امام الانبیاء ﷺ ۔۔۔بحیثیت شوہر

دنیا میں کسی شخص کی عظمت و رفعت کا اندازہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک اس کی گھریلو زندگی کا جائزہ نہ لیا جائے۔ نبی کریم ﷺ کی خانگی زندگی عمدہ، انتہائی شاندار، اور مثالی تھی۔ آپ ﷺ دنیا کے کامل ترین انسان ، بیک وقت اعلیٰ پائے کے حکمران، سپہ سالار، قاضی، تاجر، اور ساتھ ہی ساتھ کامل شوہر بھی تھے۔ آپؐ کو رب تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے نبی بنا کر بھیجا۔آپؐ کی سیرت طیبہ تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ بحیثیت شوہر آپﷺ کی زندگی پہ نظر دوڑائیں توانتہائی عمدہ آبگینوں سے مزین ہے جو کہ تمام شوہروں کے لیے رول ماڈل ہے۔ مختلف ادوار میں مختلف قوموں میں عورتوں کی اہمیت مختلف رہی ہے، کسی نے انتہائی کم درجے کی مخلوق سمجھ کر استحصال کیا ، تو بعض نے اتنا بڑھایا کہ خدا بنا دیا۔جب اسلام آیا تو اس نے عورت کو اس کا حقیقی مقام دے کر عزت و احترام سے نوازا، اور تعلیم دی کہ عورت اگر بیٹی ہے تو عزت ، بہن ہے تو ناموس، بیوی ہے تو جیون ساتھی، اور اگر ماں ہے تو اس کے قدموں تلے جنت ہے۔ اسلام نے عورت کو مکمل تحفظ فراہم کر کے قدر و منزلت میں اضافہ کیا۔
نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:’’النکاح نصف الایمان‘‘ نکاح نصف ایمان ہے ۔ قرآن کریم میں فرمایا:’’ترجمہ:تم نکاح کرو عورتوں میں سے جو تمہیں پسند ہو۔‘‘ اختیار دے دیا کہ ایسی جیون ساتھی بناؤ جو زندگی بھر تمہارے ساتھ بہترین زندگی گزارے۔ دین اسلام نے عورت کا وقار بڑھا یا اور بتایا کہ جب انسان شادی شدہ زندگی گزارتا ہے تو بیوی اللہ کا قرب حاصل ہونے میں معاون بنتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ’’ مرد حسن پرست ہوتا ہے اورخاوند سیرت پرست۔‘‘نبی کریم ﷺ نے بحیثیت شوہر ایسی زوجہ کا انتخاب فرمایا جنہیں زمانہ جاہلیت میں ’’طاہرہ‘‘ کہا جاتا تھا، جب لڑکیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا اور عورتیں بازاروں میں بکا کرتی تھیں ا، اس ظلمت کے دور میں بھی انہیں ’’طاہرہ‘‘ کا لقب ملا ،یعنی پاکیزہ زندگی گزارنے والی، لقب سے ہی ان کی عظمت وا ہو جاتی ہے۔ اور جب ان سے نکاح ہوا تو نبی کریم ﷺ سے پندرہ برس بڑی تھیں۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں سیرت و صفات دیکھ کر منتخب فرمایا ۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے :’’دنیا متاع ہے اور اس کی بہترین پونجی نیک عورت ہے‘‘یعنی عورت زندگی کا حسین سرمایہ ہے ۔مزید فرمایا:’’میری فطرت میں بیوی کی محبت رکھ دی گئی ہے۔‘‘ چنانچہ وصیت فرمائی کہ تم اپنی عورتوں کے ساتھ بھلائی کرو۔ حدیث مبارکہ میں آتا ہے :’’تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہے۔‘‘
آپ ﷺ نے بحیثیت شوہر اپنی مثال فرمائی کہ میں تم میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں ۔اب مرد کی اچھائی کا اندازہ اس کے گھر کی زندگی سے لگائیں گے ، اگر وہ اپنی بیوی بچوں کے لیے پیار و محبت کا ماحول بنائے رکھتا ہے تواچھا انسان ، اور اگر مصیبت بنائے رکھتا ہے تو برا انسان۔میاں بیوی جب گھر میں ایک ساتھ ہوں تو انہیں چاہئیے کہ ایک دوسرے سے جتنا پیار و محبت کی زندگی گزاریں اتنا ہی زیادہ اچھا ہے۔نبی کریم ﷺ ازواج مطہرات سے بہت زیادہ محبت فرماتے تھے۔جس کی وجہ سے ازواج مطہرات بھی بعض دفعہ دوستوں جیسا برتاؤ کرتی تھیں۔حالانکہ حضور اقدسﷺ کے برابر کون ہو سکتا ہے؟ مگر آپؐ نے کبھی ازواج مطہرات پر طبعی غصہ و رعب نہیں ڈالا۔ آپؐ بحیثیت شوہر ایسا برتاؤ کرتے تھے کہ جس میں ماتحتی اور دوستی دونو پہلو ملحوظ رہتے تھے۔ اسکا اثر یہ تھا کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہما کبھی کسی بات میں آپؐ کی مخالفت نہیں کرتی تھیں ۔ ادب و تعظیم اس قدر تھا کہ آپؐ کی عظمت کے برابر کسی کی عظمت نہ تھی۔ اور دوستی کا اثر بھی تھا کہ بعض دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ناز کرتی مگر آپ ﷺ پر کبھی ناگوار نہ گزرا۔ ہمارے پاس آپ ﷺ کا اسوہ موجود ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ کیسا سلوک فرماتے تھے، کس دوستانہ و مشفقانہ انداز سے پیش آتے تھے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :’’میں ایک سفر میں آپ ﷺ کے ساتھ تھی ۔ پیدل دوڑ میں ہمارا مقابلہ ہوا تو میں آگے نکل گئی۔ اس کے بعد جب میرا جسم بھار ی ہوگیا ، (اس زمانے میں بھی) ہمارا دوڑ کا مقابلہ ہوا اب کی بار آپ ﷺ آگے نکل گئے تو اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا :یہ تمہاری اس جیت کا جواب ہے۔‘‘ آپؐ کی ازواج مطہرات سے محبت کا یہ عالم تھا کہ:’’ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پیالے میں پانی پی رہیں تھیں ، حضور ﷺ نے دیکھا تو فرمایا:حمیرہ! میرے لیے بھی پانی بچا لینا،( حمیرہ کا معنی ہے سرخ و سفید، چونکہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا کو رب تعالیٰ نے خوبصورتی سے نوازا ہوا تھا، ہر وقت چہرے پر لالی و سفیدی رہتی تھی، تو نبی پاک ﷺ نے پیار سے حمیرہ نام رکھا ہوا تھا، اسی طرح پیار سے ’’عائش‘‘ بھی پکارتے تھے) چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پانی بچایا توآپ ﷺ نے پیالہ اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا: عائشہ! تم نے کہاں پر لب لگا کے پیا؟ امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے جگہ بتائی کہ یہاں سے ، تو آپ ﷺ نے پیالے کا رخ پھیرا اور جہاں سے زوجہ محترمہ نے پانی پیاتھا، آپؐ نے بھی اپنے لب مبارک اسی جگہ لگا کے پانی نوش فرمایا۔‘‘ (صحیح مسلم)
ایک دوسری روایت میں ہے:’’ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جب ہڈی پر سے گوشت کھاتیں تو نبی ﷺ ہڈی لے کر وہاں منہ لگا کر کھاتے جہاں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کھایا۔‘‘(صحیح مسلم)سوچنے کامقام ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی اتنی محبت دے تووہ کیوں اس کے ساتھ خوش نہیں رہیگی؟ شریعت چاہتی ہے میاں بیوی پیار و محبت سے رہیں ۔ایک دوسرے کا خیال رکھیں ۔ شریعت کے دائرے میں اپنے معاملات کو آگے بڑھائیں ۔ آپس میں خوش اخلاقی سے پیش آئیں ۔ خود نبی پاک ﷺ انتہائی خوش مزاج تھے، جب بھی گھر تشریف لاتے تو مسکراہٹ سے بھرا چہرہ لے کرازواج مطہرات کے پاس تشریف فرما ہوتے تھے۔ آپ ﷺ گھر کے کام کاج میں ازواج مطہرات کا ہاتھ بٹاتے تھے،کپڑے پر پیوند لگا لیتے، جوتے کی اصلاح فرما دیتے، پھٹا ہوا ڈول مرمت فرما لیتے تھے۔ (صحیح ابن حبان) ایک مرتبہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضور اقدس ﷺ سے کسی بات پر گفتگو کر رہی تھیں تو حضرت ابوبکر صدیقؓ وہاں پہنچ گئے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ابوبکر! ہم تمہیں ثالث بنالیتے ہیں ۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بات سننے لگے، حضرت عائشہؓ غصہ میں تھیں، تو ناز سے اپنے شوہرنبی پاکﷺ سے کہہ دیا : ’’دیکھیں سچ سچ بات کیجیے گا۔ ‘‘جب انہوں نے یہ بات کہی تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی کو تھپڑمارا ،اور فرمایا: تم اللہ کے محبوب کو کہہ رہی ہو کہ سچ سچ کہنا ۔ خدا کی بندی! وہ سچ نہیں کہتے تو کیا کہتے ہیں ؟ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے والد کے غصہ سے جان بچانے کے لیے حضور اقدس ﷺ کے پیچھے ہو گئیں۔
نبی پاک ﷺ نے فرمایا: ابوبکر! ہم نے تمہیں ثالث بنایا تھا ہم تم سے یہ نہیں چاہتے تھے، پھر فرمایا: آپ بیشک جائیں ہم آپس میں فیصلہ کر لینگے۔ صدیق اکبرؓ واپس ہو گئے، تو نبی کریم ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف مسکرا کے دیکھا اور فرمایا: دیکھا! باپ نے تھپڑ لگایا تو جان میرے پیچھے ہی چھپ کر بچی ۔ یہ تھی آپس کی محبت ، شریعت نے بیوی کو (دائرے کے اندر) ناز نخرے کی اجازت دے رکھی ہے۔ انسان کی طبیعت میں غصہ بھی ہے اور محبت بھی، کسی بات پر غصہ بھی آسکتا ہے ، اورکوئی بات اچھی بھی لگ سکتی ہے۔ کوئی اونچ نیچ ہو جائے تو درگزر کیا کیجئے تا کہ گھر کا ما حول پیار و محبت کا ہی رہے۔ حضورﷺ نے ایک بار عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ’’ اے عائشہ!جب تم غصہ ہوتی ہو ، مجھ سے روٹھ جاتی ہو تو میں سمجھ جاتا ہوں کہ تم مجھ سے روٹھی ہوئی ہو۔امی عائشہؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ، میرے روٹھنے کا آپؐ کو کیسے علم ہوتا ہے؟ فرمایا: جب تم روٹھ جاتی ہو تو کہتی ہو ’’ورب ابراہیم‘‘ ابراہیم کے رب کی قسم ،اس زمانے میں میرا نام نہیں لیتی ، اور جب خوش ہوتی ہو تو کہتی ہو ’’ورب محمد‘‘محمدﷺ کے رب کی قسم، اس زمانے میں میرا نام لیتی ہو۔ دیکھا پیغمبرؐ نے اتنی عزت آبرو والے ہو کر بھی برداشت کیا ناگواری بھی ظاہر نہیں فرمائی۔
آج کل ہمارا یہ معاشرہ کس سمت جارہا ہے؟ اپنی بیوی کو پیار سے کسی نام سے پکارا تو پورے گھر میں مزاق بنا رہتا ہے ، بیوی کا خیا ل رکھا اس کو بیٹھنے کے لیے کرسی رکھ کے دے دی اس کی طرف گاڑی کا دروازہ کھول دیا تو بے غیرت اور اس جیسے اور بہت سے القابات سے نوازا جاتا ہے۔جبکہ حضور اقدسﷺ نے ایک سفر میں اپنی اہلیہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے لیے اونٹ کے قریب بیٹھے اور اپنا گھٹنا مبارک یوں رکھا کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا اس پر پاؤں رکھ کر اونٹ پر سوار ہوں ۔ سو آپ ﷺ کی اہلیہ امی صفیہؓ نے مبارک زینے ( حضور اقدس ﷺ کے گھٹنے مبارک) پر پاؤں رکھا اور اونٹ پر سوا ر ہوگئیں۔ (صحیح بخاری) یہ ایک شوہر کا عمل تھا جو نبی بھی تھے اور شوہر بھی تھے۔ ہمیشہ اپنے گھر والوں کو سکھی رکھا، خوشیاں دیں ، سو ازواج مطہرات بھی آپؐ سے اتنا ہی محبت کرتی تھیں۔
آپ بھی اپنے گھروں کو جنت بنا سکتے ہیں ۔ حضور اقدس ﷺ کے اسوہ کو دیکھ کر ، انکی تعلیمات کے مطابق زندگی کی گاڑی کو چلا کر، گھر کے کام کاج میں گھر کے تمام معاملات میں اپنی بیوی کا ہاتھ بٹا کر، تنقید کی بجائے تعریف کو اپنا کر، شریعت کے دائرے میں آزادی و اختیار دے کر ، آپ بھی خوش و خرم رہ سکتے ہیں ۔

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں