کے لیے ہوگا کچھ کا تو خیال آتا ہے کہ جتنے دن گائے کی پوجا کی تھی بس اتنے ہی دن کا عذاب ہو گا یہ خود ہی اپنے منہ میاں مٹھو بنتے ہیں اور خوش فہمی میں مبتلا ہے ان کو جواب بھی قرآن مجید ہی دیتا ہے کہ خالق کائنات فرماتے ہیں کہ کیا تم نے خدا سے کوئی وعدہ کیا ہے تو پھر اپنے معاہدے کے خلاف نہیں جاتا یا تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو تم جانتے ہی نہیں حقیقت بھی یہی ہے کہ تم اتنی بڑی بات کہہ رہے ہو تمہارے پاس کوئی معاہدہ ہی نہیں ہے یا تمہیں کسی نبی نے بشارت دی ہے تو پھر تو ٹھیک ہے اگر ایسا نہیں ہے تو یہ صرف تمہاری خوش فہمی ہے اصول تو ہے کہ جس نے جان بوجھ...
مسلمان جاگ
یہودی اور عیسائی انتہا پسند لابی عرصہ دراز سے اسلام دشمنی میں سر گرم ہے ۔انہیں مغرب میں اسلام کی مقبولیت سے خوف محسوس ہوتا ہے اور دنیا میں مسلمانوں کے بلند و مستحکم وجود کے مد مقابل اپنے گھنائونے اخلاقی زوال کا شکار معاشرہ کو دیکھ کر احساس کمتری جنم لیتی ہے ۔ لہٰذ ا اسی کمپلیکس کو کو دبانے کیلئے دنیا میں اسلام کے تشخص کو مسخ کرنے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہیں ۔ ہم جنس پرستی، ایل بی ٹی، اور کیو ، کے حقوق پر واویلا مچانے والا انسانی حقوق کا علمبردار مغرب اپنے زعم میں مبتلا ہے اورتیزی سے پھیلتے ہوئے اسلام کو مکروہ کوششوں سے روکنا چاہتاہے۔
بعض اندازوں کے مطابق 2030ء تک دنیا میں اِسلام کے پیروکاروں کی تعداد عیسائیت کے پیروکاروں سے بڑھ جائے گی، ان شاء اللہ ! مغربی دنیا اِسی لیے سراسیمگی اور خوف کا شکارہے کہ بہت جلد اِسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بننے والا ہے،یہی وجہ ہے کہ مستقل سازشوں کے تحت اِسلام کا حسین اور خوب صورت چہرہ مسخ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ لہٰذ اب وقت کا تقاضا ہے کہ عالم اسلام کے حکمران خواب غفلت سے بیدار ہو اور دنیا بھر میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی روک تھام کیلئے مئوثر حکمت عملی اپنائے۔
یورپین ممالک جو انسانیت پرستی کی دوہائی دیتے ہیں مسلم دشمنی میں تمام حدیں پار کر چکے ہیں ۔جو لوگ دین، قرآن مجید اور پیغمبر اکرم ﷺ کی توہین کرتے ہیں وہ درحقیقت تمام ابراہیمی مذاہب اور پوری انسانیت کی توہین کر رہے ہیں۔مغربی ملک سوئیڈن میں انتہا پسند عناصر قرآن پاک کی بے حرمتی کرکے اپنی وحشیانہ جبلت کامظاہرہ کررہے ہیں۔ سویڈن میں انتہائی دائیں بازو کی ’ہارڈ لائن‘ پارٹی کے رہنما راسموس پالوڈان نے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں حکومتی سر پر ستی میں ترک سفارت خانے کے سامنے( نعوذ باللہ )قرآن پاک کے ایک نسخے کو آگ لگا دی۔ ترقی یافتہ مغربی ملک میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے قبل ازیں وہ اسی طرح کے گستاخانہ کارروائیاں منظر عام پر آچکی ہیں۔
انتہا پسند لیڈر بد بخت راسموس پالوڈان جس نے گزشتہ سال سویڈن میں پرتشدد مظاہروں کو ہوا دی تھی، ملکی دورے کے دوران سرعام قرآن پاک کی بے حرمتی کرتے ہوئے نسخے نذر آتش کئے تھے۔ دوسری جانب ہالینڈ کے انتہا پسند، انتہا پسند "پیگیڈا" تحریک کے رہنما ایڈون ویگنزفیلڈ نے گزشتہ دنوں دی ہیگ میں قرآن پاک کا ایک نسخہ پھاڑ دیا اور اس کے کچھ صفحات جلا دیئے۔ یکے بعد دیگرے ایسے گستاخانہ واقعات کا رونما ہونامحض اتفاق نہیں بلکہ منظم منصوبہ کے تحت سوقیانہ مہم جاری ہے اور اسے یورپی حکومتوں کی سر پرستی بھی حاصل ہے۔ چنانچہ گزشتہ عرصے میں یورپ کے بہت سے حصوں میں اسلام مخالف نفرت انگیز مہم بالخصوص اسلامو فوبیا میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
یورپی ممالک جہاں پر دیگر پسماندہ ملکوں کی طرح بجلی، پانی اور روزگار انتخابی ایشونہیں ہوسکتے ہیں۔لہٰذا اقتدار حاصل کرنے کے لئے یہاں شدت پسند طبقہ سراٹھارہا ہے اور مسلمانوں کو آسان نوالہ سمجھ کر ان کے ایشوز کو اچھال رہاہے۔ان...
قوام مرد ہی کیوں؟
عام طور پر سنا اور بولا جاتا ہے 'مردوں کا معاشرہ'۔ اگر چہ یہ الفاظ بعض اوقات کسی احساس محرومی کا نتیجہ ہوتے ہیں اور بعض اوقات نظریے اور فکر کی نا پختگی یہ الفاظ کہلاتی ہے،کبھی فیمینزم کے زیر اثر یہ کہا جاتا ہے اور کبھی حقیقتا مرد کے غیر منصفانہ رویے کے رد عمل میں کہا جاتا ہے۔
ہمیں دیکھنا ہو گا کہ ہم رائے قائم کرنے میں کتنے پختہ ہیں۔ کیا ہم فرد کی کسی ایک کمزوری کو اس کی ساری خوبیوں پر حاوی کر کے پیش کرتے ہیں یا اس کی شخصیت کا بحثیت مجموعی جائزہ لے کر ایک متوازن رائے بناتے ہیں۔ دراصل،ایک مرد کے غیر منصفانہ رویے کو بنیاد بنا کر اللہ سے شکوہ کناں ہو جانا بچگانہ اور احمقانہ رویہ ہے۔
یہ تو عام فہم بات ہے کہ کسی بھی ادارے کی بنیاد جب رکھی جاتی ہے تو ایک فرد اونر، سربراہ، نگران کی حیثیت سے مقرر کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی دوسری صورت ہی نہیں۔ اللہ نے جب دنیا بنائی تو سب سے پہلا ادارہ جو قائم ہوا وہ 'خاندان' تھا۔ خاندان کے معاملات پر ایک نگران مقرر کیا جانا ادارے کی فعالیت اور بقاء اور شناخت کے لئے ضروری تھا۔ اللہ ! جس کی حکمت کا کوئی ثانی نہیں۔، نے مرد کو اس ادارے کا سربراہ بنا دیا تا کہ وہ حالات کے سرد و گرم میں خاندان کا تحفظ کر سکے۔ جہاں تک عورت کی بات ہے تو اس کی بنیادی ذمہ داری اولاد کی پیدائش، پرورش، تربیت تھی۔ ان نازک ذمہ داریوں سے عہدہ براہ ہونا مرد کے بس کا روگ نہیں تھا۔ یہ مشقت پر صعوبت لیکن اجر وثواب سے بھرپور کام قیام، مستقل مزاجی اور چار دیواری کا متقاضی تھا، اخفاء اس کی خوبصورتی تھی۔ جذبات سے بھرپور عورت اس ذمہ داری کی اہل تھی۔ مرد کو اللہ نے سخت کوش اور مضبوط بنایا لہٰذا اس کی سوچ میں جذبات سے زیادہ حکمت کا دخل ہے، اس کے فیصلے مضبوط مگر غیر جذباتی ہوتے ہیں، اس کا مؤقف توازن سے بھرپور ہوتا ہے۔ وہ ان تمام پہلوؤں پر غور کر کے فیصلہ کرتا ہے جن پر ایک عورت جذباتی، نرم دلی اور صنف نازک ہونے کی وجہ سے غور نہیں کیا کرتی۔
کیا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا جسمانی، ذہنی اور جذباتی لحاظ سے اس مخالفت کا براہ راست سامنا کر سکتی تھیں جس کا سامنا خود محمد ﷺ کو کرنا پڑا؟ کیا وہ مضبوط اور مستحکم فیصلے کر سکتی تھیں اس صورتحال میں؟ ہاں، تشفی ودلجوئی اور ڈھارس بندھانے کا کام ان کی فطرت اور مزاج کے عین مطابق تھا اور وہ انہوں نے بخوبی کیا۔کیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا واقعہ افک میں اپنے ہر بہتان کی خبر پا کر چارپائی سے نہ لگ گئیں؟ کیا محمد ﷺ نے اس پورا عرصہ میں کوئی جذباتی قدم اٹھایا؟حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر شک کیا یا بہتان لگانے والوں کے خلاف فوری ایکشن لیا؟ نہیں، کیونکہ اپنی بیوی کی پاکدامنی کا یقین ہونے کے باوجود ایسا کرنا منافقین کو غیر اخلاقی حملے کرنے پر شہ...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...
فرحت بھت بڑی خدمت کی ھے آپ نے اس گرد کو جھاڑ کر تاریخ سے
بہت اچھا تبصرہ ور تجزیہ ہے۔
اس ناول کا سن اشاعت اور پبلشرز بتا دیں۔