شال کوٹ سے کوئٹہ تک سفر 

کوئٹہ کا پرانا نام  شال کوٹ تھا شال کوٹ  ایک پرانا شہر ہے شال کوٹ نے ترقی کی منزل طے کی تو یہ کوئٹہ بن گیا کوئٹہ کے  لغوی معنیٰ ‘قلعہ’ کے ہیں۔ کوئٹہ کا یہ نام کسی قلعہ کی وجہ سے نہیں ملا تھا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ  کوئٹہ کے چاروں طرف سے پہاڑوں سے گھرا ہوا شہر ہے جس سے وہ ایک قدرتی طور پہ قلعہ  بنا ہوا ہے۔ حتیِ کہ بعض پہاڑی علاقوں میں کوئٹہ کو پیالہ نما شہر بھی کہا گیا ہے  اور ماضی میں اس شہر کو لٹل پیرس کا بھی نام دیا گیا ہے  سچ تو یہ ہےکہ اس شہر میں سب سے ذیادہ چائے تو پیالے میں پی جاتی ہے وہ بھی سبز چائے ۔ کوئٹہ چاروں طرف سے پہاڑوں سے گھری ہوئی وادی ہے۔ سردیوں میں شدید سردی ہوتی  ہے اور گرمیوں میں یہ شہر  کچھ گرم ہوجاتا ہے ۔ آج  کل یہاں گرمیوں میں شدید گرمی چالیس  ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتی ہے جو عبرت کا باعث ہے جبکہ سردیوں میں شدید سردی منفی بیس ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتی ہے جو لوگوں کے برداشت کے قابل نہیں ہوتی۔ بلوچستان کے اکثر گرم علاقوں کے لوگ مارچ سے ستمبر تک کوئٹہ کا رخ کرتے ہیں اور کوئٹہ میں ان ماہ میں ایک بھیڑ جمع ہوجاتی ہےاور ایک میلے کا سما سج جاتا ہے  اس دوران گھروں کے کرائے ڈبل سے ٹرپل ہو جاتے ہیں اکثر ہوٹلوں کا ملنا بھی نایاب  ہو جاتا ہے پھر غریب لوگ ٹینٹ لگا کے اپنا گھر بناتے ہیں اور گرمیاں کوئٹہ میں  گزارتے ہیں  یہ ٹینٹ سریاب روڈ پہ ہزاروں کی تعداد میں سج جاتے ہیں اور تیز آندھی اور بارش  ان کےٹینٹوں کو اکھاڑ دیتی ہے مگر پھر بھی یہ لوگ گرم علاقوں سے زیادہ کوئٹہ کو ترجیح دیتے ہیں ۔

کوئٹہ  1947ء میں پاکستان کی آزادی کے بعد بلوچستان  کا صدر مقام بنا تھا۔  جب بلوچستان کو صوبہ کا درجہ دیا گیا تو اس کی یہ حیثیت برقرار رکھی گئی جو آج تک برقرار ہے۔ کوئٹہ  میں کئی مغل بادشاہ آ کے گزرے ہیں جبکہ 1543ء میں مغل شہنشاہ ہمایوں جب شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر ایران کی طرف فرار ہو رہا تھا تو کوئٹہ میں کچھ عرصہ قیام کیا تھا اور جاتے ہوئے اپنے بیٹے اکبر کو یہیں چھوڑ گیا تھا اکبر نے دو سال تک کوئٹہ میں رہائش اختیار کی تھی ۔ 1556ء تک کوئٹہ مغل سلطنت کا حصہ رہا جس کے بعد ایرانی سلطنت کا حصہ بنا۔ مگر مغلوں کو یہ برداشت نہیں ہورہا تھا کہ کوئٹہ ایرانی سلطنت کا حصہ ہو پھر 1595ء میں دوبارہ شہنشاہ اکبر نے کوئٹہ پہ حملہ کیا اور کوئٹہ کو اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا تھا۔

جبکہ 1839ء کی پہلی برطانوی و افغان جنگ کے دوران انگریزوں نے کوئٹہ پر قبضہ کر لیا۔ 1876ء میں اسے باقاعدہ برطانوی سلطنت میں شامل کر لیا گیا اور رابرٹ سنڈیمن کو کوئٹہ کا  پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کیا گیا۔ سنڈیمن کی ایک بڑی خاصیت تھی کہ اس نے تمام سرداروں کو ایک کوزے میں بند کر دیا۔ سنڈیمن واحد پولیٹیکل ایجنٹ تھا جو بغیر محافظوں کے پورے بلوچستان کی سیر کرتا تھا سنڈیمن کے نام سے آج بھی کوئٹہ کے کئی ادارے منسوب ہیں جن میں سول ہسپتال سمیت کچھ اسکول بھی ہے انہوں نے کوئٹہ میں سڑکوں کا جال  بچھانے کا کام شروع کیا تھا آج بھی کچھ سڑکوں کے نام ان انگریزی ناموں سےمنسوب ہے جن میں پرنس روڑ مشن روڑ بہت مشہور ہے ۔ جبکہ انگریزی حکومت نے کوئٹہ کو ریل کا نظام دے کر پورے ملک پاکستان سے ملایا وہ قابل ستائش ہے حتیِ کہ ریل نظام کی بحالی کوئٹہ کے لئے سب بڑا کارنامہ تھا۔

ایک دن  ایسا برا وقت کوئٹہ پہ آیا جب کوئٹہ تیس سیکنڈ میں پورا الٹ پلٹ ہوگیا اس وقت بلوچستان کے عظیم لوگ اس دنیا سے چلے گئے جی ہاں وہ دن تھا 31 مئی 1935ء کا جب کوئٹہ میں ایک بڑا زلزلہ آیا تھا  جس نے پورے شہر کو آناً فاناً مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کردیا اور ایک اندازے کے مطابق چالیس ہزار افراد ہلاک ہو گئے۔ اس قیامت خیز زلزلہ نے کوئٹہ کو بالکل تباہ کر دیا اور شہر کی عمارتوں کا نام نشان تک نہ چھوڑا۔ تھا لوگ اپنے پیاروں کو کئی کئی ماہ تک عمارتوں کے نیچے اپنے پیاروں کو تلاش کرتے رہے  یہ زلزلہ ایک انگریز رچرڈ کے مطابق 7.1 کی شدت کا تھا جس نے پورے بلوچستان کو غم میں نڈھال کر دیا تھا اس روز کے بعد اکثریت لوگوں نے زلزلے کے خوف سے  رخ کرنا چھوڑ دیا تھا لیکن گرمی کی شدت نے ان لوگوں کو دوبارہ کوئٹہ شہر آباد کرنے پہ مجبور کر دیا تھا۔

آج کل کوئٹہ کی آبادی سات لاکھ بن گئی ہے اور پاکستان کا نواں بڑا شہر ہے جبکہ بلوچستان  کا سب سے بڑا شہر بنا ہوا ہے۔صوبائی دارالحکومت ہونے کی وجہ سے بہت سے دفاتر قائم ہوئے ہیں اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلی بھی اسی شہر میں ہے۔ بلوچستان کی پہلی یونیورسٹی بلوچستان یونیورسٹی  بھی اسی شہر کے حصے میں ہے۔ جبکہ پاکستان کے سب سے زیادہ  خشک فروٹ بھی اسی شہر کی قسمت میں ہے۔ دنیا کی خوبصورت ترین جھیل ہنہ جھیل بھی کوئٹہ میں موجود ہے جبکہ دنیا کے سب سے مشہور جگہ جبل نور بھی اسی شہر کی قسمت میں ہے جس میں لاکھوں شہید قرآن مجید رکھے گئے ہیں عسکری پارک لیاقت پارک خوبصورتی کی وجہ سے دیدہ زیب ہے۔ اور برفباری تو کوئٹہ کی جان ہے۔جبکہ کوئٹہ میں  بولی جانے والی زبان بلوچی براہیوی پشتو سندھی سرائیکی اور پنچابی اور فارسی قابل ذکر ہیں بلوچی چپل اور بلوچی سجی اس شہر کی مشہور سوغات ہیں ۔

بلوچستان میں ہر سال لاکھوں لوگ گھومنے پھرنے اور سیاحت کے حوالے سے کوئٹہ  آتے ہیں جبکہ پاکستان میں   بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ بھی اسی شہر کی قسمت میں لکھے ہوئے ہیں  ہر سال کوئٹہ میں  دو ہزار سے تین ہزار افراد مختلف واقعات میں  لقمہ اجل بن جاتے ہیں جبکہ اغوا برائے تاوان کے بھی کئی واقعات کوئٹہ میں پیش آتے ہیں جس کی وجہ افغانستان کا بارڈر نزدیک ہونا ہے۔ دنیا کا پر امن ترین شہر کوئٹہ بد امنی کے الائو میں بدل چکا ہے۔کبھی مہلک بیماریوں کے علاج معالجے کےلئے دنیا کے لوگ کوئٹہ کی آب و ہوا  کے حوالے سے پہنچ جاتے تھے مگر آج لوگ اس شہر سے بھاگ رہے ہیں ۔ کیونکہ کوئٹہ میں امن کے ساتھ سکون بھی نہیں رہا لوگ گیس بجلی پانی  اور بد ترین سڑکوں کی وجہ سے بے زار ہو چکے ہیں ۔

حصہ
mm
ببرک کارمل جمالی کاتعلق بلوچستان کے گرین بیلٹ جعفرآباد سے ہے ۔ان کے ماں باپ کسان ہیں مگر اس کے باوجود انہوں نے انہیں ایم اے تک تعلیم جیسے زیور سے آراستہ کیا۔ ببرک نے ابتدائی تعلیم اپنے گائوں سے حاصل کیا اور اعلی تعلیم کیلئے پھر کوئٹہ کا رخ کیا ان کی پہلی تحریر بچوں کے رسالے ماہنامہ ذہین میں شائع ہوئی اس کے بعد تحاریر کا نہ رکنے والا سلسہ جاری وساری رہا اب تک دو ہزار کے لگ بھگ تحاریر مختلف رسالوں اور اخبارات میں چھپ چکی ہیں۔یہ پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں جبکہ ان کی تحاریر ان اخبارات اور رسالوں میں چھپ چکی ہیں اور چھپ رہی ہیں جن میں (روزنامہ پاکستان) بلاگ رائیٹر (روزنامہ ایکسپریس) بلاگ (حال احوال) کوئٹہ بلاگ رائیٹر جبکہ ان کی فیچر رپورٹس ( ڈیلی آزادی)کوئٹہ (ڈیلی مشرق )کوئٹہ ماہنامہ جہاں نما کوئٹہ میں آج تک چھپ رہی ہیں۔ان کی کہانیاں (ماہنامہ پھول) لاہور (ماہنامہ ذہین) لاہور (ماہنامہ اردو ڈائیجسٹ)لاہور ( ماہنامہ پیغام) لاہور (ماہنامہ روشنی)پنڈی (ماہنامہ افکار جدید) لاہور میں چھپ چکی ہیں ۔ان کاا یک مستقل سلسلہ بلوچستان کے حوالے ماہنامہ اطراف انٹرنیشنل کراچی میں بھی چل رہا ہے اس کے ساتھ یہ بچوں کے لیے بھی بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ ماہانہ (پارس) کے مدیر بھی ہیں۔ کئی ادبی ایوارڑ بھی مل چکے ہیں اور ٹی وی، پہ کچھ پروگرام بھی کر چکے ہیں۔ جبکہ اکسفورڈ پریس کی کتاب میں بھی ان کی تحریر شائع ہو چکی ہے۔ببرک پاکستان رائیٹر سوسائیٹی بلوچستان کے نائب صدر بھی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں