محافظ کے روپ میں قاتل؟؟؟ 

بظاہر یہ ایک معمولی واقعہ لگتا ہے مگر یہ ہماری ریاستی سوچ اور ہمارے قومی رویوں کی پوری عکاسی کرتا ہے۔ کراچی شاہراہ فیصل پر پولیس کی دو گاڑیاں ایک سرکاری کار کو پروٹوکول دیں رہی تھیں۔ پولیس وینز سرکاری کار کیلئے راستہ بھی صاف کر رہی تھیں اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی بھی کر رہی تھیں۔ ایک عام شہری سے نہ رہا گیا اور اس نے کار میں بیٹھے بیٹھے موبائل سے پروٹوکول کی ویڈیو بنانا شروع کردی۔ پولیس اہلکاروں نے گاڑی روکی ایک پولیس اہلکار اس کے پاس آیا۔ اسے پہلے تو تھپڑ رسید کیا پھر کہا کہ گاڑی میں تیرا باپ جارہا ہے؟ جو ویڈیو بنارہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اسے ماں بہن کی گالیاں دیتا ہوا چلا گیا۔ وہ شہری ڈھیٹ تھا، بے عزتی کرانے کے باجود ویڈیو بناتا رہا۔ اس بار پولیس اہلکاروں نے اسے خوب پیٹا۔ بعد ازاں وزیراعلیٰ سندھ نے اس پولیس اہلکار کو معطل کردیا مگر کیا اس سے عام شہری پر ہونے والا تشدد ختم ہوجائے گا؟ جی نہیں۔۔۔

چونکہ ایک صدی سے یہ ہوتا آرہا ہے۔ انگریز برصغیر میں پولیس اور عدالتوں میں ایسے لوگوں کو بھرتی کیا کرتے تھے جو عوام سے سخت اور نفرت بھرے لہجے میں بات کریں۔

دو روز قبل نواز شریف کی عدالت میں پیشی کے موقع پر وزیر داخلہ سمیت وہاں موجود وزراء کو رینجرز نے احتساب عدالت کے باہر روک دیا، انہیں اندر نہیں جانے دیا۔ رینجرز وزیر داخلہ کے ماتحت ہے۔ انہوں نے اس کی بھی ایک نہ سنی۔ وزیر داخلہ اپنی بے عزتی پر برہم نظر آئے اور ڈی جی رینجرز کو خط لکھ کر جواب طلب کیا ہے۔

وزیر داخلہ احسن اقبال صاحب سے کہیں کہ کبھی سادہ کپڑے پہن کر ایئرپورٹ کا چکر لگائیں اور دیکھیں عوام کی روز کس کس طرح کی بے عزتی ہوتی ہے۔

احسن اقبال صاحب سوچیے آپ کے ساتھ تو آج ایسا ہوا عوام تو روز جگہ جگہ دھکے کھارہی ہے۔

آج سے چار سال قبل مجھے اور میرے دوست کو بائیک پر پولیس نے روک کر موٹرسائیکل کے کاغذات طلب کیے جو دوست کے پاس موجود نہ تھے۔ میں نے وہیں دوست کو ڈانٹا کہ جب کاغذات تھے نہیں تو لے کر کیوں آیا بائیک۔ اتنے میں پولیس کے اہلکار نے گالیاں دینا شروع کردیں اور ایک مکا میرے سینے پر دے مارا۔ میں کافی گھبرا گیا، دوست ان سے الجھنے لگا تو میں نے معذرت کرکے معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کی۔ پولیس اہلکار تھانے لے جانے کا کہتا رہا۔ مجھ سے شناختی کارڈ طلب کیا، میں نے دکھایا تو فوراً وہی پولیس اہلکار جو گالیاں دے رہا تھا ہاتھ جوڑ کر معافیاں مانگنے لگ گیا کہا تو سید ذات ہے۔ تو تباہ کرائے گا معاف کر اور فوراً یہاں سے چلا جا۔ میں نے کہا گناہ گار انسان ہوں، آپ معافی مت مانگیں۔ دوست نے بائیک اسٹارٹکی اور ہم وہاں سے نکل آئے۔

پہلی دفعہ جب پانامہ کیس میں وزیراعظم نواز شریف سمیت ان کا پورا گھرانا عدالتوں کے چکر کاٹتا رہا، رسوا ہوتا رہا، خود کو معصوم اور بے قصور کہتا رہا، چیختا پکارتا رہا لیکن کسی نے نہ سنی۔ کہتے رہے ہم پر ظلم ہورہا ہے، ہم مظلوم ہیں، ہم انصاف کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ نوازشریف صاحب سوچیں آپ وزیر اعظم ہیں، آپ کے ساتھ ایسا کیا گیا تو ہمارے ملک میں ایک غریب کے ساتھ کیا ہوتا ہوگا جس کے تین خاندان ایک کیس کو لڑتے لڑتے مر جاتے ہیں اور عدالت سے انہیں انصاف نہیں ملتا۔ سوچیے پانچ سو کی دھنیے کی گٹھڑی کے چوری کے الزام میں ایک غریب اور عام شہری نے تین سال جیل کاٹی اس غریب پر کیا بیتی ہوگی؟ سوچئے۔۔۔ اس عام آدمی کا کیا ہوتا ہوگا جسے کسی نے چوری کا موبائل پکڑوادیا اور پولیس اسے پکڑ کر لے گئی اوردو سال سے اسے عدالت سے انصاف نہیں مل رہا۔

سوچئے۔۔۔ اعتزاز شاہ نامی نوجوان جسے پولیس بینظیر قتل کیس جیسے بڑے کیس میں پکڑ کرلے گئی اور اب عدالت نے انہیں بری کردیا مگر اتنا عرصہ اس معصوم نے جو جیل کاٹی اسکا ذمہ دار کون تھا؟ اس ماں پر دن رات کیا کیا غم کے پہاڑ ٹوٹے۔۔۔ کوئی پوچھے مجھ سے میں براہ راست اس کا مشاہدہ کر چکا ہوں۔ ماں اپنے لخت جگر کی جدائی کی غم میں نیم پاگل ہوچکی ہے۔۔۔ ذمہ دار کون؟

کراچی سے لاپتہ کیے گئے دو پڑھے لکھے نوجوان عامر ہاشمی اور امجد احمد گھر واپس پہنچ گئے مگر مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں۔۔۔ ماورائے عدالت دو نوجوانوں کو قتل کردینا کس جرم کی سزا ہے؟ ذمہ دار کون؟

پاکستانی عدلیہ، قانون اور ‘‘حساس‘‘ اداروں کی منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔

ماؤں کی گود کو ان کے لخت جگر سے محروم کیا جارہا ہے؟ اور انصاف کہیں سے ملتا نظر نہیں آتا۔

سوچیے۔۔۔ ہمارے ملک میں عوام کے محافظ کس طرح عوام کے ساتھ رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ کبھی یہی محافظ انہیں تھپڑ رسید کر دیتے ہیں، کبھی ماں بہن کی گالیاں دیتے ہیں تو کبھی سرِعام عوام کو سڑکوں پر گھسیٹ لیتے ہیں اور کبھی جعلی مقابلے میں موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔۔۔ کوئی ہے پوچھنے والا؟ یا یہاں جنگل کا قانون رائج ہے؟

انصاف جس معاشرے میں نہ ہوں وہاں پر موجود شہری پھر ردعمل میں دہشت گرد بنتا ہے۔ پھر اس کا ردعمل ایک جذباتی بدلہ لینے کا روپ دھار لیتا ہے۔

جب انصاف نہیں ملتا تو پھر دہشتگرد ایسے لوگوں کو اپنا آلہ کار بناکر استعمال میں لاتے ہیں۔ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ انصاف کے نظام کو مضبوط، مربوط اور بہتربنایا جائے ورنہ بغیر انصاف کے دہشتگردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔

حصہ
mm
سید ثاقب شاہ اپنے قلمی نام ابن شاہ سے بھی لکھتے ہیں،گریجویٹ ہیں۔مانسہرہ کے رہنے والے ہیں لیکن ان دنوں کراچی میں مقیم ہیں۔

جواب چھوڑ دیں