شعور کی کمی یا جادوتعویز

’’میں لٹ گئی میں برباد ہو گئی ۔ مجھے خطیب صاحب سے ملنا ہے۔میں ابھی ہی ملوں گی۔ وہ نماز پڑھ کر مسجد میں ہی بیٹھتے ہیں۔‘‘ایک ضعیف خاتون جامع مسجد کے گیٹ پر کھڑی امام صاحب سے ملنے پر اصرار کر رہی تھیں اور بضد تھیں کہ انہیں اندر جانے دیا جائے۔ جب کہ مسجد کے خادم باہر ہی روکنے کی کوشش کر رہے تھے کہ امام صاحب باہر ہی آئیں گے ۔ مگر وہ نہ مانی اور اپنے بڑھاپے کا فائدہ اٹھا کر مسجد کے گیٹ سے اندر برآمدے میں بیٹھ گئیں۔ اشراق کے بعد کا وقت تھا۔ امام صاحب کو اطلاع دی گئی تو فرمایا : خاتون سے آنے کی وجہ دریافت کی جائے۔ اماں! آپ کیوں آئی ہیں اور کیا کام ہے؟ خادم مسجد نے پوچھا۔ تو اماں نے روتی صور ت بنائی اوردکھڑے شروع کر دیے، ساتھ ہی ماتھے پر ہاتھ مار مارکر اپنے مقدر ، نصیب کو رونے لگیں۔ مجھ پر جادو ہوا ہے، مجھ پر اثرات ہیں۔ میری بہو جادوگرنی ہے، مجھ پر میرے بیٹے پر اس نے جادو کروایا ہے۔ وہ بنگالی بابا سے تعویذ لائی تھی۔ میرا بیٹا مجھ سے چھین لیا ہے۔مجھے خطیب صاحب تعویذ لکھ کر دیں۔ مجھ پر دم کریں۔
نام نہاد پیر بابوں کے تعویذات پر ہمارا اعتقاد حد درجہ ہے کہ فلاں بابا ایسا تعویذ دیتے ہیں کہ بہو ساس کی وفادار بن جاتی ہے۔ شوہر بیوی کا غلام بن جاتا ہے۔ ان کا دیا ہوا تعویذ اتنا باکمال ہوتا ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کی بجائے جاہل عاملوں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ جن کا کہنا ہوتا ہے کہ بھوت پریت، چڑیل، چھلاوہ، چھلیڈا، وڈاوا اتارنا ، جن بوتل میں بند کرنا ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ حب اور بغض کے فیتے جلانا، آٹے کی پتلیوں میں سوئیاں گاڑ کر دشمنوں کو ایذا پہنچانا، چور پکڑنے کے لیے لوٹا گھمانا، اولاد کا نہ ہونا، دست غیب سے یہ سارے کام فی سبیل اللہ کیے جاتے ہیں ۔ اور لوگ سہانے خواب دیکھ کر ان کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں۔اماں تو پھر بھی ایک معتبر عالم دین کی خدمت میں حاضر ہوئی تھیں۔
یہ عام سی بات ہے اور معاشرے کی اکثریت اس پریشانی میں مبتلا ہے۔ساس ، بہو سے نالاں ہے تو بہوساس سے ، شوہر بیوی میں اتفاق نہیں، ناچاقی و بے سکونی سے کاروبار زندگی معطل پڑا ہے۔اتنے شوق سے آنکھوں میں ہزاروں سپنے سجائے دھوم دھام سے بیٹے کی شادی کرتے ہیں۔ڈھول کی تھاپ پر بنت حوا کو نچا کر جھوم جھوم کر موج و مستی میں مست اللہ تعالیٰ کے حکموں، نبی ﷺ کے طریقوں کو روند کر خوشی مناتے ہیں ۔ رقص و سرور کی محافل سجاتے ہیں ۔ لاکھ خوشیاں ، رنگ رلیاں منا کر شیطان کی رضا مندی پا کر بہو کو گھر لاتے ہیں۔ مگر وہ چند ہی دن بعد بری ہوجاتی ہے۔ لاکھ امنگوں کے ساتھ داماد بنایا جاتا ہے ، خوش ہوتے ہیں کہ بیٹی کو اتنے اعزاز سے نوازا گیا، خوب خوشی منائی گئی مگر وہ تمام خواہشوں پر پانی پھیر دیتا ہے۔ اور آخری نقطہ جو ہماری پکڑ میں آتا ہے وہ ہوتا ہے ’’تعویذ پلیتے۔‘‘ کہ بہو نے تعویذ کروا لیے، بیٹے کو گھول کے پلاتی ہے۔ بیٹا ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔ساس تعویذ کرواتی ہے اور میری خوشیوں میں بھنگ ڈالتی ہے، اپنے بیٹے کے کان بھرتی ہے اور وہ میری سنتا ہی نہیں۔
ساس کے شکوے بھی کسی حد تک ٹھیک ہوتے ہیں کہ بیوی کے آتے ہی جنت ماں کے قدموں سے سرک کر بیوی کے قدموں میں آجاتی ہے ۔ پھر ماں بیٹے کا اسی طرف کھچاؤ دیکھ کر سوچتی ہے بہو نے تعویذ کروالیے۔ اسی طرح بیٹا بعض اوقات بیوی کی حق تلفی بھی کر بیٹھتا ہے جس سے بیوی ساس سے بدظن ہو جاتی ہے۔ دراصل ہوتا یہ ہے کہ ہم معاشرے میں دین کے معیار کو پس پشت ڈال کر کلچر کے معیار کو ترجیح دیتے ہیں۔ کیوں کہ کلچر الگ معیار رکھتا ہے ، دین الگ معیار رکھتا ہے۔کلچر آکریہ معیار رکھتا ہے کہ لڑکے لڑکی کو بیاہنا چاہتے ہو تو دیکھو بینک بیلنس کتنا ہے؟ کوٹھی بنگلے کتنے ہیں؟ کتنی بڑی اسامی ہے؟ کتنی بڑی سوسائٹی سے تعلق ہے؟ وہ خوبصورت و حسین ہے؟کتنی آبائی دولت ہے؟ جب کہ دین آکر یہ معیار رکھتا ہے کہ دیکھو اس میں شعور کرنا ہے؟ کس اخلاقی سطح پر ہے؟ کتنا دین دار ہے؟ لیکن جب ہم دین کے معیار کو ہٹا کر کلچر کے معیار پر اپنی اولاد کو بیاہتے ہیں پھر پچھتاتے ہیں۔ کیا ہوا؟ قسمت پھوٹ گئی۔ کیا ہوا ؟ جادو ٹونا ہوگیا، تعویذ پلیتے ہو گئے۔ تعویذ پلیتے نہیں ہوئے ناآگاہی ہوگئی تھی۔ لاشعوری ہو گئی تھی جو خود اپنے ہاتھوں اپنے بچوں کی زندگیوں کو برباد کیا۔
جب ہماری ترجیح کلچر و دنیا داری ہو گی تو مصائب ٹوٹ پڑیں گے،طرح طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔اگر ہماری ترجیح دین داری ہوگی۔ تو اللہ کا خوف بھی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں کو نبی ﷺ کے طریقوں کو فوقیت دیں گے تو پھر اللہ تعالیٰ آسانیاں مقدر فرمائیں گے۔ پھر بیاہا ہوا لڑکا خیال رکھے گا کہ یہ میرے والدین ہیں۔ ان کے حقوق سب سے زیادہ ہیں ۔ پوری دنیا کی آسائشیں و آرائشیں گھول کر ماں کو پلا دی جائیں تو ایک قطرہ پلائے ہوئے دودھ کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ حکم ہے کہ انہیں اف تک نہ کہنا چہ جائیکہ ان کی بے ادبی و گستاخی۔ ساتھ ہی بیوی کا بھی خیال رکھے گا کہ یہ بھی اللہ کی بندی ہے ۔ مولا خود سفارش کر رہے ہیں کہ ’’اچھے طریقے سے رکھنا‘‘ اور لڑکی بھی خدا تعالیٰ سے ڈرنے والی ہوگی تو مستحضر رکھے گی کہ میرا مجازی خدا میرا شوہر ہے۔ اگر خدا تعالیٰ کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنے کو حکم ہوتا تو بیوی کو ہوتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ پھروہ خیال رکھے گی کہ میرے ساس سسر میرے حقیقی والدین کی طرح ہیں۔ ان کی ضروریات کا خیال رکھنا ساتھ ہی شوہر کے حکموں کی بجاآوری کو یقینی بنائے گی۔ ساس بہو کو اپنی حقیقی بیٹی کا درجہ دے گی تو قرینہ قیاس ہے کہ گھر پرسکون رہیں گے۔ ساس کو کہیں تعویذ اتروانے نہیں جانا پڑے گا ۔ بہو کو ساس کے لیے چینی دم نہیں کروانا پڑے گی۔

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں