ہر بچہ ہوتا ہے خاص

یہ انیس سو پچانوے کی بات ہے میرے والدین نے مجھے بہت محبت اور چاہت کے ساتھ اسکول میں داخل کروایا ۔ جس اسکول میں داخل کروایا وہ محلے کا سب سے شاندار اسکول تھا  کلاس نرسری میں داخلہ ہوا ۔ اسکول کا پہلا دن میری زندگی کا سب سے تکلیف دہ دن تھا ۔ میں روزانہ روتے ہوئے اور پٹتے ہوئے اسکول جاتا ۔ اسکول کے دروازے پر ایک علیحدہ تماشہ لگتا جب ایک طرف سے میں امی کو پکڑ کر کھینچتا اور دوسری طرف سے میری ٹیچر مجھے گھسیٹتے ہوئے لے جاتیں ۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا ۔ جب کچھ بڑا ہوا تو عزت نفس کے ہاتھوں مجبور ہو کر روتے ہوئے نہ سہی لیکن غمزدہ دل اور بھری آنکھوں کے ساتھ اسکول جاتا رہا ۔ حتی کہ کلاس میٹرک بھی میں نے بادل نخواستہ پڑھی ۔ جس پر میری والدہ نے کہا بیٹے اتنے بڑے ہوگئے ہو کبھی تو اسکول خوشی سے چلے جاؤ  میں نے حیرت سے پوچھا مجھے وہ بچہ دکھا دیں جو خوشی سے اسکول جاتا ہو؟ اس سب میں مزے کی بات یہ تھی کہ کلاس نرسری میں میرا چوتھا نمبر تھا  ، کلاس کے ۔ جی ون میں پہلی ، کے۔ جی ٹو میں دوسری ، ون میں پہلی ، ٹو میں پہلی ، تیسری جماعت میں پہلی ، چوتھی جماعت میں دوسری جبکہ پانچویں میں تیسری پوزیشن تھی ۔ پھر میرا داخلہ حفظ میں ہوگیا  جبکہ کلاس نہم اور دہم میں اے ۔ ون گریڈ تھا ۔ میری والدہ کو میری دوسری اور تیسری پوزیشن آنے پر کبھی خوشی نہیں ہوئی وہ افسردہ رہتیں کہ تم پہلے نمبر پر کیوں نہیں آئے؟ آپ یقین کریں میں صرف اپنی والدہ کے خوف اور لوگوں میں عزت کی خاطر پڑھتا تھا ۔ مجھے اس حد تک اکتاہٹ ہو چکی تھی کہ کلاس میٹر ک کے طلبہ و  طالبات کے اعزاز میں جب اسکول میں تقریب سجی تب بھی میں ” کوچنگ ” میں تھا کیونکہ پھر ایک امتحان در پیش تھا ۔ یہ صرف میری کہانی نہیں ہے بلکہ پاکستان اور پاکستان جیسے سینکڑوں ممالک کے بچوں کی یہی کہانی ہے ۔ ہم وہ ظالم ترین لوگ ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے نماز جیسی عظیم عبادت  سات سال کی عمر میں بھی ترغیب کے درجے میں رکھی ہے اور ہم سخت ترین سردی ہو یا بدترین گرمی بچے کو دس ، دس اور پندرہ  ، پندرہ کلو کا بستہ دے کر اسکول  بھیج دیتے ہیں ۔ جن معصوم بچوں کو ماں کی گرمی اور پیار چاہئیے ہم انھیں سخت سردی میں اسکولوں کے حوالے کردیتے ہیں ۔ گھنٹوں اسکول کی وین میں خوار ہو ہو کر جب وہ بستہ لادے گھر آتے ہیں تو  کھا نا ٹھونس کر  انھیں واپس ٹیوشن سینٹر روانہ کردیتے ہیں ابھی وہ وہاں سے واپس نہیں آپاتے کہ قاری صاحب یا تو گھر پر ہوتے ہیں یا بچے کو مدرسے جانا ہوتا ہے ۔ہم کیا مخلوق ہیں کہ جس کو اللہ نے بچہ بنایا ہے ہم اس کے بچپن کو گھونٹ گھونٹ کر مار دیتے ہیں ۔ میں پڑھنے  کا بے انتہا شوقین تھا آج بھی ہوں لیکن مجھے اسکول کے نصاب سے نفرت تھی ۔ میں نے  اسکول کی کتاب  کبھی گھر پر نہیں کھولی کیونکہ یا تو وہ سوالات کے نشان لگانے کے لئیے ہوتی تھی یا رٹا  مارنے کے لئیے ۔ ہم بچوں کو ڈنڈے کے زور پر پڑھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اسکول ” پڑھنے ” کی جگہ نہیں ہے دنیا کے مہذب ملکوں میں اسکول ” سیکھنے ” کی جگہ ہے ۔ حضرت علیؓ نے فرمایا : ” جس میں ادب نہیں ، اس میں دین نہیں ” ۔ میں نے سب سے زیادہ خود غرض معاشرے میں ان بچوں اور لوگوں کو دیکھا ہے جو پوزیشنز لیتے ہیں ۔ ہم بچپن سے بچے کو سکھاتے ہیں کہ تم نے ” اول ” آنا ہے ۔ ساری کلاس پیچھے رہ جائے ، کسی کو کچھ آتا ہو یا نہ آتا ہو کسی کی مدد کرنے ، ہوم ورک کروانے اور کام مکمل کروانے کے چکر میں تم نے پیچھے نہیں رہنا  ہے ۔ ہم بچپن سے بچے کو سکھاتے ہیں جب تک کوئی ” دوسرا ” اور ” تیسرا ” نہیں ہوگا  تم ” پہلے ” نہیں ہوسکتے ۔ کوئی گریگا  تو تم اٹھو گے ۔ ہمارا معاشرہ ، ہمارے اساتذہ ، حتی کے والدین تک اپنے بچوں سے ” مشروط ” محبت کرتے ہیں ۔ اس بچے کی بات سنی جاتی ہے ، اس کو کھلونے دلائے جاتے ہیں ، اس کو زیادہ پیار کیا جاتا ہے جو کلاس میں پوزیشن لیتا ہے  ، اچھے نمبرز اور اعلی گریڈز لیتا ہے ۔ اس کو بھی پتہ چل جاتا ہے اور  جو نہیں لیتا اس کو بھی کہ اصل قدر تو گریڈ کی ہے ، نمبرز اور پوزیشن کی ہے میری تو نہیں ہے ۔ اگر مجھ سے محبت ہوتی تو ہر حال میں ہوتی ، پیار ہوتا تو ہر حال میں ہوتا  ، تحفے ملتے تو ہر حال میں ملتے ۔ ہم بچوں کو بچپن سے ” خود غرض ” بناتے ہیں ۔ ہم صرف انھیں اپنی دنیا میں رہنا سکھاتے ہیں ، دوسروں کو  پیچھے کر کے آگے بڑھنا اور دوسروں کو گرا کر خود اٹھنا سکھاتے ہیں ۔ جب میں اسکولوں کے باہر بڑے بڑے اے – ون گریڈز کے بورڈز اور تصویریں دیکھتا ہوں تو مجھے اس گلے سڑے سسٹم سے گھن آتی ہے  کیونکہ مجھے اسکول کے باقی بچوں کا ترس آتا ہے  جن کو ہم نے ” چھ ” پرچوں کی بنیاد پر ” فیل ” قرار دیا ہے ۔ ہم نے ان کی صلاحیتوں کو  محض ” تین گھنٹے ” میں ناپنے کی کوشش کی ہے ۔ ہم نے  ” خلیفۃ اللہ فی الارض ”  ، ” مسجود ملائک ” اور ” اشرف المخلوقات ” کو کوڑھ مغز ، نالائق  اور نکمے جیسے القابات دئیے ہیں ۔ میں حیران ہوتا ہوں جب بڑے بڑے اسکولوں کے قابل اساتذہ کرام اور پرنسپل صاحبان کہتے ہیں کہ ہمارے اسکول کی خصوصیت یہ ہے کہ ہمارا ہر ” بچہ  ” پاس ” ہوتا ہے ۔ میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کیا ہر بچہ ” خوش ” بھی ہوتا؟ اگر آپ کے اسکول کے بچے بھی ” جہانزیب راضی ” کی طرح پوزیشن لیتے ہیں تو بد قسمت ہے آپکا اسکول ۔ آپ بچے کو خوش رکھنے کی کوشش کریں ، زندگی کے امتحانات مین وہ خود ہی ” پاس ” ہوجائیگا ۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ نمبرز اور اعددا و شمار کا گورکھ دھندہ کتنے دن تک لوگوں کے ذ ہن میں رہتا ہوگا لیکن مجھے یہ ضرور معلوم ہے انسان کا اخلاق ، کردار ، احسان ، محبت سے بات کرنا ، لوگوں کا خیال کرنا ، دوسروں کے کام آنا اور مدد کرنا ہمیشہ یاد رہتا ہے ۔ جب بچہ اسکول سے آئے آپ اس سے یہ نہ پوچھیں کہ آج اسکول میں کیا  ” پڑھا ” ؟ آپ پوچھیں آج اسکول میں کیا ” سیکھا ” ؟ اس سے پوچھیں کہ آج اسکول میں لنچ کس کے ساتھ شئیر کیا ؟ آج اپنی پاکٹ منی میں سے کس کی مدد کی ؟ کسی بچے کو ہوم ورک مکمل کروایا ؟ کوئی بچہ جو کام میں پیچھے رہ گیا تھا اسکا ہاتھ بٹایا ؟ اس بنیاد پر اسکو انعام دیں ، محبت دیں اور پیار کریں بخدا وہ بے غرض اور عظیم معاشرہ تشکیل پائے گا کہ سب سکون ، چین اور محبت کے ساتھ زندگی بسر  کرینگے ۔بچے کو آداب سکھائیں ۔ صفائی اور کھانے کے آداب ، بڑوں کی عزت اور چھوٹوں کا احترام سکھائیں ۔ اس کو زندگی کا مقصد بتائیں ۔ خود ٹی – وی کے حوالے ہو کر بچوں کو اسکول اور ٹیوشن سینٹرز کے حوالے نہ کریں ۔ یقین جانیں دنیا کا کوئی اسکول اور کوئی ٹیوشن سینٹر انھیں آپ سے زیادہ پیار نہیں دے سکتا ۔ آپ اپنی اولاد پر جتنا پیسہ لگاتے ہیں اس کو آدھا کردیں اور اور ان کے ساتھ اپنے وقت کو دگنا کردیں ۔ آپکا بچہ ہیرا بن کر چمکے گا ۔ انھیں کتابوں سے دوستی سکھائیں موبائل سے نہیں ، انھیں علم کا پیاسا بنائیں کارٹونز کا نہیں ۔ خدارا ! اپنے بچوں سے محبت کریں عملی محبت یہ آپکی جنت ہیں ، یہ اس قوم کا سرمایا ہیں ۔ ان سے پیار کریں ۔ ہر بچہ خاص ہوتا ہے سینکڑوں خوبیوں کا مجموعہ ہوتا ہے اس کی اسی خوبی کو تلاش کریں ، نکھاریں ، سنواریں ۔ کامیاب ہیں وہ اساتذہ جو بچوں کو کھوجنا جانتے ہیں ۔ ان کی صلاحیتوں کو پہچان کر آگے لاتے ہیں ۔ نمبروں کے غلام اور اسیر نہیں ہوتے ۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں