سردی کا توڑ سبز چائے

سائیبریاں کی سرد ہوائیں گزشتہ ایک ہفتے سے بلوچستان میں چل رہے ہیں ان سخت سرد ہوائوں میں بلوچی سبز چائے نہ ہو تو سمجھوں آپ کے پاس سردی کا توڑ نہیں ہے ہم بلوچستان کے باسی سبز چائے کے اسقدر عادی ہیں کہ اسکو ایک نشہ ہی سمجھیتے ہیں۔ اس نشےمیں تقریبا ہر بلوچستان کا باسی مبتلا ہے۔ اب تو بلوچستان کے باسیوں نے سبز چائے کانام ہی بدل دیا ہے اوراب اس کا نام گرین ٹی کہنا شروع کردیا ہے ۔ سبز چائے کا یہ مال ایران سے منگوایا جاتا ہے جس کو سبز پتی بھی کہتے ہیں۔ اگرچہ اب کمپنیوں نے بھی گرین ٹی بیچنی شروع کردی ہے لیکن جو فوقیت اس دیسی قہوے یا گرین ٹی کو حاصل ہے وہ ٹی بیگ والی ٹی میں کہاں؟

آج کل بلوچستان کے ہوٹلوں پہ مزدوری کرنیوالے بیرے ان پڑھ ضرور ہیں مگر اس سبز چائے کو گرین ٹی کے نام سے پکارتے ہیں۔ بلوچستان میں گرین ٹی انتہائی مہارت سے بنائی جاتی ہیں۔ سب سے مذیدار گرین ٹی کوئلہ پہ تیار کی جاتی ہے ۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ گرین ٹی صحت کے لیے انتہائی فائدے مند ہے یہ جسم کی فاضل چربی کو کم کرنے میں بھی مدد کرتی ہے۔ شاید اسلیئے بلوچستان کی سبز چائے پورے ملک میں مشہور ہوگئی ہے۔ بلوچستان میں سبز چائے میں لیموں الائچی پودینہ اور ادرک بھی ڈالا جاتا ہے جو منہ کا ذائقہ تبدیل کر دیتے ہیں۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ سبز چائے میں ادرک کے استعمال سے ہائی بلڈ پریشر کم ہو جاتا ہے اسلیئے اکثر جگہوں پہ سبز چائے کے اندر ادرک ڈالی جاتی ہے جسے پینے والے بہت پسند کرتے ہیں۔

ایک نئی تحقیق کے مطابق سبز چائے کا استعمال ذیابیطس اور دل کے امراض سے بچاؤ بھی کرتا ہے ۔ماہرین صحت کا کہنا ہے سبز چائے کا استعمال ذیابیطس اور دل کے امراض سمیت کئی بیماریوں، مختلف بیکٹیریا اور وائرس سے بچاؤ فراہم کرتی ہے۔ ہاروڈ یونیورسٹی کے ماہرین کا کہتے ہیں کہ روزانہ سبز چائے پینے سے خون میں شوگر کے اضافے کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے ۔

بلوچستان کے لوگ جب بلوچستان کے علاوہ دوسرے صوبوں میں چلے جاتے ہیں تو سبز چائے کی دوکان ڈھونڈنا شروع کر دیتے ہیں۔اس چائے سے انسان کو پیچھا چھڑانے کے لیے بہت جتن کرنا پڑتے ہیں ہمارے دادا کہتے تھے ہم سب کچھ چھوڑ سکتے ہیں مگر سبز چائے چھوڑنا انتہائی مشکل عمل ہے ۔سبز چائے ہم اس دن چھوڑتے ہیں جس دن ہماری جان جسم سے نکل جاتی ہیں۔جس طرح شرابی شراب کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا ہے اس طرح ہم بلوچ سبز چائے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے ہیں۔

بلوچستان میں کم از کم ہر بندہ دن میں تین کپ سبز چائے ضرور پیتا ہے ایک کروڑ جوبیس لاکھ لوگ بلوچستان میں بستے ہیں۔ اس حساب سے بلوچستان کی سر زمین پہ ہر روز کروڑوں روپے کی سبز چائے پی جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پورے ملک میں سبز چائے پینے والوں کی سب سے زیادہ تعداد بلوچستان میں پائی جاتی ہے۔ آج کل سبز چائے کا بخار پورے ملک میں چل پڑا ہے سبز چائے سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے آپ سب سے پہلے یہ بات معلوم کریں کہ آپ روزانہ کتنے کپ سبز چائے پی جاتے ہیں۔

.

حصہ
mm
ببرک کارمل جمالی کاتعلق بلوچستان کے گرین بیلٹ جعفرآباد سے ہے ۔ان کے ماں باپ کسان ہیں مگر اس کے باوجود انہوں نے انہیں ایم اے تک تعلیم جیسے زیور سے آراستہ کیا۔ ببرک نے ابتدائی تعلیم اپنے گائوں سے حاصل کیا اور اعلی تعلیم کیلئے پھر کوئٹہ کا رخ کیا ان کی پہلی تحریر بچوں کے رسالے ماہنامہ ذہین میں شائع ہوئی اس کے بعد تحاریر کا نہ رکنے والا سلسہ جاری وساری رہا اب تک دو ہزار کے لگ بھگ تحاریر مختلف رسالوں اور اخبارات میں چھپ چکی ہیں۔یہ پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں جبکہ ان کی تحاریر ان اخبارات اور رسالوں میں چھپ چکی ہیں اور چھپ رہی ہیں جن میں (روزنامہ پاکستان) بلاگ رائیٹر (روزنامہ ایکسپریس) بلاگ (حال احوال) کوئٹہ بلاگ رائیٹر جبکہ ان کی فیچر رپورٹس ( ڈیلی آزادی)کوئٹہ (ڈیلی مشرق )کوئٹہ ماہنامہ جہاں نما کوئٹہ میں آج تک چھپ رہی ہیں۔ان کی کہانیاں (ماہنامہ پھول) لاہور (ماہنامہ ذہین) لاہور (ماہنامہ اردو ڈائیجسٹ)لاہور ( ماہنامہ پیغام) لاہور (ماہنامہ روشنی)پنڈی (ماہنامہ افکار جدید) لاہور میں چھپ چکی ہیں ۔ان کاا یک مستقل سلسلہ بلوچستان کے حوالے ماہنامہ اطراف انٹرنیشنل کراچی میں بھی چل رہا ہے اس کے ساتھ یہ بچوں کے لیے بھی بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ ماہانہ (پارس) کے مدیر بھی ہیں۔ کئی ادبی ایوارڑ بھی مل چکے ہیں اور ٹی وی، پہ کچھ پروگرام بھی کر چکے ہیں۔ جبکہ اکسفورڈ پریس کی کتاب میں بھی ان کی تحریر شائع ہو چکی ہے۔ببرک پاکستان رائیٹر سوسائیٹی بلوچستان کے نائب صدر بھی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں