رزقِ حلال یا رزقِ حرام ۔۔۔۔  پسند اپنی اپنی

جس پرائیوٹ کار پارکنگ میں میں اپنی گاڑی کھڑی کرتا ہوں وہ ایک افغانی کی ہے۔ اس پارکنگ کے قریب ہی ایک ہوٹل تھا، جو گذشتہ رمضان سے کچھ روز قبل بند ہوگیا اور اب تک بند ہے۔ اس ہوٹل میں رات کو آٹھ بجے کے بعد، روزانہ کی بنیاد پر ڈسکو اور ڈانس پارٹی ہوتی تھے، جو نماز فجر تک جاری رہتی۔ ہمیں جب نماز کے لیے مسجد  کی طرف، اس کے قریب سے گزر کر جانا پڑتا تو زوردار میوزک اس کے روشندانوں سے سنائی دیتا۔ اس ڈانس پارٹی میں شرکت کے لیے جب لوگ دور دور سے آتے تھے تو اسی افغان کی پارکنگ میں اپنی گاڑیاں کھڑی کرتے تھے جہاں میں اپنی گاڑی پارک کرتا ہوں۔ یوں ہوٹل اور پارکنگ والا، دونوں ہی خوب کما رہے تھے۔

پھر جب گزشتہ رمضان میں ہوٹل بند ہوگیا تو پارکنگ لاٹ سنسان رہنے لگا۔ میں نے افغان سے کہا، چلو اچھا ہوا، جان چھوٹی، پڑوس میں ہونے والی ایک برائی بند ہوئی۔ کہنے لگا، مگر ہمارے لیے تو اچھا نہیں ہوا۔ میں تو یہ ہی دعا کرتا ہوں، کہ کسی طرح یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہو جائے۔ (یہ بات اس نے ماہ رمضان میں کہی)

میں نے کہا، اللہ مسبب الاسباب ہے، رزق دینے کے لیے اسے ان چیزوں کی قطعی ضرورت نہیں، بس وہ آپ کو آزمانا چاہتا ہے کہ آپ کیا پسند کرتے ہیں۔ حلال یا حرام۔

جیسا کہ اوپر بتایا کہ وہ ہوٹل تاحال بند ہے مگر اب افغان کی پارکنگ کا یہ حال ہے اگر میں شام کو سات بجے کے بعد جاؤں تو مجھے اکثر پارکنگ نہیں ملتی اور گاڑی ڈبل لگا کر، چابی پٹھان کے پاس چھوڑنی پڑتی ہے۔ باوجود اس کے کہ اب پارکنگ والے نے ساتھ والا خالی پلاٹ لے کر اپنے پارکنگ لاٹ کو تین گنا وسعت دے دی ہے۔  اب اس کے پاس کوئی ڈیڑھ دو سو گاڑیاں ماہانہ کے حساب سے کھڑی ہوتی ہیں جن کی فی کس ماہانہ پارکنگ فیس پانچ سو درہم ہے۔

جو بات عرض کرنے کی تھی وہ یہ کہ ڈسکو کلب بند ہوگیا مگر افغان کو اللہ نے بھوکا نہیں مارا، بلکہ پہلے سے بھی زیادہ نواز دیا۔ اللہ کا دامن رحمت بہت وسیع ہے بس ہم ہی تنگ دل و تنگ نظر ہیں۔ یہ ہمارے اوپر منحصر ہے کہ ہم اپنے لیے حلال پسند کرتے ہیں یا حرام۔ ہاں کچھ وقت کے لیے وہ آزماتا ضرور ہے۔

چند سال قبل، حیدرآباد میں ایک دوست کی سی ڈیز اور ویڈیو کیسٹس کی دوکان تھی جہاں سے وہ کرائے پر انڈین فلموں کی سیڈیز دیا کرتا تھا۔ پھر ایک بار اللہ نے اسے موقعہ دیا کہ وہ ہمارے گروپ کے ساتھ رمضان کے مہینے میں اعتکاف میں بیٹھ گیا۔ وہاں سے اس کے ذہن کو اللہ نے تبدیل کر دیا اور اس نے یہ پختہ عہد کر لیا کہ آئندہ وہ کبھی یہ کاروبار نہ کرے گا۔

اس نے تھوڑی سی ہمت کی اور کچھ چیزیں لے کر اس کی مارکیٹنگ کی۔ سندھ کے دور دراز شہروں اور قصبوں میں اپنی پراڈکٹ لے کر متعارف کروائی۔ رفتہ رفتہ اس کا ’’کسٹمر بیس‘‘ وسیع ہوتا چلا گیا۔ بالاخر اس نے گندی فلموں کی اشاعت اور کرائے پر دینے والے ’’دھندے‘‘ سے بھی کئی گنا زیادہ روپیہ کمانا شروع کر دیا۔

جو لوگ کسی حرام ذریعہ آمدن میں پھنسے ہوئے ہیں اور اس سے محض اس لیے نہیں نکل سکتے کہ پھر وہ کھائیں گے کہاں سے، ان کے لیے گزارش ہے کہ یہ صرف ایمان کی آزمائش کا معاملہ ہے۔ ایک بار اللہ پر توکل کرکے تو دیکھیں، اس کا دامن رحمت آپ کی سوچ سے بھی زیادہ وسیع ہے اور وہ ان شاء اللہ آپ کو کبھی مایوس نہیں کرے گا۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں