آہ 16دسمبر

دسبر کا سورج طلوع ہوتے ہی ماضی کی کتاب ہمارے سامنے کھل جاتی ہے،اگرچہ دسمبر کی 16 تاریخ تو پورا سال نہیں بھولتی لیکن دسمبر کے آغاز سے غموں کی داستان دوبارہ تازہ ھو جاتی ہے جو کہ ہر دردمند انسان کو ہلا کےرکھ دیتی ہے۔

لیکن افسوس یہ کہ ہمارے دوست توثقافت کے نام سے دسمبر کا مہینہ خوب مناتے ہیں۔ثقافت سے ہر کسی کو محبت ہے لیکن دائرے کے اندر،سب سے بڑی بات یہ کہ جہاں سوگ منایا جائے

وہاں لوگ خوشیاں مناتے ہیں۔ہمارے دشمن نے ہمارے ملک کا ایک بازوکاٹ کہ ہمیں لنگڑا بنا دیاہمارے سینکڑوں بچوں کو شہید کر کے ہماری گودیں اجاڑ دیں، گھر ویران کر دیےاور ہم ہیں کہ اس ماہ میں شادیانے بجاتے ہیں۔حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم متحد ھوکردشمن کو کوئی پیغام دیتے،اس میں کوئی شک نہیں کہ ان تمام واقعات میں ہمارے اپنے لوگ شامل تھے۔لیکن ہمیں بزدل تو نہیں بننا چوڑیاں پہن کر صرف ناچنا نہیں ہمیں اپنی انسانیت اور مسلمانیت کاحق ادا کرناہوگا۔

ہاں جولوگ بھی 16 دسمبر کے واقعات میں ملوث رہے ہیں وہ ان شاءاللہ ایک نہ ایک دن اپنے انجام کوپہنچ کر رہیں گےدشمن نے پیچھے سے حملہ کیاجو کہ ایک بزدل کی نشانی ہےلیکن ہم آگے سے حملہ کریں گے۔جو کہ ایک بہادر اور نڈر کی نشانی ہے۔

اس نے ہتھیار و اسلحہ سے حملہ کیا۔ہم قلم و کتاب سے حملہ کریں گے۔اس کے لیے متحد ھونا لازمی ہے۔جس کے لیے ہم سب کو کردار ادا کرنا ھوگا۔ورنہ دن بہ دن ہم کمزور پڑتے جائیں گے۔دشمن کے سامنے ہماری کوئی وقعت نہیں رہے گی۔

ملا، مولوی، کامریڈ، قوم پرست، قدامت پرست، جدیدیت پرست وغیرہ یہ تمام فرق ختم کر کہ ایک انسان ایک مسلمان ھو کر ہمیں کچھ کرنا ھوگا اب ان ساری چیزوں سےہم تنگ آچکے ہیں اور اپنی شان اور اپنا دبدبہ بھی آہستہ آہستہ کھوتے جارہے ہیں۔خدارا کچھ ہوش کے ناخن لیں ورنہ دشمن ہمیں روند ڈالے گا۔

سولہ سمبر پھر آرہا ہے اور شہید بچوں کالہو ہمیں پکار پکار کر کہہ رہا ہے کچھ خدا کا خوف کرو تمہارے لڑنے جھگڑنےاور منتشر ھونے کی وجہ سے ہمارا خون رائیگاں نہ ھو جائے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں