”نظریاتی ووٹر” یا ”شخصیاتی ووٹر”

آج کل کے ہمارے پاکستانی سیاسی کلچر میں ”نظریاتی ووٹر” ہونے کے دعویدار تو بہت نظر آتے ہیں لیکن اس لفظ کا حقیقی مفہوم نہایت کم لوگ ہی جانتے ہیں۔ لفظ نظریاتی، نظریہ سے نکلا ہے اور نظریہ ایک مضبوط سوچ کا نام ہوتا ہے۔ گویا اصولاََا نظریاتی ووٹر کو کسی خاص سوچ کا ہی پابند ہونا چاہیئے نہ کہ کسی مخصوص شخصیت کا غلام بن جانا چاہیئے۔ یعنی جب تک نظریاتی ووٹر کا لیڈر کسی نظرئیے کے مطابق چلے تو وہ اس کی تائید کرے لیکن اگر وہ لیڈر نظرئیے کو فراموش کر دے تو اس لیڈر کو بھی فراموش کر کے اسی نظرئیے کے حامل کسی اور لیڈر کی تائید شروع کر دینی چاہیئے۔
اگر کوئی کارکن ایسا نہیں کرتا اور اپنے لیڈر کے صحیح، غلط ہر اقدام کو درست مانتا چلا جاتا ہے تو وہ خود کو نظریاتی ووٹر ہر گز نہیں کہہ سکتا، ہاں البتہ خود کو شخصیاتی ووٹر کہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن ہمارے ملک میں یہ شخصیاتی ووٹرز جب نظریاتی ووٹر کی اصطلاح استعمال کرتے نظر آتے ہیں تو ملک و قوم کا مستقبل بھی اتنا ہی تابناک دکھائی دینا شروع ہو جاتا ہے جتنا کہ حال تابناک ہے۔
خیر اب کیا کہیئے ان نام نہاد نظریاتی ووٹر صاحبان کا، ان سے جتنی بحث کر لیں، جتنا بھی سمجھا لیں، جتنے بھی دلائل دے لیں، بالآخر لاجواب ہو کر یہ آپ سے دست و گریباں تو ہو سکتے ہیں لیکن اپنے لیڈر کے انتہائی غلط اقدامات کو بھی غلط نہیں مان سکتے، چاہے بعد میں لیڈر خود مان جائے کہ اس سے غلطی ہوئی تھی۔
ان نام نہاد نظریاتی ووٹرز سے کبھی پوچھ لیا جائے کہ آپ نظریاتی ووٹر ہیں تو آپ کا کوئی نہ کوئی نظریہ تو ہو گا ہی تو اکثر بڑی ہی دانشمندی سے جواب دیتے ہیں کہ جی ہاں، کیوں نہیں، ہمارا نظریہ بڑا پکا ہے کہ ہر الیکشن میں ووٹ اسی ایک شخصیت کو ہی دینا ہے چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ اب اس قسم کے نام نہاد نظریاتی پن کو شخصیاتی پن نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟
درحقیقت انہی شخصیاتی ووٹرز نے سیاستدانوں کے دماغ اتنے خراب کر دیئے ہیں کہ انھیں یقین ہوتا ہے کہ وہ کام کریں نہ کریں، ان کا ووٹر کہیں نہیں جانا۔
انتہائی دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہو جاتی ہے جب ان شخصیاتی ووٹرز کا لیڈر کسی نامعلوم عظیم قومی مفاد کی خاطر مخالف سیاسی جماعت میں شامل ہو جاتا ہے تو اچانک اس سابقہ مخالف سیاسی جماعت میں انھیں ایسی ایسی اعلیٰ خوبیاں نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں جو اس جماعت کے جدی پشتی کارکنوں کو بھی معلوم نہیں ہوتیں۔
دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں رائج جمہوری نظاموں کی مضبوطی اور کامیابی کا راز یہی ہے کہ وہاں شخصیاتی ووٹرز کی وباء نہیں ہے۔ وہاں الیکشن کو ایک احتسابی عمل کے طور پر لیا جاتا ہے۔ ہر رہنما کو خوف ہوتا ہے کہ وہاں لوگ میرٹ پر ہی ووٹ دیں گے۔ ووٹر خود کو مخصوص شخصیتوں کی غلامی میں نہیں جانے دیتے۔ جو بھی باقیوں سے بہتر کام کرتا ہے اسی کو ووٹ دیا جاتا ہے۔ اور اگر تمام پرانے لیڈر ملک و قوم کو نقصان پہنچاتے نظر آئیں تو ایسے لیڈرز کو ووٹ دے دیئے جاتے ہیں جن کو پہلے کبھی حکومت کرنے کا موقع نہ ملا ہو۔
شخصیاتی ووٹرز کی وباء سے پاک جمہوریتوں میں الیکشن کے موقع پر عوام کی جانب سے کیا جانے والا یہ احتساب نہ صرف جمہوریت کو مضبوط کرتا ہے بلکہ ریاست کے دیگر اداروں کو بھی اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اب عوام نام نہاد نظریاتی پن (شخصیاتی پن) کی روایت کو توڑ کر میرٹ پر ووٹ ڈالنا شروع کر دیں تا کہ ہم کم از کم اپنا کل تو بہتر بنا سکیں۔
آئین نو سے ڈرنا، طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے، قوموں کی زندگی میں

حصہ
mm
چکوال کے رہائشی جواد اکرم نے بین الاقومی تعلقات میں ماسٹرز کیا ہے اور عالمی امور پر لکھتے رہتے ہیں۔ملک کے اردو اور انگریزی اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل میں ان کے تجزیے شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں