بیسویں صدی کے سائنس دان۔۔۔ البرٹ آئن سٹائن

البرٹ آئن سٹائن (14 مارچ 1879۔۔18 اپریل1955) ایک جرمن ریاضی دان اور طبیعات دان تھے جنھوں نے تنصیب کے خصوصی اور عام نظریات پیش کیے۔۔ آپ کا شمار بیسویں صدی کے ایک بااثر طبیعات دان میں ہوتا ہے ۔۔ آپ سیکولر یہودی خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ہرمن آئن سٹائن بیچنے والے اور انجینئر تھے جنھوں نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر بجلی کے آلات تیار کرنے والی ایک کمپنی بنائی۔آپ کی والدہ پالین کوچ گھریلو معاملات کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔۔ آپ کی ایک بہن تھی ماجا جو آپ کے دو سال بعد پیدا ہوئی۔۔
1921ء میں البرٹ آئن سٹائن کو طبیعات میں فوٹو الیکٹرک ایفیکٹ کی وضاحت کرنے پر نوبل انعام ملا۔اسی صدی میں آپ نازیوں کے حملے کی وجہ سے امریکہ کی جانب ہجرت کرگئے۔ البرٹ آئن سٹائن کے کام نے جوہری توانائی کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔1921 کے بعد آنے والے سالوں میں البرٹ آئن سٹائن نے یونیفائیڈ فیلڈ تھیوری پر بھی توجہ مرکوزکی۔ایک طبیعات دان کی حیثیت سے آئن سٹائن نے بہت سی دریافتیں کیں لیکن تنصیب کے نظریے اور E=mc2 کی بدولت آپ کو زیادہ جانا جاتا ہے جس نے جوہری طاقت اور ایٹمی بم کی ترقی کو فروغ دیا۔۔
1905میں اپنے پیپر میں پیش کیے جانے والے آئن سٹائن کے خصوصی تنصیب کے نظریے سے طبیعات کو ایک نئی سمت دی۔۔ نومبر 1915 میں انھوں نے تنصیب کاعام (جنرل) نظریہ مکمل کیا۔۔اس نظریے کو آئن سٹائن کی زندگی کی تحقیق کا خاتمہ سمجھا جاتا ہے۔آئن سٹائن عام تنصیب کی خوبیوں کے قائل تھے کیونکہ اس اصول نے سورج کے گرد سیاروں کے مدار کی درست پیش گوئی کو یقینی بنایاجس کی نیوٹن کے نظریے میں کمی تھی۔اس نظریے نے کس طرح کشش ثقل کی قوتیں کیسے کام کرتی ہیں کی بھی تفصیلی وضاحت کی۔1919 کے سورج گرہن کے دوران مشاہدات اور پیمائش کے ذریعے انگریز ماہرین فلکیات سر فرینک اور سر ارتھر نے آئن سٹائن کے دعووں کو درست قرار دیا۔اس طرح ایک عالمی سائنسی آئکن کی پیدائش ہوئی۔
آئن سٹائن نے 1905میں مادہ اور توانائی کے درمیان تعلق کو واضح کرنے کے لیے E=mc2 کی مساوات پیش کی۔اس مساوات کے مطابق ایک جسم کی توانائی برابر ہوتی ہے جسم کی کمیت ضرب روشنی کی رفتار کے مربع کے۔۔یہ مساوات ظاہر کرتی ہے کہ مادہ کے چھوٹے چھوٹے ذرے توانائی کی بڑی مقدار میں منتقل ہو سکتے ہیں۔کوانٹم فزکس کے مشہور سائنس دان میکس پلینک نے آئن سٹائن کے ان دعووں کو محفوظ کرکے ان پر مزید کام کرکے اپنا نام بنایا۔
1940میں امریکہ میں جرمنی کے یہودیوں اور افریقہ کے امریکیوں کے رویوں کے درمیان روا رکھا جانے والے اختلاف کو دیکھتے ہوئے آئن سٹائن ’’ نیشنل ایسوشیشن فار دا ایڈوانسمنٹ آف کلرڈ پیپل‘‘ (این اے اے سی پی)کے ممبر بنے۔آپ یقین رکھتے تھے کہ نسل پرستی ایک بیماری ہے۔
آپ 18اپریل 1955 میں 76کی عمر میں پرنسٹن کے یونیورسٹی میڈیکل سنٹر میں صبح کے وقت وفات پا گئے۔۔ اس سے گزشتہ دن اسرائیل کی ساتویں برسی کے موقع پر دی جانے والی تقریر پر کام کرتے ہوئے آپ معدے کی بیمار کا شکار ہوئے۔علاج کے لیے آپکو ہسپتال لے جایا گیا اور سرجری کروانے کی تجویر دی گئی تو آپ نے یہ سرجری کروانے سے انکار کردیا یہ کہتے ہوئے کہ آپ اپنی زندگی جی چکے اور اپنی قسمت کو قبول کرنے کے لیے مطمئن ہیں۔۔ اس لمحے آپ کے الفاظ یہ تھے:
’ میں جانا چاہتاہوں جب میں چاہوں گا۔۔ یہ بات بدمزہ ہے کہ زندگی کو مصنوعی طریقے سے طویل کیا جائے۔ میں اپنا حصہ وصول کر چکا ہوں ،یہ جانے کا وقت ہے اور میں یہ کام خوبصورتی سے کروں گا۔‘‘
1999 میں کینڈا کے سائنس دانوں نے آئن سٹائن کے دماغ کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ اخذ کیا کہ آئن سٹائن کے دماغ کا ایک حصہ جو سپیشیل ریلیشن شپ ، تھری ڈی اور ریاضی کے افکار پر مشتمل ہوتاہے وہ عام ذہانت کے لوگوں کی بہ نسبت ان میں پندرہ فیصد زیادہ وسیع تھا۔ ’’ دی نیویارک ٹائمز ‘‘کے مطابق محققین اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آئن سٹائن اتنا ذہن کیوں تھا۔

حصہ
mm
پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں۔ مریض کے ساتھ سماج کے نبض پر بھی ہاتھ ہے۔ جسمانی بیماریوں کے ساتھ قلم کے ذریعے معاشرتی بیماریوں کا علاج کرنے کا جذبہ بھی رکھتی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں