’’آوارہ کتّا اور پالتو کتا‘‘

آوارہ اور پالتو کتے میں کیا فرق ہوتا ہے؟
آوارہ کتّا کسی قاعدے قانون اور ضابطے کا پابند نہیں ہوتا،وہ جب چاہے جہاں چاہے گْھومتا پھِرتا ہے۔
کوڑے کَرکٹ سے رِزق تلاش کرتا ہے۔
قصاب کی دکان پر جائے تو چھِیچھڑے کھا لیتا ہے یا بھگا دیا جاتا ہے۔
نالیوں سے گندا پانی پیتا ہے۔
لوگ اْسے پَتھّر مارتے ہیں۔
زخمی ہو جائے تو کوئی پوچھنے والا نہیں۔
زخم کو چاٹ چاٹ کر مْندمِل کرتا ہے۔
مہینوں لنگڑاتا رہے لوگ پرواہ نہیں کرتے۔
بارِش میں چھت اور تیز دْھوپ میں سایہ تلاش کرتا پھِرتا ہے۔
سَرد راتوں میں بدن سْکیڑ کر کہیں دْبکا رہتا ہے۔
لڑکے بالے اس کی گردن میں رَسّی ڈال کر رگِیدیں تو کوئی جْرم نہیں۔
اِنتظامیہ اْس کی نَسل کْشی کے دَرپَے رہتی ہے۔
کبھی اْسے زہر دے کر مارا جاتا ہے اور کبھی گولی مار کر۔
تیز رفتار گاڑی تلے آ جائے تو اْس کی لاش سڑکوں شاہراہوں پر پڑی پھْولتی رہتی ہے،لوگ پاس سے ناک پر ہاتھ رکھ کے گزرتے ہیں۔
وہ کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا اور کوئی اْسکا مالک نہیں ہوتا۔
کوئی اْسکا والی وارث نہیں ہوتا۔
کوئی اْس کا خیال رکھنے والا نہیں ہوتا۔
کوئی اْس کی فِکر کرنے والا نہیں ہوتا۔
کسی کو اْس پر فَخَر نہیں ہوتا۔
کسی کو اْس سے غَرض نہیں ہوتی۔
کوئی اْس سے ہمدردی نہیں کرتا ۔
وہ بھونکتا ہے تو لوگ تنگ ہوتے ہیں۔
وہ چیختا ہے تو لوگ ہنستے ہیں۔
وہ بے نام ہوتا ہے۔
اْسکا کوئی نام نہیں ہوتا۔
وہ بس کْتّا ہوتا ہے۔
ایک آوارہ کْتّا۔
پالتْو کتّے کے گلے میں زنجِیر ہوتی ہے۔
اْسکا ایک مالک ہوتا ہے جس کے طَے کردہ قواعِد و ضوابِط اْس پر لاگو ہوتے ہیں
اْسکی آزادی محدْود ہوتی ہے۔
اْسے عزت سے سْتھرا رِزق ملتا ہے اور بیماری میں علاج مْیَسّر ہوتا ہے۔
اْسے گَرمی میں ٹھَنڈک اور سَردی میں حرارت پہنچائی جاتی ہے۔
اْسے مکمل تحفظ دیا جاتا ہے اور اْس کی جان بچا بچا کر رکھی جاتی ہے۔
اْسے باقاعدگی سے نِہلایا دھْلایا جاتا ہے۔
اْس کی نسل اہتمام سے بڑھائی جاتی ہے۔
مر جائے تو افسوس کیا جاتا ہے، سوگ منایا جاتا ہے اور دفنایا جاتا ہے۔
اْس سے محبت کی جاتی ہے۔
اْس پر فخر کیا جاتا ہے۔
یہ بھونکتا ہے تو مالک خوش ہوتا ہے، کاٹے تو مالک کا سینہ چوڑا ہو جاتا ہے۔
اْسکی شناخت ہوتی ہے، اْسکا ایک نام ہوتا ہے، یہ بے نام نہیں ہوتا۔
یہ کتّا نہیں ہوتا۔
یہ ٹومی ہوتا ہے۔
پیارا ٹومی۔
آوارہ اور پالتْو کْتّے میں فرق محض مالک اور اْس کے طَے کردہ قواعِد و ضوابِط کی پابندی کا ہے۔
پالتْو کْتّے کو مالک کی طرف سے تمام نعمتیں اس لیے میسر ہیں کہ وہ کسی کو مالک مانتا ہے اور اَپنے مالک کے طے کردہ قواعِد و ضوابِط کا پابند رہتا ہے ورنہ اْس میں اور ایک آوارہ کْتّے میں کوئی تفریق نہیں۔
اگر ہم بھی کسی کو اَپنا مالک سمجھتے ہیں اور اس کے طَے کردہ قواعِد و ضوابِط کے پابند ہو کر زندگی بسَر کر رہے ہیں تو ہمارا مالک ہماری پوری ذمہ داری لے گا اور ہم عزت سے جئیں گے ورنہ ہمارے اور ایک آوارہ کْتّے کے طرزِ حیات میں کچھ فرق نہیں۔
یہی تلخ حقیقت ہے۔
دم ہے تو ہمت کر کے پی لیجیے۔

حصہ
mm
پیشے کے لحاظ سے الیکٹریکل انجینئر ہیں۔ مذہب، سیاست، معاشرت، اخلاقیات و دیگر موضوعات پر لکھتے ہیں۔ انکی تحریریں متعدد ویب سائٹس پر باقاعدگی سے پبلش ہوتی ہیں۔ درج ذیل ای میل ایڈریس پر ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے nomanulhaq1@gmail.com

جواب چھوڑ دیں