سوال یہ ہے کہ ’حل ‘کیا ہے ؟

سوال یہ ہے کہ ’حل ‘کیا ہے ؟

جواب یہ ہے کہ موجودہ ’’مسائل ِظلم ‘‘ کا  ’ دائمی حل ‘،’ امکانی حصول قوت ،دفاع ،اور قصاص ‘ ہے ۔ اور یہ جواب  قرآن کا ہے ،ہمارے ذہن کی اختراع نہیں ! اگر ہمیں  اُس کا علم نہیں  تو قصور خود ہمارا  اور ہمارے نام نہاد اہل علم کا ہے  کہ  اس کتاب کو پڑھنے اور پڑھانے  کے ساتھ ساتھ  اُسے سمجھنے اور سمجھانے  کی کوشش نہیں کی جاتی  جس میں نہ صرف ہمارے بلکہ پوری دنیائے انسانیت کے  ہر مرض کی شفا اور  قیامت تک کے تمام مسائل کا حل  موجود ہے ۔

’’یہ اللہ کی آیتیں ہیں جو ہم تم کو ٹھیک ٹھیک پڑھ کر سناتے ہیں اور اللہ سارے جہان کے لوگوں میں سے کسی پر بھی ظلم کا ارادہ  نہیں رکھتا (آل عمران ۔۱۰۸)‘‘تم سے پہلے بھی بہت کچھ(ایسا ہی ) ہو چکا ہے ،ذرا روئے زمین پر چل پھر کر دیکھو  تو کہ جھوٹوں ( بہت جھوٹ بولنے والوں ،کاذبین ) کا کیا انجام ہوا ہے !یہ جو ہم نے بتایا یہ عام لوگوں کے لیے تو محض ایک بیان ِ (واقعہ ) ہے لیکن متقین (اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ) ہدایت اور نصیحت ہے۔تو مسلمانو ! کاہلی نہ کرو اور نہ شکست پر غم کرو (کیونکہ اگر تم سچے مؤمن ہو تو (با لآخر)تم ہی غالب رہوگے ۔اگر (آج ) تم کو زخم لگا ہے تو فریق مخالف کو بھی لگ چکا ہے یہ تو ہم ۔۔لوگوں کے درمیان (اچھے برے دنوں ) کی اُلَٹ پھیر کرتے ہی رہتے ہیں تاکہ اللہ سچے ایمان والوں کو الگ کر سکے اور اللہ ظالموں کو ہر گز دوست نہیں رکھتا (آل عمران ۔۱۳۷۔۱۴۰)‘‘

’’اور یہ کتاب (قرآن )جس کو ہم نے اب نازل کیا ہے بڑی برکت والی کتاب ہے تو تم اس کی پیروی کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔اور اے مشرکو ! یہ کتاب ہم نے اس لیے نازل کی ہے کہ تم کہیں یہ نہ کہہ بیٹھو کہ ہم سے پہلے تو اللہ کی کتاب بس دو ہی گروہوں (یہود و نصاریٰ پر ) نازل ہوئی تھی اور ہم تو اِس سے بے خبر تھے یا کہنے لگو کہ اگر ہم پر اللہ کی کوئی کتاب نازل ہوتی تو ہم ہی سب سے زیادہ راہ راست پر(چلنے والے ) ہوتے تو دیکھو اب تو یقینا! تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک روشن دلیل ،اللہ کی کتاب ِ ہدایت و رحمت آ چکی ہے تو اب جو بھی اللہ کی آیتوں کو جھٹلائے اور اُس سے منھ پھیرلے تو اُس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا ؟ تو جو ہماری آیتوں سے منھ پھیرتے ہیں اُن کے لیے درد ناک عذاب ہے (سورہ انعام ۱۵۵۔۱۵۷)‘‘

’’اور جو مصیبت تم پر پڑتی ہے وہ تمہارے ہی ہاتھوں کی کمائی (کا نتیجہ ہوتی )ہے اور اِس پر بھی وہ بہت کچھ معاف کر دیتا ہے(شوریٰ ۔۳۰)’’جب تمہیں کوئی فائدہ پہنچے تو سمجھو کہ اللہ کی طرف سے ہے اور جب تمہیں کوئی تکلیف پہنچے تو سمجھو کہ خود تمہاری بدولت ہے (النسا ۔۷۹)‘‘

’’اور جہاں تک تمہارا بس چلے(جتنی تمہاری استطاعت ہو )قوت حاصل کرو (و َ اَ عِدُّو لھم ما استطعتم من قوت و من ربا ط ا لخیل  تر ھبون بہ ) اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے رکھو تاکہ اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں پر اور اُن دشمنوں پر جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے (کہ وہ تمہارے دشمن ہیں ) اپنی ہیبت قائم کر سکو  اور جو کچھ بھی تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے تمہیں اس کا پورا پورا بدل لَو ٹا دیا جائے گا اور تم پر ہرگز ظلم نہیں ہوگا ‘‘(ا لا نفال ۔۶۰)

’’اور اے عقل والو (یا اولی ا لا لباب) ’قصاص‘ میں زندگی ہے تاکہ تم اللہ سے ڈرنے والے بن سکو  (لَعَلَّکُم تَتَّقون)(بقرہ ۱۷۹)’’اور ہم نے یہ فرض کر دیا ہے (و کتبنا علیہم )کہ جان کے بدلے جان ،آنکھ کے بدلے آنکھ ،ناک کے بدلے ناک ،کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور ہر زخم کے بدلے ویسا ہی زخم ہے ( والجروح قصاص)۔پھر جو مظلوم ظالم کی خطا معاف کردے تو یہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا اور جو اللہ کی نازل کردہ کتاب کے مطابق حکم نہ دیں تو وہی ظالموں میں سے ہیں (فا ُو لٰئِک َ ھم ا لظالمون ) ‘‘(المائدہ ۔۴۵)

’’اور جو لوگ ہماری آیتوں(نشانیوں ) میں جھگڑا کرتے ہیں وہ اچھی طرح سمجھ لیں کہ ان کو کسی طرح عذاب سے چھٹکارا نہیں اور لوگو تم کو جو کچھ مال و متاع دیا گیا ہے وہ دنیا کی زندگی کا محض چند روزہ ساز و سامان ہے اور جو کچھ اللہ کے یہاں ہے وہ (ان سب سے )کہیں زیادہ بہتر اور پائدار ہے ۔مگر وہ خاص اُن ہی لوگوں کے لیے ہے جو ایمان لائے اور پھر اپنے پروردگار  ہی پر توکل (بھروسہ ) کیا ۔جو لوگ بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے بچتے رہتے ہیں اور جب کسی پر غصہ آجاتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں اور جو اپنے پروردگار  کا حکم مانتے ہیں ،صلوٰۃ قائم کرتے ہیں اور اپنے سبھی کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں اور جو کچھ’رِزق‘ ہم نے اُنہیں دیا ہے اُس میں سے ’اِنفاق‘ کرتے رہتے ہیں اور ’’وہ ایسے ہیں کہ جب ان پر کسی قسم کی زیادتی ہوتی ہے تو وہ اس کا بدلہ لیتے ہیں اور برائی (سیِّئہ ۔زیادتی) کا بدلہ  تو ویسی ہی برائی (سیِّئہ ۔زیادتی) ہے،تاہم جو معاف کردے اور معاملے کی اصلاح کر لے تو اُس کا اَجر اللہ کے ذمے ہے اور بے شک اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا ۔اور جس پر ظلم ہوا ہو اگر وہ اس کا انتقام لے تو اس پر کوئی الزام نہیں ۔الزام تو بس انہیں لوگوں پر ہوگا جو ظلم کرتے ہیں اور روئے زمین پر ناحق زیادتیاں کرتے پھرتے ہیں ۔انہیں لوگوں (ظالموں ) کے لیے درد ناک عذاب ہے ‘‘(شوریٰ ۳۵ ۔۴۲)’’جن پر بہت زیادہ ظلم ہوا تھا اُنہیں  قتال کی اجازت دے دی گئی ہے اور اللہ اُن کی مدد کرنے کی ہر طرح سے قدرت رکھتا ہے   (اُ ذِنَ للذین یُقٰتَلونَ با َنَّھُم ظُلِموَاِنَّ ا للہ علیٰ نَصرِ ھِم  لَقَدیر ۔الحج ۔۳۹)‘‘اور ایک سے زائد صحیح احادیث رسول ﷺکا مفہوم یہ ہے کہ’’ جان مال عزت آبرو کی حفاظت فرض ہے اور جو بھی اللہ سبحانہ تعالی ٰ کی دی ہوئی جان اور اُسی قادر مطلق کے عطا کردہ رزق اور نعمتوں کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہے ‘‘! اور شہادت و ہلاکت کے فرق سے کون واقف نہیں ؟

اب جو  اللہ کے دیے ہوئےہاتھ ،پاؤں عقل و دماغ ،استطاعت و صلاحیت اور اس کے مطابق حاصل کی ہوئی قوت کا استعمال اللہ ہی  کی عطا کردہ  نعمتوں کی حفا ظت کے لیے نہ کرے اس کا انجام معلوم ! اپنے شرعی و آئینی حق دفاع (سلف ڈیفنس ) کا استعمال کیے بغیر بزدل ظالموں کے ہاتھوں ہونے والا نقصان ہر گز مطلوب نہیں ۔ اس لیے کہ ’’یہ سب مل کر بھی تم سے نہیں لڑ سکتے الا یہ کہ(وہ) ہر طرف سے محفوظ اپنی بستیوں میں (ہوں)۔اُن کی آپس میں تو (بظاہر ) بڑی دھاک ہے کہ تم خیال کروگے کہ سب کے سب ایک جان ہیں لیکن (حقیقت یہ ہے کہ ) اُن کے دل ایک دوسرے سے پھٹے ہوئے ہیں کیونکہ  یہ بے عقل قوم ہیں۔ اِن کا حال تو اُن لوگوں جیسا ہے جو اِس سے پہلے اَپنے کرتوتوں کا مزہ چکھ چکے ہیں۔ اِن کے لیے تو درد ناک عذاب ہے‘‘ (سورہ حشر ۔۱۴۔۱۵) ’’اور جب اُن پر ظلم ہوا تو انہوں نے (مظلوموں نے ظالموں سے ) اُس کا بدلہ لیا ۔اور ظالموں کو تو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس برے انجام سے دو چار ہونے والے ہیں ‘‘(سورہ شعرا ۔۲۲۷)

حصہ
mm
لکھنو کے رہنے والے عالم نقوی ہندوستان کے ایک کہنہ مشق صحافی،اور قلم کار ہیں وہ ہندوستان کے مختلف اخبارات و جرائد ور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں