یہ دھرنا آخری نہ سمجھا جائے

اسلام آباد کا دھرنا اپنے انجام کو پہنچا وہ تمام مطالبات مان لیے گئے جو دھرنا جواز بنے لیکن مدعا یہ ہے کہ جو مطالبات بیس روز کے بعد مانے گئے وہی مطالبات اگر پہلے مان لیے جاتے تو کیا قباحت تھی؟

دھرنا ہمارے کلچر، ہماری تاریخ میں ایک نیا باب رقم کرتا جارہا ہے اور اس کے ساتھ ہی جہیز میں آیا کنٹیر کا آسیب  دھرنے کے آغاز سے ہی عوامی راستوں پر کسی پچھل پیری کی طرح کھڑا کر دیا جاتا ہے۔

یہ اعصاب شکن معاملات جڑواں شہروں پر پہلی بار مسلط نہیں ہوئے… بلکہ تیسری بار  اسلام اباد کی آنکھ  ایسا منظر دیکھ رہی ہے اور اب کی بار 22 دنوں تک اسلام آباد کسی فالج زدہ مریض کی طرح بے دست و پا رہا .. لیکن  یہ آخری بار نہیں ہے…. یہ بھی ذہن میں رہے۔

ان دھرنوں میں جو سب سے زیادہ منفی پہلو سامنے آیا وہ انسان دشمن رویے ہیں جو ایک عام شہری، مزدور، طالب علم، والدین سے لے کر معصوم بیمار بچوں تک سب بھگت رہے ہیں اس سے زیادہ بدترین رویہ اور کیا ہو گا کہ ایمبولینس تک گزرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔

طلبہ کی  تعلیمی اداروں تک رسائی محال، بروقت گھر نہ پہنچنے پر جوان بیٹی کی ماں جن خوفناک اندیشوں میں گھرتی ہے اس کا اندازہ ایوان میں بیٹھے شاید کرنا نہیں چاہتے

پرچے ملتوی کر کے طلبہ کوذہنی کوفت کا شکار کیا جاتا ہے مگر اس کی روک تھام کے لئے کچھ نہیں کیا جاتا
دوسری طرف ہمارا سماج ان کچے اذہان والے مستقبل پر غلط اثرات مرتب کر رہا ہے کہ اپنی بات منوانے کے لیے، رٹ کیسے قائم کی جائے… کس پیک تک ہٹ دھرمی لے جائی جائے وہ ابھی سے اس کی تربیت بڑے احسن طریقے سے  سیکھ رہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ دھرنے اہم ہیں؟ جواب ہاں میں ہے، تو پھر اشرافیہ کی بڑی بڑی ہاؤسنگ سوسائٹی کے گرد کیوں نہیں لگائے جاتے؟ کسی وڈیرے، چوہدری کے لمبے چوڑے محلوں کے قریب بنی بڑی شاہراہوں پر کیوں نہیں لگائے جاتے؟ یہاں پر کسی غریب کا ٹھیلہ نہیں لگتا، یہاں پر لوگ پیدل سفر طے کرکے مین سڑک پر نہیں آتے، یہاں پر عام پبلک ٹرانسپورٹ بھی نہیں چلتی، یہاں پر اک غریب کی پہنچ آسان نہیں، آخر یہ قیامتیں مصروف شاہراہوں، عام شہریوں کی گزرگاہوں کو روک کر ہی کیوں برپا کی جاتی ہیں؟

کیوں ہر بار عام شہریوں کے معاملات زندگی تباہ کر کے دھرنے کی داغ بیل اس طرح ڈالی جاتی ہے کہ پوری دنیا ہمارا تماشا دیکھتی ہے کہ کس طرح چند ہزار لوگ رٹ آف دی اسٹیٹ چیلنج کرتے ہیں اور پوری قوم کو بچہ جمہورا بنا کر گھومنے پر مجبور کر دیتے ہیں

ہمارے جمہوری نظام میں یہ ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے کہ چند ہزار کا جتھ بردار کسی بھی شاہراہ کو بند کر کے اپنی رٹ چیلنج کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔

مگر ہماری جمہوری حکومت پہلے روٹھی ہوئی محبوبہ جیسا کردار ادا کرتی ہے، ڈراتی دھمکاتی ہے،پھر اپنے قاتل ناز و انداز دکھا کر بالآخر ضدی محبوب کی مان لیتی ہے

مگر اس دوران، جو عوامی نقصان، اموات، توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ، اور دھرنے خاتمے کے بعد جو جا بجا کوڑا کرکٹ، غلاظت، گندگی ہوا اس پر مندی مندی آنکھوں سے  نیرو کی طرح  بانسری بجاتے ہوئے ایک دوسرے پر الزام در الزام کا نیا سلسلہ شروع کر دیتی ہے، گویا ایک نوا کٹا کھل جاتا ہے

اسے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایک کرائے کی دکان چلانے والا چند سو روپے کی دیہاڑی نہیں لگا سکا یا عام لوگوں کے کاروبارِ زندگی تنگ ہوگئے، یا کوئی بیمار ایمبولینس میں ہی چل بسا… اسے اس سب سے کچھ بھی لینا دینا نہیں۔

یہ جو سڑک بند کرنے کی نفسیات ہمارے لوگوں میں جڑ پکڑ رہی ہے، اس کا سدباب کرنے کے لیے حکومت آخر اپنا لائحہ عمل ترتیب کیوں نہیں دے رہی؟ہر بار یہ سوال ذہنوں میں رینگتا ہے اور تکلیف کا باعث بن گیا ہے۔

دھرنے کا جو بھی جواز ہو، مگر اس کے لیے راستے بند کر دینا کیا اسلامی تعلیمات کے مطابق جائز ہے؟ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تو یہ تعلیمات نہیں ہیں آپ ﷺنے تو کبھی راستہ بند نہیں کیا، کبھی راستے یا گلی کے درمیان نہیں چلے، بلکہ راستے کا احترام اور اہمیت سکھاتے ہوئے راستے کے پتھر، رکاوٹ ہٹا کر راستہ کھولا، ہم سب عاشق رسول زبانی کلامی بنتے ہیں، مگر اپنے محبوب کی کوئی صفت ہم نے نہیں اپنائی نہ سیکھی، نہ سمجھی، ہمارا سماج مزدور کو نامناسب اجرت دے کر اس کے چولھے کی آخری سانس تو کھینچتا ہی رہا مگر ان دھرنا ٹرینڈ نے تو اس کی مزدوری کی آس بھی چھین لی

کیا ہم حالات جنگ کی کیفیت کا شکار نہیں ہو گئے؟
ایک جمہوری معاشرے میں اپنے حق کے لئے آواز بلند کرنے کی آزادی ہونی چاہیے ہر فرد کو شخصی آزادی ہونی چاہیے، رائے کی آزادی ہونی چاہیے، بجا… اپنے مطالبات کے لیے دھرنے بھی کریں، احتجاج بھی کریں مگر ہڑتالیں نہ کروائیں، لوگوں سے زبردستی ان کے کاروبار، ٹھیہ، ٹھیلے، دکانیں، تعلیمی ادارے،راستے  بند نہ کروائیں ہڑتال کی کال دینا دانشمندانہ اقدام نہیں ہے۔

حکومت احتجاج روک نہیں سکتی تو کم از کم اس کے لیے مخصوص میدان مختص کر دے تاکہ عام شہریوں کی زندگی متاثر نہ ہو۔ان انسان دشمن رویوں سے اس قوم کی عام عوام کو تباہ کن سوچ کی اس دہانے تک مت لائیں جہاں وہ خود کشی کی بجائے خود کش بمبار بن جائیں۔

ناموسِ رسالتﷺ پر کسی بھی قسم کا کوئی کمپرومائز نہیں ختم نبوت پر ہمارا ایمان ہے مگر اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھیں کہ جانیں قربان کرنی چاہییں، جان لینی نہیں ہے۔مال کی قربانی دینی ہے مگر کسی کا مال و جان کا ضیاع نہیں کرنا اپنے وطن کو تحفظ دینا ہے اس کی مٹی کو پامال نہیں کرنا احتجاج کریں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ سامنے کھڑی بائیک یا رکشے، گاڑی کو آگ لگا دیں۔ہم وہ قوم ہیں جس کے تمام مذہبی تہوار، قومی تہوار، جلسے جلوس، موت مرگ سے لے کر ولیمے تک سارے معاملات سڑکوں پر طے ہوتے ہیں آخر ہم کب ٹیبل ٹاک کی افادیت کو سمجھ کر باوقار قوموں کی طرح معاملات سلجھانا سیکھیں گے؟ ہم ترقی یافتہ تو نہ بن سکے لیکن تہذیب یافتہ تو بن سکتے ہیں۔

حصہ
سائرہ فاروق ایم ایس سی کی طالب علم ہیں اور مختلف سماجی مسائل پر لکھتی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں