کیا یہ قائد اعظم کا پاکستان ہے؟

ہم لوگ بابا قوم قائداعظم محمد علی جناح کو ہر چودہ اگست، چھ ستمبر، گیارہ ستمبر اور پچیس دسمبر کو دھوم دھام سے یاد کرتے ہیں مگر اب کراچی کے شہریوں سمیت بہت سے پاکستانی لوگوں نے اپنی ویک اینڈ پر قائد اعظم کے مزار پر جانا شروع کردیا ہے جس کے پاس قائد اعظم کی تصویر والا نوٹ ہے وہ بھی تیس روپے دیکر بابا قوم کے مزار کے اندر داخل ہو سکتا ہے کیونکہ مزار کے مین گیٹ کی فیس ہے سو ہم نے وہ نوٹ دے کر بابا کے مزار کے مین گیٹ کے اندر داخل ہوگئے اور ساتھ میں کینٹین موجود تھا جس پہ ہر چیز ڈبل قیمت پہ دستیاب تھی۔ اچھا وقت ہم نے مزار کے ارد گرد گھوم پھر کرگزار دیئے۔ ویسے ہم بابا قوم کے مزار پہ کئی مرتبہ گئے لیکن چودہ اگست کو ایک میلہ سا لگتا ہے جس میں ملک کے اعلی قائدین بابا کے مزار پہ آتے ہیں ان قائدین میں مقامی ایم، پی اے، ایم ،این کے ساتھ وزیراعظم پاکستان ، صدر پاکستان گورنر اور وزیر اعلی اپنی اپنی باری میں بابا قوم کے مزار پہ پھول چڑھا کے واپس اپنے کرسی پہ براجمان ہوتے ہیں۔
اس روز ہم مزار قائد پہ تھے کہ اچانک سیکورٹی سخت ہوگئی۔ ابھی ہم جوتوں کے ٹوکن لیکر اوپر مزار کی طرف جا ہی رہے تھے کہ ہمیں پیچھے جانے کا حکم ملا اور ساتھ میں سیکڑوں لوگ بھی تھے اور ان کو بھی ایک کونے میں دھکیل دیا گیا تو ہم بابا قوم کے میوزیم کی طرف چل پڑے قائداعظم محمد علی جناح کے میوزیم میں داخل ہونے کی فیس بھی اچھی خاصی رقم تھی ہم میوزیم میں فیس دے کر داخل ہوگئے جہاں پہ قائداعظم کے استعمال کی تمام چیزیں شیشے میں بند رکھی ہوئی تھیں، جس بھی بابا قوم کی کار بھی کھڑی ہوئی تھی جس کی تصویر کھینچنے پہ ہمیں خوب ڈانٹ بھی پڑی تھی ایک کونے میں چھوٹے سے لفظوں میں لکھا تھا یہاں تصویر کھینچنے پہ پابندی ہے۔اس میوزیم میں جگہ جگہ بابا قوم کی تاریخ لکھی ہوئی تھی پھر ہم تاریخ میں گھس گئے۔
قائد اعظم25دسمبر1987 کو کراچی میں پیدا ہوئے آپ کانام محمد علی رکھا گیا اور آپ کا خاندان جناح تھا۔بچپن اور لڑکپن میں قائد اعظم کو کرکٹ اور اسنوکر میں بہت دلچسپی تھی ابتدائی تعلیم کے بعد قائداعظم اعلی تعلیم حاصل کرنے کیلئے انگلینڈ چلے گئے جہاں انہوں نے قانون کے کلاس میں داخلہ لے لیا اور پھر ایک دن عظیم قانون دان کی ڈگری لیکر وطن واپس آگئے اور کراچی کی بجائے بمبئی کو اپنا مسکن بنا لیا اور وہاں پر قانون کی پریکٹس شروع کر دی اور ایک روزقائد اعظم برصغیر کے نامور وکلا میں سے ایک وکیل بن گئے اور 1910ء میں آپ بمبئی سے اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ آپ نے اپنی سیاست کے لیے کانگریس کو چنا اور 1913 میں آپ نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور1920 میں آپ نے کانگریس سے استعفیٰ دے دیا اور1929 میں قائد اعظم نے اپنے چودہ نکات پیش کیے 1930 میں آپ نے گول میز کانفرنس میں شرکت کی۔ 1939 میں آخر کار کانگریس نے خودحکومت دے دی اور 1940 میں قرارداد لاہور پاس ہوا اس کو قرارداد پاکستان بھی کہا گیا قائد اعظم نے فرمایا کہ پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جس دن برصغیر میں پہلا مسلمان ہوا تھا ۔یہ تاریخ پڑھنے کے بعد بابا قوم کے میوزیم کو خیر باد کہا اور بابا کے مزار پہ حاضری دینے لگے اور کچھ شکوے شکایت دل ہی دل میں کرنے لگے۔
باغ جناح میں ٹہلتے ہوئے ہمیں جھریاں شدہ چہرہ ملا جس نے بتایا کہ اس وقت کے لوگ انتہائی متحد محب وطن اور پرجوش ہوتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد وقت کم تھا اور مقابلہ سخت تھا ابھی انگریز اور ہندوؤں کے دیے ہوئے زخم تازہ تھے کہ اللہ کو ہمارا ایک اور امتحان لینا مقصود ہوا اور11ستمبر 1948 کو بابا قوم خالق حقیقی سے جا ملے قائد اعظم کے بعد اس قوم کو احساس ہوا کہ وہ کتنی اہم شخصیت سے محروم ہوگئی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی اس جدوجہد کا مقصد یہ تھا کہ ایک ایسا وطن ہو جہاں مسلمان رہ کہ آزادانہ طور پر بھرپور زندگی گزار سکیں جہاں لوگ اعلی اخلاق و کردار کے ساتھ اپنے حقوق و فرائض کو بہترین طریقے سے اداء کرکے زندگی بسر کر سکیں۔ یہ ملک پاکستان انتہائی جدوجہد اور قربانیوں سے حاصل کیا گیا یہ لفظ کہتے ہی وہ شخص مجھے تنہا چھوڑ کر آگے چل پڑااور میں اس کی راہ تکتا رہ گیا۔
میں نے کینٹین سے کچھ کھانے کی چیزیں خرید لیں اور ان کو کھانے کی بعد کچھ خالی شاپر ڈسٹ بن میں ڈالی مگر میں نے ارد گرد نظریں دوڑائیں تو مجھے کئی کاغذوں کے خالی ریپرز نظر آئے تو کچھ مایوسی ہوئیآگے بڑھا جہاں پہ ایک جھری شدہ چہرہ اپنی بیگم کو بابا قوم کایہ فرمان سنا رہا تھا “مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں؟ مسلمانوں کا طرزِ حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے پہلے ہی وضاحت کیساتھ بیان کردیا تھا۔ الحمدللہ قرآن پاک ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اورقیامت تک موجود رہے گا؛؛ آج ترقی یافتہ پاکستان کا نعرہ لگانے والے قائد کے پاکستان اور ان کے راہنما اصولوں کو بھول گئے ہیں۔ جنہوں نے مسلمانوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور دین اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے الگ خودمختار ریاست قائم کرنے کے لئے انتھک جدوجہد کی تھی۔اور ہمیں آزاد ریاست دے گئے یہ باتیں سن کے میں لاجواب ہوگیا میں نے اس جھری شدہ چہرہ سے کوئی بھی سوال نہ کیا اور میں مزار کے اندر داخل ہوگیا میں اندر سوچنے لگا میرے پیارے پاکستان میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے یہ وہ ملک ہے جسے اللہ نے دنیا کے بہترین معدنی وسائل سے نوازا ہے یہ وہ ملک ہے جس کے پاس بہترین چار موسم موجود ہیں یہ وہ ملک ہے جس کے پاس دنیا کے بہترین تازہ پھل موجود ہیں یہ وہ ملک ہے جہاں کی مٹی انتہائی زرخیز ہے جو سونا اگلتی ہے۔ مگر آج میرے دماغ میں ایک سوال ابھرتا ہے کیا یہ وہ پاکستان ہے جس کا خواب بابا قوم نے دیکھا تھا اس بات پہ ہم سب کو ضرور سوچنا چاہیے۔ ہماری دعا ہے کہ پاکستان کو اللہ اپنی حفظ و امان میں رکھے ۔ان شاء اللہ پاکستان دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے۔ پاکستان پائندہ باد

حصہ
mm
ببرک کارمل جمالی کاتعلق بلوچستان کے گرین بیلٹ جعفرآباد سے ہے ۔ان کے ماں باپ کسان ہیں مگر اس کے باوجود انہوں نے انہیں ایم اے تک تعلیم جیسے زیور سے آراستہ کیا۔ ببرک نے ابتدائی تعلیم اپنے گائوں سے حاصل کیا اور اعلی تعلیم کیلئے پھر کوئٹہ کا رخ کیا ان کی پہلی تحریر بچوں کے رسالے ماہنامہ ذہین میں شائع ہوئی اس کے بعد تحاریر کا نہ رکنے والا سلسہ جاری وساری رہا اب تک دو ہزار کے لگ بھگ تحاریر مختلف رسالوں اور اخبارات میں چھپ چکی ہیں۔یہ پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں جبکہ ان کی تحاریر ان اخبارات اور رسالوں میں چھپ چکی ہیں اور چھپ رہی ہیں جن میں (روزنامہ پاکستان) بلاگ رائیٹر (روزنامہ ایکسپریس) بلاگ (حال احوال) کوئٹہ بلاگ رائیٹر جبکہ ان کی فیچر رپورٹس ( ڈیلی آزادی)کوئٹہ (ڈیلی مشرق )کوئٹہ ماہنامہ جہاں نما کوئٹہ میں آج تک چھپ رہی ہیں۔ان کی کہانیاں (ماہنامہ پھول) لاہور (ماہنامہ ذہین) لاہور (ماہنامہ اردو ڈائیجسٹ)لاہور ( ماہنامہ پیغام) لاہور (ماہنامہ روشنی)پنڈی (ماہنامہ افکار جدید) لاہور میں چھپ چکی ہیں ۔ان کاا یک مستقل سلسلہ بلوچستان کے حوالے ماہنامہ اطراف انٹرنیشنل کراچی میں بھی چل رہا ہے اس کے ساتھ یہ بچوں کے لیے بھی بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ ماہانہ (پارس) کے مدیر بھی ہیں۔ کئی ادبی ایوارڑ بھی مل چکے ہیں اور ٹی وی، پہ کچھ پروگرام بھی کر چکے ہیں۔ جبکہ اکسفورڈ پریس کی کتاب میں بھی ان کی تحریر شائع ہو چکی ہے۔ببرک پاکستان رائیٹر سوسائیٹی بلوچستان کے نائب صدر بھی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں