معاشرے کی تعمیر میں جن عناصر کو سب سے زیادہ اہمیت کا حامل گردانا گیا ہے ان میں مادری زبان کی حیثیت بنیاد کے پتھر کی ہے۔کسی بھی شہری کی تعلیمی اور علمی ترقی اس کی مادری زبان پر منحصر ہوتی ہے۔درس اور تدریس کی زبان اگر فطری اور قابل فہم ہوتب طلبہ نہ صرف نفس مضمون کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں بلکہ اپنے خیالات اور تصورات کو بھی موثر انداز میں پیش کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔تعلیمی نظریات خواہ کتنے ہی اچھے اور تدریسی اصول کتنے ہی بلند کیوں نہ ہوں اگر طلبہ ان کا ادراک نہ کر پائیں تب سب دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے اور ایسے نظریات اور اصول بے فیض ثابت ہوتے ہیں۔قانون فطرت کے مطالعے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کی مادری زبان ان کی فطری زبان ہوتی ہے جسے وہ اپنے اظہار کا وسیلہ بناتے ہیں۔ سکھ دکھ ،خوشی اور غم کے اظہارمیں مادری زبان کااستعمال ہوتاہے۔ مادری زبان انسانی جذبات کے اظہار کا سب سے موثر وسیلہ ہوتی ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے بھی مادری زبان کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔مطالعہ قرآن سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اقوام کی فکری اور شخصی تعمیر اور تبدیلی کے لئے اللہ تعالیٰ نے جتنے انبیاء مبعوث فرمائے ان کا اپنی اسی قوم سے تعلق رہا ہے۔انبیاء اکرام نے اپنا دعوتی اور انقلابی مشن اپنی قوم کی زبان میں ہی پیش کیا ۔اسلام دین فطرت ہے اور تعلیم کے لئے اسلام نے فطری طریقوں کو پسند فرمایا ہے۔’’کہ ہم جب بھی کوئی رسول بھیجتے ہیں تو اسی قوم ہی کی زبان میں بھیجتے ہیں تاکہ وہ وضاحت کیساتھ خدا کا پیغام ان تک پہنچائے(سورۃ الابراہیم)۔قابل غور بات یہ ہے کہ اگریہ مشن غیر مانوس اور اجنبی زبان میں پیش کیا جاتا تب ایک بڑی تعداد اس پیغام کو سمجھنے سے قاصر رہتی ۔قانون فطرت کے اس اہم کلیہ سے ہمیں علم ہوتا ہے کہ وہ تعلیم جو مادری زبان میں فراہم کی جائے تاثیر اور افادیت سے خالی نہیں ہوتی ۔ دین کی تبلیغ اور پیغام حق کی ترسیل و دعوت کے لئے انبیاء نے لوگوں کے مزاج، کلچر،تمدن اور فہم کو اپنے پیش نظر رکھا۔دین فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ابتدائی تعلیم جو مادری زبان میں مہیا کی جائے گی اہمیت ،افادیت اور تاثیر سے خالی نہیں ہوگی۔قرآن کو عربی زبان میں نازل کرنے کے مطابق اللہ رب العزت فرماتے ہیں ’’اگر ہم قرآن کو عجمی زبان میں نازل کرتے تو لوگ کہتے کہ اس کی آیات (باتیں) واضح کیوں نہیں ؟ ایک عرب ہوتے ہوئے عجمی زبان بول رہا ہے۔‘‘بچوں کی تعلیم و تربیت اور درس و تدریس میں ہم نے اس نظریے کو یکسر فراموش کر دیا ہے جس کا خمیازہ آج ہماری نسلیں بھگت رہی ہیں ۔افکارکا سطحی پن ، غیر متوازن شخصیت ،فکر و اظہار سے عاری افراد،کوتاہ نگاہی اور کوتاہ ذہنی یہ تمام خرافات کی وجہ صرف غیر مادری زبان میں ابتدائی تعلیم کی فراہمی اور تحصیل علم ہے۔ مادری زبان سے لاعلمی اور بے پروائی بھی معاشرے کی پسماندگی کے کئی اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے۔علاقائی زبانوں کی اہمیت سے ہر گز انکار نہیں کیا جاسکتا۔لیکن علاقائی زبان کی ترقی اور ترویج کے لئے اختیار کئے جانے والے موقوف سے مادری زبان سے محبت کرنے والوں کا بے چین اور مضطرب ہونا بھی ایک فطری عمل ہے۔ہمہ لسانی یا کثیر لسانی تعلیم کا چرچا (غوغا) آج کل بہت ہورہا ہے۔ آج کے ماہرین تعلیم کی ایک بڑی تعدا د کثیر لسانی تعلیم کی موئید نظر آتی ہے۔لیکن تعلیمی تجربات،تحقیق اور حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ بچے اپنی مادری زبان میں بہ نسبت دیگر زبانوں کے جلد سیکھتے ہیں۔ ان حقائق کی روشنی میں اسکولی سطح پر مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت میں اضافہ ہونا چاہئے تھا لیکن بدقسمتی سے اقلیتی زبانوں(اردو) کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں مادری زبان میں تعلیم فراہم نہیں کی گئی وہاں ناخواندگی کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔آزادی کے بعد سے آج تک اردو کواپنا شاندار ماضی رکھنے کے باوجود وہ مقام حاصل نہیں ہوپایا جس کی وہ مستحق تھی خاص طور پر شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد جہاں ایک دیسی زبان( اردو) میں ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم کا کامیاب تجربہ کیا گیا ۔ریاست حیدرآباد ،جامعہ عثمانیہ نے انجینئرنگ اور میڈیسن کی اعلیٰ تعلیم کو اردو میں فراہم کرتے ہوئے ساری دنیا کے آگے علاقائی زبانوں کی اہمیت و افادیت کوکامیابی کے ساتھ ثابت کیا گیا ۔آج اپنے گھر میں ہی اردوکی حیثیت ایک کرایے دار کی سی ہوگئی ہے بلکہ اسے بے گھر ہی کردیا گیا ہے۔کسی بھی زبان سے عوام کی تہذیب ،ثقافت اور مذہبی عقائد جڑے ہوتے ہیں۔ قومی اور علاقائی زبانوں کے تسلط سے اقلیتی زبانوں سے وابستہ تہذیب ،ثقافت اور کلچرکو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔زبان کا تحفظ درحقیقت تہذیب،ثقافت اورکلچر کا تحفظ کہلاتا ہے۔1871ء میں فرانس کی سرحدوں پر جب جرمن افواج قابض ہوئی تو فرانس کے ایک استاد(مسٹر ہیبل) نے طلبہ اور معززین شہر کو جمع کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا کہ’’‘فرانسیسی زبان دنیا کی مضبوط ، واضح اور حسین ترین زبان ہے۔ یہ ہمارے قومی ورثے کی واحد محافظ ہے۔ جب ایک قوم غلام بن جاتی ہے تو جب تک وہ اپنی زبان کو محفوظ رکھے، اس کے پاس وہ چابی رہتی ہے جس سے وہ اپنے قید خانے کا دروازہ کھول سکتی ہے‘‘۔ (فرانسیسی مصنف الفوز ڈیویڈ)۔اہل اردو کو بھی آج یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اپنی زبان کی حفاظت کے ذریعے وہ مخالف طاقتوں اور منصوبوں کو زیر کر سکتے ہیں۔
مادری زبان میں تعلیم کیوں ضروری ہے:۔دنیا میں صرف دو ایسی زبانیں ہیں جنہیں انسان بغیر کسی علم و اکتساب کے سیکھتا اور سمجھتا ہے ،ایک مادری زبان اور دوسری اشاروں کی زبان جسے بین الاقوامی زبان (یونیورسل لینگویج ) بھی کہا جاتا ہے۔رحم مادر میں ہی آوازوں کی پہچان،الفاظ و جملوں کی ترتیب کا شعور ذہن انسانی کو خداوند کریم کا عطاکردہ ایک عظیم تحفہ ہے۔رحم مادر میں ہی بچے میں فہم کی صلاحیت پیدا ہونے لگتی ہے۔اسی پس منظر میں بچہ اپنی پیدا ئش کے بعدگردو پیش میں بولی جانے والی زبان سے فہم و ادراک کی صلاحیت حاصل کرتاہے۔ لسانیات،نفسیات اور تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی فہم و فراست میں وسعت ،گہرائی اور گیرائی صرف مادری زبان ہی سے پیدا ہوتی ہے۔گویا یہ کہاجاسکتا ہے کہ بچہ ماں کی کوکھ سے جو زبان لے کر دنیا میں آتا ہے وہ اس کی مادری زبان ہوتی ہے۔مادری زبان کو صرف ایک زبان کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہئے ۔مادری زبان کسی قوم کی تہذیب ،ثقافت،جذبات ا ور احساسات کی ترجمان ہوتی ہے۔خیالات ،افکارو معلومات کے اظہار وترسیل ا ورابلاغ میں مادری زبان ایک قدرتی اور سہل وسیلے کا کام انجام دیتی ہے۔سوچنے ،سمجھنے کا عمل لاشعوری طور پر مادری زبان میں ہی انجام پاتا ہے۔حتیٰ کہ انسان خواب بھی مادری زبان میں ہی دیکھتا ہے۔ اختراعی اور تخلیقی صلاحیتوں کے اظہارمیں مادری زبان کے رول کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔مادری زبان سیکھنے اور سکھانے میںآسان ہوتی ہے۔سیکھنے ،سکھانے کے علاوہ تخلیق و ایجاد کا بھی مادری زبان سے راست تعلق ہوتا ہے۔مختلف علوم (سائنسی،تکنیکی،فنی اور دیگر علوم لطیف(فائن آرٹس))کے تصوراتی فہم اورمعلومات کی ترسیل میں مادری زبان سب سے بہتر اور موثر وسیلہ ہوتی ہے۔مادری زبان اپنے پہلومیں تمام عصری علوم کے نفس مضمون اور تصورات کو بغیر کسی اصطلاح کے سمجھنے ،سمجھانے اور ترسیل و ابلاغ کی گنجائش رکھتی ہے۔انسانی شخصیت کی تعمیر بھی مادری زبان کے زیر اثر ہی انجام پاتی ہے۔اسی وجہ سے ماہرین تعلیم نے مادری زبان کو حصول علم کا سب سے بہتر اور موثر ذریعہ قرار دیا ہے۔آج بھی دنیا کے تقریباسبھی ترقی یافتہ ممالک میں مادر ی زبان میں تعلیم کا رجحان عام ہے۔مادری زبان کی اہمیت و افادیت کو سابق سوویت یونین کی ریاست داغستان کا شاعر رسول حمزہ توف یوں بیان کرتا ہے؛ ’’میرے نزدیک زبانیں، آسمان پر بکھرے ہوئے ستاروں کیطرح ہیں اور میں یہ نہیں کہوں گا کہ تمام ستارے ایک دوسرے میں ضم ہو کر ایک بڑے ستارے کا روپ دھار لیں کیوں سورج تو پہلے سے ہی موجود ہے ۔لیکن سورج کی موجودگی کے باوجودیہ ضروری ہے کہ ستارے آسمان پر چمکتے رہیں اور ہر آدمی کے پاس اپنا ستارہ ہو۔‘‘اسی وجہ سے پچاس سال قبل یونیسکو (UNESCO) نے عالمی سطح پر ابتدائی تعلیم کو بچوں کی مادری زبان میں فراہم کرنے کا فیصلہ کیا۔اور مادری زبان کی اہمیت و معنویت کو تسلیم کرتے ہوئے ہرسال 21فروری کو عالمی یوم مادری زبان منایا جاتا ہے۔ یونیسکو (UNESCO)نے مادری زبان کو بچوں کی ابتدائی تعلیم کے لئے سب سے موثر و مفید قرار دیا ہے۔مادری زبان نہ صرف بچوں میں تحقیقی ،تخلیقی صلاحیتوں کے فروغ کاباعث بنتی ہے بلکہ بچوں کے پاس پہلے سے ہی اپنی زبان کا ایک ذخیرہ موجود ہوتا ہے جس سے بچے نئے الفاظ سیکھنے کے غیر دلچسپ عمل سے بچ جاتے ہیں۔مادری زبان میں سیکھنے سے انہیں گوناں گو خوشی اور مسرت حاصل ہوتی ہے۔ان کے ذہن اکتسابی بوجھ سے محفوظ رہتے ہیں۔دنیا میں جہاں کہیں مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا وہاں ترک تعلیم کے رجحان میں کرشماتی گراوٹ درج کی گئی ہے۔مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ میں اپنی مادری زبان کی قدرو قیمت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔بچے جب مادری زبان میں تعلیم حاصل نہیں کر پاتے ہیں تو یہ سوچنے لگتے ہیں کہ علمی اعتبارسے ان کی مادری زبان اہمیت و افادیت سے عاری ہے اور ان میں اپنی زبان سے محبت اور احترام کا جذبہ کم ہونے لگتاہے۔مادر ی زبان میں تعلیم کے متعلق یونیسکو کا کہنا ہے کہ ’’برسوں کی تحقیق نے یہ ثابت کیا کہ جو بچے اپنی مادری زبان سے تعلیم کی ابتدا کر تے ہیں شروع سے ہی ا ن کی کار کردگی بہتر ہوتی ہے۔ا ن کی یہ اچھی کار کردگی مسلسل قائم رہتی ہے بہ نسبت ان بچوں کے جو اپنی تعلیم ایک نئی زبان سے شروع کرتے ہیں۔اس نتیجہ پر ہر کہیں عمل ہورہا ہے اگر چہ ہم اب بھی ایسی حکومتوں کے بارے میں سنتے ہیں جو چھوٹے بچوں پر اجنبی زبان تھوپنے پر اصرار کرتے ہیں،وہ ایسا یا تو غلطی سے جدیدیت کی خاطر کر رہے ہوتے ہیں یا سماجی طورپر حاوی گروہ کی زبان کو فو قیت دینے کی خاطر ایسا کر رہے ہوتے ہیں’’۔یو نیسکو نے یہ بھی اشارہ دیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی شرح خواندگی میں کمی کی ایک بڑی وجہ مادری زبان میں تعلیم کا نہ ہونا ہے۔ ابتدائی تعلیم سے متعلق یونیسکو کی جاری کردہ پالیسی میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ چھوٹے بچوں کو ابتدائی 6سال تک مادری زبان میں ہی تعلیم دی جانی چاہئے، تاکہ جو کچھ بچوں نے سیکھا ہے وہ بھول نہ پائیں۔
دستور ہندکی روسے مادری زبان میں پرائمری سطح پر تعلیم کی سہولت ؛۔دستور ہند کی دفعہA 350کے تحت پرائمری سطح پر مادری زبان میں تعلیم فراہم کرنے کی واضح گنجائش رکھی گئی ہے تاکہ لسانی اقلیتوں کی زبانوں کا تحفظ کیا جاسکے۔تفہیم و وضاحت کے لئے دستور ہند کی دفعہ350Aکو یہاں نقل کرنا ضروری محسوس کرتا ہوں’’ہر ریاستی حکومت اور لوکل اتھاریٹی پر لازم ہے کہ وہ اپنے علاقے کی لسانی اقلیتوں کے بچوں کے لئے پرائمری سطح پر ان کی مادری زبان میں تعلیم کا انتظام کرے اور جب صدر جمہوریہ محسوس کرے کہ ان سہولتوں کی فراہمی ضروری ہے تو وہ کسی بھی ریاست کو ان کی پابجائی کے احکامات دے سکتا ہے۔‘‘دستور کی اس مراعات سے فیض اٹھاتے ہوئے لسانی اقلیتیں اپنی زبانوں کاتحفظ یقینی بنا سکتے ہیں۔لسانی اقلیت کے ضمن میں ایک ا ہم بات آپ کے گوش گزار کرنا چاہوں گا کہ زبان کے چھوٹے اور بڑے ہونے کا تعین اس کے بولنے والوں کی اکثریت سے ہوتا ہے اور نہ اس کی قدامت سے۔زبان کی مقبولیت اور اس کے نافع ہونے کے دو ہی پیمانے ماہرین لسانیا ت کے پاس پائے جاتے ہیں کہ اس کا ادبی سرمایہ کتنا عظیم اور شاندار ہے دوسرا اس کے بولنے والے اپنی مادری زبان سے کس درجہ محبت کرتے ہیں او ر اس کے استعمال میں کتنے مستعد ہیں۔اردو زبان ماہرین لسانیات کی ان دو کسوٹیوں پر بالکل کھری اترتی ہے۔ اس کا دامن عظیم سرمایہ ادب سے مالامال ہے اور اس میں نہ صرف ادبی شاہکار پائے جاتے ہیں بلکہ اس کا دامن سائنسی اور دیگر فنی علوم سے بھی مالامال نظرآتا ہے۔اس کے بولنے والے اس سے والہانہ جنون کی حد تک محبت بھی کرتے ہیں۔
انگریزی ذریعہ تعلیم کی قباحتیں:۔جن ماہرین تعلیم کی سفارشات پر انگریزی کو جماعت اول سے لازمی قرار دیا گیا ہے اور پرائمری سطح پر ہماری ریاست میں انگریزی میں تمام مضامین پڑھانے والے انگریزی میڈیم اسکولوں کو قائم کرنے کی منظوریاں مرحمت کی گئی ہے اس بارے میں محکمہ تعلیمات اور حکومت کو از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ذہنوں میں یہ بات پیوست کر دی گئی ہے کہ قوم و ملک کی ترقی کا واحد راستہ انگریزی ذریعہ تعلیم ہی ہے جب کہ یہ ایک خام خیالی ہے جس کا حقیقت سے دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے۔پرائمری سطح پر پڑھنے والے طلبہ عموماً4 (چار)تا10(دس) سال کی عمر کے ہوتے ہیں۔اول جماعت ہی سے کسی ایک غیر مانوس جماعت کو مادری زبان کے ساتھ شامل نصاب کرنا ماہرین تعلیم و لسانیات کے نظریات کے یکسر منافی ہے۔اس فیصلے سے اکثر اساتذہ بھی الجھن کا شکار ہوگئے ہیں۔زبان کی تدریس کے لئے زبان پر عبور رکھنے والے اساتذہ کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ پرائمری سطح پر انگریزی زبان کے ماہرین کے بغیر ہی یہ کام انجام دیا جارہاہے۔ایک معصوم بچہ جس کا ذہن ابھی ارتقااور نشوونماء کے ابتدائی مراحل سے گزررہا ہے اور جو ابھی اپنی مادری زبان ( نوشت وخواندہ) سیکھنے میں مصروف ہے اس کے چھوٹے سے ذہن پر انگریزی کا بوجھ پوری قوت کے ساتھ ڈال دینا کیا ایک غیر فطری اور غیر اصولی فیصلہ نہیں ہے۔عالمی سطح پر بھی دوسری زبان کی تدریس تحتانوی سطح پررائج ہے لیکن ہمارے تعلیمی نظام میں بددیسی زبان کو سیکھنے کے لئے جماعت اول ہی سے زور دیا جاتا ہے جب کہ بچہ ابھی مادری زبان ہی نہیں سیکھا پاتا ہے۔مادری زبان کو سکھائے بغیر جب کوئی دوسری غیر مانوس زبان بھی شامل نصاب کر دی جاتی ہے تب زبانوں کی تدریس میں پائے جانے والے اختلاف کی وجہ سے بچے کی فطری صلاحیتیں دب جاتی ہیں اور وہ تعلیم سے فرار کے راستے ڈھونڈنے لگتا ہے۔بچے پر تعلیم کے ساتھ کتابوں کا اضافی بوجھ بھی عائد ہوجاتا ہے۔ہماری موجود ہ تعلیمی صورتحال کو دیکھا جائے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم بچوں کو تعلیم نہیں دے رہے ہیں بلکہ زبانیں سکھا رہے ہیں۔طوطے کی طرح زبان کو رٹایا جارہاہے۔اس وقت زبانوں کی تدریس کی عملی صورتحال یہ ہے کہ ہم قومی زبان ہندی بھی پڑھا رہے ہیں،مادری زبان اردو بھی پڑھا رہے ہیں،انگریزی بھی پڑھا رہے ہیں اور امسال سے حکومت کے جاری کردہ احکامات کی روشنی میں اول تا انٹرمیڈیٹ لازمی طور پر علاقائی زبان (تلگو ) بھی پڑھائیں گے۔یہ ترتیب حکومت کے سہ لسانی فارمولہ کی سفارشات کے بھی مغائر ہیں۔ UNESCO رپورٹ کی روشنی میں کم سے کم ایک نکتہ واضح ہوجاتا ہے کہ ایک کلچر کی زبان کے ساتھ دوسرے کلچر کی زبان کی تدریس آسان کام نہیں ہے۔تعلیمی پالیسی وضع کرتے وقت بالخصوص زبان کی تدریس کو لازمی قرار دینے سے پہلے غور کرنا ضروری ہے کہ ہر زبان دوسری زبان سے مختلف ہے اور پڑھانے والے اساتذہ بھی زبان کے علم اور تدریس سے ناواقف ہوتے ہیں۔آخر اس طرز تعلیم سے ہم بچوں کو کیا سکھانا چاہتے ہیں۔جو کچھ سکھایا جارہا ہے کیا وہ الفاظ کے ہجوں اور رٹوں تک محدود نہیں ہے ؟کیا بچے سبق کا مفہوم اپنے الفاظ میں بیان کرنے کے لائق ہیں؟ کھل کر مافی الضمیربیان کرنے سے طلبہ میں اعتماد پیدا ہوتا ہے۔بچے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جب بات کرتے ہیں تو ان میں اعتماد کی فضاء پیدا ہوتی ہے مگر اس وقت زائد زبانوں کی تدریس کی وجہ سے ہمارے نونہال اعتماد سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ وہ نہ تو اپنی بات مادری زبان میں سمجھانے کے لائق ہیں اور نہ ہی انگریزی پر ا نہیں عبور حاصل ہے۔آج اقوام عالم اپنے بچوں کو علم پڑھا رہی ہے اور ہم زبان پڑھا رہے ہیں۔ جب کہ ہم جانتے ہیں کہ علم ایک حقیقت ہے اور زبان محض علم تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے۔بچوں کو مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے سے محروم کرنا گویا تعلیمی نسل کشی کے مترادف ہے۔مادری زبان سے عدم واقفیت نونہالوں کی صلاحیتوں کے زیاں کا سبب بن جاتی ہے۔بین الاقوامی زبان (انگریزی)کی تدریس بھی ضروری ہے لیکن اس کو مادری زبان کی قیمت پر سیکھنا خودکشی سے کم نہیں ہے۔انگریزی زبان جدید علوم کی زبان ہے اس کی تدریس نہایت اہم ہے ۔انگریزی کو چوتھی جماعت سے ایک زبان کے طور پر متعارف کرنا نفسیاتی اور لسانیات اصولوں کے عین مطابق نظر آتا ہے ۔اول تا سوم ،طلبہ میں اپنی مادری زبان میں نوشت و خواند کی استعداد پیدا ہوجاتی ہے اور ایک غیرمانوس زبان سیکھنے میں ان کو کم دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ عمر کے اس درجے میں تمیز اور شعور کی سطح بھی اونچی ہوجاتی ہے۔انگریزی زبان کی تدریس ابتدائی جماعتوں (جماعت چہارم) سے قابل قبول ہے لیکن انگریزی کو ذریعہ تعلیم ابتدائی جماعتوں میں بنا دینا بچوں کی نظر و فکر کو محدود کردینے کے مترادف ہے۔اگر مسئلہ تعلیم میں انگریزی زبان کی اہمیت کا ہے تو ہر طالب علم اپنی زبان پر دسترس حاصل کرنے کے بعد صرف ایک دیڑھ سال میں انگریزی کیا کسی بھی زبان پر قدرت حاصل کرسکتا ہے۔ ثانوی سطح پر انگریزی کے کراش کورس بھی اس ضمن میں بہت معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ذریعہ تعلیم انگریزی کے نام پر طلبہ کو سالہاسال مشقتسے دوچار کرنا ایک غیر فطری عمل ہے۔ (جاری ہے)
اہم بلاگز
چراغ تو روشن ہیں
پی ٹی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل سچائی ہو پھر بھی ٹی وی بہرحال ایک مقبول ذریعہء مواصلات ہے۔ شام کے وقت یا رات نو بجے ٹی وی پر ٹاک شوز یا head lines ملاحظہ کرنے والے افراد کا تناسب کم نہیں ہوا۔ آج جب شام آٹھ بجے ٹی وی آن کیا تو اتفاق سے ٹاک شو کا موضوع تھا انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی کی قیادتیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی سبھی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے احوال چل رہے تھے۔ پھر نمایاں قائدین کے نام لیے گئے
پیپلز پارٹی:- ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، زرداری، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، پارٹی قیادت کے نمایاں افراد ۔
مسلم لیگ نون:- نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز ۔
پی ٹی آئی:- عمران خان ہی موءسس اوروہی قائد انہی کے دم خم سے پارٹی ہے۔ غیر مشروط، عقیدت اور اتباع کا محور بس عمران خان کی شخصیت ہے، اختلاف ہے تو عمران خان سے، اتفاق ہے تو عمران خان سے۔
مردِ واحد یا پھرایک خاندان۔ بس ہر پارٹی میں اسی کا اجارہ ہے۔ کس منہ سے یہ لوگ جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ کبھی سوچا آپ نے؟؟ ووٹ دینے سے پہلے سوال کیا کبھی آپ نے ان، مقبول لیڈرز، سے؟ اکتائے دماغ کے ساتھ چینل بدلا تو حافظ نعیم الرحمن کے حلف کی خبر چل رہی تھی۔ سارامنظر ہی دلکش لگا۔ بھیگی آنکھیں، کپکپاتے الفاظ دعاؤں کی التجا. یہ ہے حافظ نعیم الرحمن کا حلف ۔ دماغ میں سوال اٹھا "کیا یہ شخص سالہا سال سے نسل در نسل اس جماعت کا گدی نشین ہے؟"
نہیں جی اس سے پہلے ایک درویش صفت، روشن کردار والا، ہمت و جہد کا استعارہ۔۔۔ سراج الحق تھا اسی ذمہ داری پہ ۔۔۔ تو کیا سراج الحق کو عوامی مقبولیت، یہ عہدہ، کروڑوں لوگوں کی دعائیں ان کے باپ دادا نے دلوائیں؟ نہیں جی، وہ تو حلف اٹھانے سے چند دن پہلے تک انہیں خبر تھی نہ خواہش اور ان سے پہلے جو اس منصب پر تھے وہ تھے سید منور حسن، وہ سید، یہ پٹھان، وہ کراچی سے، یہ کے پی سے، کیا سید منور حسن اپنے سے گزشتہ امیر جماعت کے رشتے دار تھے؟
نہیں، وہ بھی اول الذکر سبھی کی طرح ایک عام کارکن تھے۔
نعیم صدیقی (رحمہ اللہ علیہ) اپنی تصنیف "المودودی" میں لکھتے ہیں
"۔۔۔ کتنا سخت لمحہ ہے کہ اس شخص کے جسد کی امانت کو مٹی کے حوالے کرنے کے بعد میں اسی کی جدائی کاذکر چھیڑ رہا ہوں۔ ترجمان القرآن کی ادارت کرنے اوراس کے ذریعے دور دراز تک ایمان وحکمت کا نور پھیلانے والی ہستی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے۔ اس کی کرسی خالی ہے وہ اپنے تاریخی کمرے میں بھی موجود نہیں اور اہلخانہ کی مجلس میں بھی شریک نہیں۔اس کی کتابیں جیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔"
قارئین! نعیم صدیقی کا کرب جب ان الفاظ میں ڈھل رہاتھا تو شائد انھیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریک پھل پھول لائے گی ، وسعت اختیار کرے گی۔ بلاشبہ...
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...