ٹریفک کا مسئلہ اور اربابِ اختیار

میں تیز تیز قدم اٹھاتے، سر سے سامنا نہ ہونے کی دعائیں مانگتا دفتر میں داخل ہوا۔ سر سامنے ہی کھڑے تھے جیسے میرے ہی منتظر ہوں۔آؤ جی آؤ، ماشاء اللہ! نظر نہ لگے۔ذرا گھڑی دیکھیے آپ! یہ آنے کا وقت ہے؟آئے روز آپ دیر سے آتے ہیں۔سر جی! گھر سے سات بجے کا نکلا ہوا ہوں۔ نو بجے پہنچنا ہے، آدھ گھنٹے کا راستہ ہے مگر….. ٹریفک اتنا جام رہتا ہے کہ دو دو گھنٹے وہیں ٹریفک میں پھنسے گزر جاتے ہیں۔میں نے شرمندگی چھپاتے ہوئے کہا۔ سر نے کرسی کھینچی اور بیٹھتے ہوئے گویا ہوئے :ہاں یہ تو ہے، مملکت خداداد کو جن مسائل کے انبوہ کثیر کاسامنا ہے ان میں سے اہم مسئلہ ٹریفک کا بھی ہے۔ بڑے شہروں میں ٹریفک جام کے مناظر تو نظر آتے ہی ہیں مگر اب چھوٹے شہر بھی اسی عارضے میں مبتلا ملتے ہیں۔میں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا: جی سر جی! ایسا ہی ہے۔ اور یہ مسئلہ اتنا بگڑ چکا ہے کہ گھنٹوں ٹریفک جام رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے نہ طلبہ و طالبات بروقت اسکول پہنچ سکتے ہیں نہ گھر۔ اسی طرح دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ٹریفک کے جم غفیر میں پھنسی ایمبولینس میں مریض تڑپتے ہوئے جان جانِ آفریں کے سپرد کر دیتاہے۔
میں نے اس مسئلہ پر روشنی ڈالی تو سر نے کہا: ہاں !وہیں ٹریفک میں پھنسا ڈاکٹر بروقت ہسپتال نہ پہنچنے کی وجہ سے پریض کو نہیں بچا پاتا اور بعض اوقات معطل بھی ہوجاتا ہے۔ گھنٹوں ٹریفک جام رہتا ہے اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟میں لگے ہاتھوں پوچھ بیٹھا۔ دیکھو! کئی وجوہات میں سے اہم وجہ بڑھتی ہوئی آبادی اور گاڑیوں کی کثیر تعداد ہے۔ اس کے باوجود سڑکوں کو ضروریات کے مطابق اب بھی پورا نہیں کیا گیا۔ موجودہ سڑکیں ٹریفک کا والیم برداشت کرنے کے قابل نہیں ۔ وہ سڑکیں جو کئی برس پہلے اس وقت کی ٹریفک کی ضرورت کو مدنظر رکھ کر بنائی گئی تھیں، جب گنی چنی گاڑیاں سڑکوں پر نظر آتی تھیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان میں ٹریفک کا مزید بوجھ برداشت کرنے کی گنجائش پیدا نہیں کی گئی جس کی وجہ سے اکثر و بیشتر ٹریفک جام رہتا ہے۔سر نے جواب دیا۔ پھر پہلو بدل کر بولے: اسی طرح چھوٹی اور تنگ سڑکیں ساتھ ہی ڈرائیوروں کا ٹریفک قوانین سے لاعلم ہونا بھی درد سر سے کم نہیں۔جی سر! وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ذرا سی بے اختیاطی ، جلدی، غلط پارکنگ کی وجہ سے پورا روڈ بلاک ہو سکتاہے۔ میں نے کہا۔
ہونہہ! اور ارباب اختیار سے ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے کی امید رکھنا عبث ہے۔ ارباب اختیار اس مسئلہ کو حل کرنے کے خواہش مند نظر نہیں آتے۔ کیوں کہ انہیں تو اس بھیڑ میں پھنسنا نہیں پڑتا، نہ ہی ان کے بچوں کو اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ گھر یا اسکول آتے جاتے ٹریفک جام میں پھنسے ہوں اور ان کی ماں گھر کے دروازے میں کھڑی انتظار کی سولی پر لٹکی ہو کہ نجانے میرا بچہ کہاں رہ گیا۔ نہ ان کے مریض کو یوں ٹر یفک جام میں پھنس کر ملک الموت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سر نے تفصیلاً بتاتے ہوئے مجھے دیکھا پھر ایک لمبا سانس لے کر دوبارہ گویا ہوئے: جانتے ہو؟ پاکستان میں مقامی طور پر تیار ہونے والی گاڑیوں کی تعدادتقریبا 2لاکھ سالانہ ہے جبکہ 4لاکھ گاڑیوں کی ڈیمانڈ ہے۔ اسی طرح ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ہمارے ملک میں صرف چار پہیوں والی گاڑیوں کی تعداد 0.25ملین کے لگ بھگ ہے۔ اور یہ تعداد 2030 تک بڑھ کر 0.5 پر پہنچ جائے گی۔ پاکستان کے صرف ایک شہر کراچی میں روزانہ 1000 سے 1100 موٹرسائکلیں رجسٹر کی جارہی ہیں۔ اور ایک اندازے کے مطابق صرف شہر کراچی میں رجسٹرڈ موٹر سائیکلوں کی تعداد 27لاکھ سے بھی زائد ہے ۔ جبکہ نجی گاڑیوں کی تعداد 13لاکھ 30ہزار اور کمرشل گاڑیوں کی تعداد 4لاکھ90 ہزار سے زائد ہے۔ اسی طرح تقریبا ہر شہر میں چلتی بڑی گاڑیاں اور ہزاروں چنگچی رکشہ بغیر موٹر رجسٹریشن کے سڑکوں پر موجود ہیں۔
ساتھ ہی یہ جو ’’سی پیک منصوبہ‘‘ ہے، اس کی وجہ سے جہاں اور گراں قدر فائدے ہیں ان میں ایک آٹو سیکٹر کی وسعت بھی ہے۔حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ اس صورتحال کے پیش نظر ٹرانسپورٹ پر توجہ دے۔ مگر ارباب اختیار اس طرف توجہ ہی نہیں دیتے۔ ٹھیک ہے ملک کے مختلف حصوں میں مختلف منصوبوں کے تحت ٹرانسپورٹ کی بہتری کے لیے نئی و کشادہ سڑکیں بنائی جا رہی ہیں مگر یہ جو شہر کے اندر ہم گھنٹوں پھنسے رہتے ہیں اس کا سدباب کون کرے گا ؟ دیکھو! ٹریفک کی کثرت اور بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر فلائی اوورز اور انڈر گراؤنڈ کراسنگ تو بنائے ہی جاسکتے ہیں ناں؟ میں نے تائیدی نظروں سے سر کو دیکھا ، سر نے چائے کا گھونٹ بھرا اور پہلو بدل کر بولے: ہم ایسی قوم ہیں جو نقل بھی ٹھیک سے نہیں کر پاتے ۔ یہ ملک انوکھا نہیں کہ سڑکوں پر ٹریفک خراٹے بھرتی پائی جائے ۔نہ ہی کوئی مسئلہ کشمیر ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے بغیر کوئی حل نہیں۔
اس مسئلہ کا حل جہاں سڑکوں کی کشادگی ہے وہیں ایک حل زیادہ راستے اور سڑکیں بھی ہیں ۔شہروں کے گرد رِنگ روڈ بنائے جائیں، تا کہ باہر سے آنے والے لوگوں کو پورا شہر کراس کرنے کی بجائے رِنگ روڈ سے اپنی منزل سے قریب ترین سمت سے شہر میں داخل و خارج ہونے میں آسانی ہو۔انڈسٹری ایریاز کے لیے تو رِنگ روڈ لازمی ہونا چاہیے تا کہ ہیوی ٹرانسپورٹ کا شہر میں بے جا استعمال بند ہوجائے۔اسی طرح پبلک ٹرانسپورٹ کا جال بچھایا جائے۔ بہترین نظام بنایا ہو، تا کہ لوگ مناسب کرائے پر سہولت سے پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کی بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کریں۔ آ پ نے ٹھیک کہا ۔ لیکن سر! اربابِ اختیار و اقتدار اس نہج پر کیوں کر سوچیں گے؟ ان کی آمد پر تو پورے کا پورا روٹ بند ہوجاتا ہے۔ مریض وہیں جان دے دیتے ہیں۔میں نے دلچسپی لیتے ہوئے کہا۔سر نے اطمینان سے میری بات سنی اور پھر ایک لمبا سانس لے کر بولے: سیاست دانوں ، حکمرانوں کی آمدو رفت کے وقت شہروں کی سڑکوں کو بند کرنے کا رواج تو بالکل ختم ہونا چاہیے۔یہ مہذب ممالک کا شیوہ نہیں۔
ہاں اسکولوں اور بازاروں ، فیکٹریوں ، کمپنیوں کے اوقات میں تبدیلی کر کے ، ہیوی گاڑیوں کو شہر میں داخلے کے لیے وقتِ مقررہ کا پابند کر کے ٹریفک مسئلہ پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ میں کھڑا باتیں سنتا رہا ۔ جب سر خاموش ہوئے تو میں نے گھڑی دیکھتے ہوئے سر سے اجازت چاہی ، سر نے بھی وال کلاک پر نظر ڈالی اور ہاں ہاں کہتے ہوئے اٹھ کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں