جاگتے رہنا،ساڈھے تے نہ رہنا

دانش منداں نوں سپ نئیں لڑدا،اکو کھْڈوں دو واری
مڑمڑدھوکاکھان محمد،مت جنھاں دی ماری
بقول میاں محمد بخش صاحب ،عقل مندانسان ایک جگہ سے ایک ہی دفعہ نقصان اٹھاتا ہے۔ دوسری بار نہیں تاہم وہ بار بار دھوکا کھاتے ہیں جن کی عقل ماؤف ہو چکی ہے۔کچھ یہی حال بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے بھائیوں کا ہے۔اسلام آباد دھرنے میں آنے والے عام کارکنان کے جذبے اور حوصلے پر تو شک نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا ارادہ بھی نیک تھا اور مقصد بھی تاہم ان کی قیادت سب کے ساتھ ہاتھ کر گئی۔وہ کسی اور کے کہنے پر دھرنا دینے آئی اور مفادات سمیٹ کر چلتی بنی۔دھرنے کا معاملہ شروع دن سے مشکوک تھا تاہم جب دھرنے کو منتشر کرنے کے لئے پولیس اور ایف سی کی جانب سے کارروائی کی گئی تھی ، اس دن معاملات اور زیادہ مبہم ہو گئے۔ اب حقیقت مزید کھل کے سامنے آ رہی ہے۔مسلم لیگ ن اور اس کے حامیوں کی جانب سے میڈیا یا سوشل میڈیا پر یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ دھرناایجنسیوں کے کہنے پر دیا جا رہا ہے تاہم باخبر حلقوں نے پوری ساز ش بے نقاب کر دی ہے۔ باخبر حلقوں کے مطابق دھرنے سے پہلے نواز شریف کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے تحریک لبیک یا رسول اللہﷺ کے قائدین سے معاملات طے کئے اور دھرنے کے تمام اخراجات اٹھانے کی یقین دہانی بھی کرا دی۔اسلام آباد دھرنا 22 دن چلا،21ویں دن دھرنے کو منتشر کرنے کے لئے پولیس اور ایف سی نے کارروائی کی۔ 1500 سے 2000 لوگوں کو منتشر کرنے کے لئے 4 ہزار سے زائد پولیس اہلکار اور 2500 کے قریب ایف سی اہلکار تعینات تھے۔ 6 ہزار سے زائد اہلکار 2 ہزار لوگوں کو بڑے آرام سے منتشر کر سکتے تھے تاہم ان کا مقصد معاملات کو سمیٹنا تھا ہی نہیں بلکہ مزید الجھانا تھا۔ ماردھاڑ کی آڑ میں چوہدری نثار کے گھر پر دانستہ حملہ کرایا گیا جبکہ ان کا اس پورے معاملے سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔آرمی کو معاملات میں الجھانے کی پوری کوشش کی گئی تاہم عسکری قیادت نے اپنی بصیرت کے مطابق معاملات کو قابل فہم طریقے سے حل کرا دیا۔دھرنا قائدین اس شخص کا استعفیٰ لے کر گھر چلے گئے جس کا کردار سرسری تھا تاہم جو اصل ذمہ دار اب بھی اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ فیض آباد دھرنا ختم ہونے کے بعد تحریک لبیک یا رسول اللہﷺ کے قائدین میں اختلافات سامنے آ گئے۔ 21 کروڑ روپے میں ڈیل کی باتیں سامنے آئیں۔ ایک گروپ نے دوسرے پرپیسوں کا الزام لگایا۔لاہور میں دھرنا جاری رہاجو مزید کچھ دن چلا اور ایک اور معاہدے کے تحت ختم کر دیا گیا۔ان سب معاملات میں وزیر داخلہ احسن اقبال کے لئے ایک طرف کھائی،دوسری طرف کنواں تھا۔انہیں پارٹی سے وفاداری نبھاتے ہوئے اپنے قائدین کی منشا کے مطابق کام کرنا تھا تاہم دوسری طرف اداروں اور عوام کو یہ بھی دکھانا تھا کہ وہ ملک سے وفادار ہیں۔ ممکنہ طور پر انہی کی جانب سے ہاتھ اٹھانے کی وجہ سے پاک فوج کے ایک افسر کو براہ راست دھرنا قائدین سے مذاکرات کرنے پڑے۔
اب ایک اور معاملہ سامنے آ رہا ہے کہ کیپٹن صفدر کے کہنے پر دھرنا دینے والوں نے 22 دن کے اخراجات 20 کروڑ روپے سے زیادہ ظاہر کر دئے ہیں تاہم کیپٹن صفدر انہیں5 کروڑ روپے دے کر چپ کرانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ یقیناً سب کے ذہن میں ایک سوال ضرور ہو گا کہ مسلم لیگ ن کو اپنی ہی حکومت کے خلاف دھرنا دینے کی کیا ضرورت تھی؟۔تو اس کا جواب ایک پنجابی محاورے میں ہے کہ’’نہ کھیڈاں گے، نہ کھیڈن دیاں گے‘‘۔مسلم لیگ (ن) کی قیادت اس وقت خودکش بمبار بنی ہوئی ہے۔ ان کا ون پوائنٹ ایجنڈا یہی ہے کہ ہم نہیں تو کوئی بھی نہیں۔ ملک میں انارکی پھیلے چاہے فسادات پھوٹ پڑیں۔ بس تنگ آ کر آرمی ٹیک اوور کر لے اور وہ سیاسی شہید بن جائیں۔ بہت کوششوں کے باوجود نواز شریف اب تک خود کو سیاسی شہید ثابت کرنے میں ناکام ہیں۔بس اسی چکر میں ہر دوسرے روز کوئی نیا حربہ آزمانے نکل پڑتے ہیں۔
اب صورتحال یہ ہے کہ پیسوں کے معاملات میں تحریک لبیک یا رسولؐ میں اختلافات بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے جی ٹی روڈ کی پٹی پر اپنے ووٹ بینک کو ناراض کر دیا ہے اور ماضی میں یہی جی ٹی روڈ کی پٹی مسلم لیگ (ن) کی سب سے بڑی طاقت ثابت ہوتی رہی ہے کیونکہ اہم عسکری حلقوں اور بیوروکریسی کے زیادہ تر لوگوں کا تعلق اسی پٹی سے ہوتاہے۔ دھرنے کے معاملے کو خوش اسلوبی سے نمٹا کر پاک فوج نے اپنی اہمیت میں اضافہ کیا ہے تاہم پاکستانی لنڈا باراز کے دیسی لبرلز کو شدید مرچیں لگی ہوئی ہیں۔ ان کا ون پوائنٹ ایجنڈا ہی فوج کی مخالفت ہے اور اس کے لئے وہ امریکا، اسرائیل کے تلوے چاٹنیکے لئے بھی تیار ہیں۔کیا آرمی میں انڈیا کے لوگ بھرتی ہیں جو اپنے عوام سے بات نہیں کر سکتے۔ انہیں سمجھا نہیں سکتے ، انہیں اصل حقائق سے آگاہ نہیں کر سکتے۔
دوسری طرف دھرنے کے ذریعے ملکی سطح پر مشہور ہونے والے علامہ خادم حسین رضوی کے انداز بیان نے’’سیاسی لغت‘‘ میں چند نئی جہتیں بھی متعارف کرا دی ہیں۔پہلے بات ’’اوئے نواز شریف‘‘ تک تھی۔ اب’’پین دی سری‘‘ قومی گالی کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ان کی جانب سے دئے گئے دیگر القابات بھی بہت اہم ہیں مگر قابل بیان نہیں تاہم دکھ صرف اس امر کا ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم اس طرح کے لوگوں کودیکھیں گے تو ان کے ذہن میں اسلام کے حوالے سے بننے والی تصویر کے بارے میں سمجھنے کے لئے آپ کو کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ علامہ خادم رضوی کو غلط یا صحیح وقت ثابت کرے گا تاہم باقی عوام کو اندھی تقلید سے بچنے کی ضرورت ہے۔ اپنے اپنے نظریات پر قائم رہیں، اپنے عقائد برقرار رکھیں تاہم یہ بھی یاد رکھیں کہ آپ غلط راستے سے کبھی بھی صحیح منزل پر نہیں پہنچ سکتے۔
ملک کے ساتھ یہ جو سب کھلواڑ کیا جا رہا ہے ، اس میں صرف اتنا ہی کہا جا سکتا ہے ، جاگتے رہنا،ساڈھے تے نہ رہنا۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں