لہورلہور ہے

’’کڑاہی کھالو کڑاہی‘‘
’’پائے چھولے کھاؤ بھائی‘‘
یہ تو بڑی خوبصورت فوڈ اسٹریٹ ہے اور یہاں تو سب شاید ہمارے ہی انتظار میں بیٹھیں ہیں۔’’ارے نہیں یہ زندہ دلانِ لاہور ہیں یہ اپنے مہمانوں کو یوں ہی خوش آمدید کیا کرتے ہیں‘‘۔
جی ہاں ہم موجود ہیں پاکستان کی اس سب سے بڑی فوڈ اسٹریٹ پر جو لاہور میں واقع ہے۔لاہور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے اپنے اندر بہت رعنائی رکھتا ہے یہ شہر ماضی میں بہت سی تہذیبوں کا مرکز رہا ہے۔گو کہ کہنے کو تو یہ شہر راوی کے کنارے واقع ہے پر دروغ برگردن راوی اس شہر کی حدود بہت زمانہ پہلے پطرس کے زمانے میں منسوخ کر دی گئی تھی چنانچہ اس شہر کے چاروں طرف لاہور ہی واقع ہے جبکہ درمیان میں موجود راوی جس نے بہنے کا شغل عرصہ دراز سے ترک کردیا ہے اس پر بھی دریا ہونے کا محض الزام ہی رہ گیا ہے۔بہرحال ہماری کہانی کا آغاز کراچی کے انٹرنیشنل ائیرپورٹ سے ہوتا ہے جہاں ہم حکومت کی فری وائی فائی سروس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لاہور کی تاریخ کا بغور مطالعہ کررہے ہیں آپ بھی پڑھیے اور سر دھنیے۔
اس شہر کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں عوام میں مشہور ہے لیکن اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ رام چندر جی کے بیٹے لو نے یہ بستی آباد کی تھی۔ قدیم ہندو ’’پرانوں‘‘ میں لاہور کا نام’’لوہ پور‘‘ یعنی لوہ کا شہر ملتا ہے۔ راجپوت دستاویزات میں اسے ’’لوہ کوٹ‘‘ یعنی لوہ کا قلعہ کے نام سے پکارا گیا ہے۔ نویں صدی عیسوی کے مشہور سیاح ’’الادریسی‘‘ نے اسے ’’لہاور‘‘ کے نام سے موسوم کیا ہے۔لاہورصوبہ پنجاب کا دارالحکومت اور دوسرا بڑا شہر ہے۔ اسے پاکستان کا ثقافتی، تعلیمی اور تاریخی مرکز اور پاکستان کا دل اور باغوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ یہ شہر دریائے راوی کے کنارے واقع ہے۔ اس شہر کی آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے ۔ لاہور کا شمار دنیا کے قدیم اور اہم ترین شہروں میں کیا جاتا ہے۔ زندہ دلان لاہور کے روایتی جوش و جذبے کے باعث اسے بجا طور پر پاکستان کا دل کہا جاتا ہے۔ مغل شہنشاہ جہانگیر کی ملکہ نورجہاں نے لاہور کے بارے میں کہا تھا۔
لاہور رابجان برابر خریدہ ایم جاں دارایم و جنت دیگر خریدہ ایم
لاہور کی انتہائی قدیم تاریخ ہزاروں سال پر پھیلی ہوئی ہے۔ پرانوں کے مطابق رام کے بیٹے راجہ لوہ نے شہر لاہور کی بنیاد رکھی اور یہاں ایک قلعہ بنوایا۔ دسویں صدی تک یہ شہر ہندو راجاؤں کے زیرتسلط رہا۔ گیارہویں صدی میں سلطان محمود غزنوی نے پنجاب فتح کرکے ایاز کو لاہور کا گورنر مقرر کیا، اور لاہور کو اسلام سے روشناس کرایا۔ شہاب الدین غوری نے 1186ء میں لاہور کو فتح کیا۔ بعدازاں یہ خاندان غلاماں کے ہاتھوں میں آ گیا۔ 1290ء میں خلجی خاندان، 1320ء میں تغلق خاندان، 1414ء سید خاندان 1451ء لودھی خاندان کے تحت رہا۔ سولہویں صدی کے آغاز میں تیموری خاندان کے چشم و چراغ ظہیر الدین بابر نے فتوحات کا سلسلہ شروع کیا جس میں موجودہ ہندوستان پاکستان سمیت کئی علاقے شامل کرکے مغل سلطنت کی بنیاد رکھی جس نے چند سالوں میں لاہور شہر کو اپنے عروج پر پہنچا دیا اس دور میں عظیم الشان شاہی قلعہ بادشاہی مسجد جیسی تعمیرات کی گئیں کہ جو آج بھی لوگوں کو ورطہٰ حیرت میں مبتلا کردیتی ہیں۔اکبر کے زمانے میں یہ مغل سلطنت کا دارالحکومت بھی رہا۔
ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں ابراہیم لودھی کو شکست دی جس کے نتیجے میں مغلیہ سلطنت وجود میں آئی۔ مغلوں نے اپنے دور میں لاہور میں عظیم الشان عمارات تعمیر کروائیں اور کئی باغات لگوائے۔ اکبر اعظم نے شاہی قلعہ کو ازسرنو تعمیر کروایا۔ شاہجہان نے شالامار باغ تعمیر کروایا جو اپنی مثال آپ ہے۔ 1646ء میں شہزادی جہاں آرا نے دریائے راوی کے کنارے چوبرجی باغ تعمیر کروایا جس کا بیرونی دروازہ آج بھی موجود ہے۔ 1673ء میں اورنگزیب عالمگیر نے شاہی قلعہ کے سامنے بادشاہی مسجد تعمیر کروائی۔
لاہور کو ایک تاریخی منفرد حیثیت حاصل ہے جس کا ذکر ہم ان شاء اللہ بعد میں کریں گے کیونکہ ہمارا جہاز اڑنے کوبیتاب ہے چنانچہ ہم تقریباً ایک گھنٹے پی آئی اے والوں کی میزبانی سے لطف اندوز ہونے کے بعد علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر اترے جو پاکستان کا دوسرا بڑا ہوائی اڈا ہے۔ائیرپورٹ سے شہر تک پہنچنے میں 20 سے 25 منٹ لگتے ہیں۔شہر میں ٹرانسپورٹ کے لئے انتہائی آرام دہ بسیں چلتی ہیں۔ شہر پہنچ کر ہم نے ایک ہوٹل میں اپنا سامان رکھا اور شہر دیکھنے باہر آگئے۔ہمارا فقط ایک دن کا ٹور تھا دوپہر کے دو بج چکے تھے ہم نے جلدی جلدی شہر کو دیکھنے کا فیصلہ کیا گو کہ کام مشکل تھا لیکن نا ممکن نہیں خیر سب سے پہلے ہم نے بادشاہی قلعہ کا رخ کیا
سرخ اینٹوں سے بنا یہ عظیم الشان قلعہ دنیا کی بے ثباتی کا درس دیتا ہے کہ کہاں اس کے مکین ایک اشارے پر اپنے مخالفین کو خون میں نہلا دیا کرتے تھے کسی عام آدمی کوان ایوانوں تک رسائی نہ تھی اور آج ہر طرح کے لوگ ان باغیچوں کو اپنے قدموں تلے روندتے چلے جاتے ہیں بادشاہ کی جگہ پر بیٹھ کر تصویریں بنواتے ہیں۔یہاں بارہ دری بھی دیکھی اور دیوان خاص و عام بھی کہ جہاں سے بادشاہ و ملکہ اپنا دیدار کرواتے تھے قلعہ کے عین مقابل ایک گردوارہ تھا جہاں سکھ زائرین بڑی تعداد میں موجود تھے۔یہاں سے باہر نکلنے کے بعد ہم اس کے سامنے موجود مینار پاکستان آگئے۔لاہور کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ قرارداد پاکستان یہاں منظور ہوئی اور اسی کی یادگار میں یہاں مینار پاکستان قائم ہے
یہی وہ قرارداد ہے کہ جو تحریک پاکستان میں ایک سنگ میل ثابت ہوئی ۔پاکستان بننے کے بعد اس جگہ کو بڑی اہمیت حاصل ہوئی۔اس کا ڈیزائن ترک ماہر تعمیرات نصر الدین مرات خان نے تیار کیا۔ تعمیر کا کام میاں عبدالخالق اینڈ کمپنی نے 23 مارچ 1960ء میں شروع کیا۔ اور 21 اکتوبر 1968ء میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔ اس کی تعمیر کی کل لاگت 75 لاکھ روپے تھی۔
بہرحال ہم ٹکٹ لے کر اوپر تک پہنچے وہاں سے نیچے جھانکاتو نیچے چلتی گاڑیاں کھلونوں کی مانند نظر آرہی تھیں،ہم جلدی جلدی واپس نیچے آئے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں