اسرائیل طاقتور کیسے بنا؟

مسلمانوں کو اس خوش فہمی سے باہر نکل آنا چاہیے کہ اگر خداناخواستہ اسرائیل نے یروشلم پر قبضہ کر لیا یا خاکم بدہن، مسجد اقصیٰ کو ڈھا دیا تو پوری دنیا کے مسلمان اٹھ کھڑے ہوں گے اور اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ بابری مسجد گرا دی گئی، کیا ہوا، کیا آج کسی کو یاد بھی ہے؟ عراق، شام اور افغانستان کو تہس نہس کر دیا گیا، روہنگیا کے مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا گیا، کشمیریوں کو پیس کر رکھ دیا گیا۔ کیا مسلمانوں کی کسی حکومت نے کچھ کیا؟

 بس اللہ ہی رحم فرمائے ورنہ اپنا تو چائنا کا تیار شدہ  پلاسٹک والا ایمان ہے جس کا کوئی بھروسہ نہیں کہ کب ٹُھس ہو جائے۔

بھڑکیں ہم اچھی مار لیتے ہیں مگر اصلاح احوال کے لیے کچھ کرنے پر آمادہ نہیں۔ جو کام ہمارے کرنے کے ہیں وہ بھی ہم نے اللہ پر چھوڑ رکھے ہیں۔

بحیثیت قوم اور امت، ہم سلطان راہی اور مولا جٹ بنے پھرتے ہیں مگر وقت آنے پر کوئی کہیں نظر نہیں آتا۔

جو تمکنت، مقام، سطوت اور غلبہ آج یہود کو حاصل ہے وہ انہوں نے چند سیر گندم کے عیوض نہیں پایا۔ انہوں نے بھی بڑی ماریں کھائی ہیں، کئی صدیوں تک دربدر رہے ہیں مگر پھر انہوں نے اپنے اندر عبرت کی نگاہ انسٹال کرلی۔ دنیا کے اندر حکمرانی کے پیراڈم کو سمجھا، سائنسی بنیادوں پر اس میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کی، اقتدار اور طاقت کے مراکز میں گھسنے کے راستے تلاش کیے، سامنے آ کر، اقتدار کے سنگھاسن پر خود نہیں بیٹھ گئے، بلکہ “بادشاہ گر” بن کر کھیلتے رہے۔ کسی کو تخت نشیں کیا تو کسی کا تاج اچھالا۔ دنیا کی معاشی و اقتصادی نظام پر قبضہ کر کے دولت پر کنٹرول  حاصل کیا۔ یہ دنیا کے سیکیورٹی سسٹم کے بھی نقیب بن گئے۔ دولت اسی کو ملی جس کو انہوں نے دینی چاہی اور بڑے ملکوں میں داخلے اور قیام کے ویزے بھی انہی کو ملے جنہیں انہوں نے کلیرئنس دیا۔ آپ کسی ملک میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک یہ آپ کو اجازت نہ دیں۔ دنیا کے کسی ایئرپورٹ سے کوئی جہاز نہیں اڑتا، مگر ان کے علم میں ہوتا ہے کہ اس میں کون سفر کر رہا ہے اور اس کا بیک گراؤنڈ کیا ہے۔

یہ جو “نیو ورلڈ آرڈر” اور “ون ورلڈ” کے الفاظ آپ بار بار سنتے ہیں انہی کے متعارف کروائے ہوئے ہیں۔ دنیا واقعی ایک “گاؤں” بن چکی جس کا چوھدری کوئی اور ہے اور جس کی اجازت کے بنا کوئی مزارعہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکتا۔

باوجود رنگ، نسل، زبان اور فرقوں کے تنوّع کے، آپ نے کبھی سنا کہ کسی ملک میں یہودی آپس میں لڑ پڑے اور ایک دوسرے کا خون بہایا۔ نہ ہی آپ نے کبھی سنا ہوگا کہ کوئی یہودی کسی دشمن ملک یا مذہب کے پیروکاروں کے ہاتھوں بک گیا اور اپنے ضمیر اور ایمان کا سودا کرکے، اپنے ہی لوگوں سے غداری کا مرتکب ہوا۔

اگر دنیا میں گردن اٹھا کر چلنا ہے تو یہودیوں سے سیکھنا ہوگا۔

آپس کے فروعی و مسلکی تعصبات کو خیرباد کہنا ہوگا۔

اپنے مدارس کو جدید دؤر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے، قدیم و جدید علوم کا امتزاج پیدا کرنا ہوگا۔

اپنے لیڈر اور رہنما منتخب کرتے ہوئے سمجھداری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

جدید سائنسی تعلیم اور ہنر کو ترجیح اوّل پر رکھنا ہوگا۔

اپنی صفوں میں نظم و ضبط اور اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔

اپنے لائف اسٹائل، رہن سہن اور تمدن کو حفظانِ صحت کے جدید تقاضوں کے مطابق بنانا ہوگا۔

ملکی انفرااسٹرکچر، ٹریفک کے قوانین، روڈوں اور شاہراہوں کی تعمیر، ماڈرن دنیا کے نقشوں کے مطابق کرنی ہوگی۔

اپنے اداروں سے رشوت، اقربا پروری، ظلم و ناانصافی کا خاتمہ کرنا ہوگا۔

اپنے نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ نوکریوں کے بجائے کاروبار پر لگانا ہوگا تاکہ ان کے اندر، تخلیقی صلاحیت پروان چڑھنے کے ساتھ ساتھ اچھا منتظم بننے کی استعداد بھی پیدا ہو۔ اس کے علاوہ، نوکرانہ و غلامانہ ذہنیت و مزاج کے بجائے ان کے اندر لیڈرشپ کی خصوصیات بھی پیدا ہوں۔

اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حکومت کرنے کے لیے ایسے  باصلاحیت اور اہل لوگوں کو منتخب کرنا ہوگا جو مستعد، جری اور بے داغ کردار کے مالک ہوں۔

اگر یہ سب نہیں کر سکتے تو پھر آئیں، مل کر دھنیا پی کر سو جاتے ہیں۔ محض کھوکھلے نعروں اور بھڑکوں سے نہ کبھی کسی قوم نے پہلے ترقی کی ہے، نہ اب کرے گی۔

حصہ

2 تبصرے

  1. بہترین بات وہ جو اصل کامیابی کے حقدار ہیں بھٹکے ہوئے ہیں ،جوآپ نے لکھا ہے وہ سب سچ ہے

جواب چھوڑ دیں