سنہری موقع

میرا کیمرا مین نہایت بیزاری کے ساتھ آکر ڈی ایس این جی میں بیٹھتے ہوئے بولا کہ یار فیض اللہ خان کب ختم ہوگا یہ احتجاج؟

ہم دن ایک بجے سے نمائش چورنگی پر جاری احتجاج کو کور کر رہے تھے۔مزے کی بات یہ ہے کہ ایسے تمام ایونٹس کو میڈیا سے وابستہ اکثر افراد ’خواری‘ کا سبب سمجھتے ہیں۔بظاہر رنگین نظر آنے والے ایسے جلسے ہوں، احتجاج یا طویل سیمینار، کیمرا مین و نمائندگان کی اکثریت اِن سے چڑتی ہے۔

خیر، بات کہیں اور نکل گئی۔ چونکہ وقت کی فراوانی تھی لہٰذا میں نے اپنے کیمرا مین دوست کو بُلایا اور کہا دیکھ بھائی یہ جن ایونٹس کو تم بہت بور، وقت کا ضیاع یا کچھ اور سمجھ کر اپنا لُہو جلاتے ہو پہلے تو ایسا سوچنا ترک کرو، اِس کے بعد سمجھنے کی کوشش کرو کہ شہر میں ہونے والے اِس قسم کے جتنے جلسے، مظاہرے یا کوئی قانون سازی ہو رہی ہو، دراصل یہ سب رقم ہوتی ایک تاریخ کا حصہ ہیں۔

چنانچہ یہ تو ایک سنہری موقع ہے تاریخ کا شاہد بننے کا، اِس میں تو دلچسپی کا سامان بھرا ہے، دستیاب معلومات میں اضافہ کرو، احتجاج کرنے والے عام لوگ ہوں، سیاست دان یا قانون دان، اِن سے اہم سماجی، سیاسی اور قانونی امور پر معلومات حاصل کرو اور تفصیلات میں اضافہ کرو۔ تمہاری خوش قسمتی ہے کہ بیک وقت تمہیں مختلف الخیال افراد تک رسائی ملتی ہے، جسے استعمال کرکے تم کئی واقعات کے پیش منظر یا پسِ منظر سے واقف ہوسکتے ہو۔

اگر کچھ نہ بھی ہو تو کل کلاں اپنے بچوں کو تو بتلا ہی سکو گے کہ میاں جب یہ ہورہا تھا تو میں میدان میں موجود تھا، یوں کم از کم اِس حسین یا بدترین یاد کو اُن کے سامنے دُھرایا جاسکتا ہے اور اگلی نسل کو باخبر رکھنے میں خاصے معاون ثابت ہوسکتے ہو۔

زیادہ ہمت کرلو تو اور بھی اچھی بات ہے کہ اِن واقعات، سانحات یا حادثات کی روز ڈائری لکھو اور بہترین کتاب سامنے لے آؤ تاکہ بطور ریفرنس استعمال ہوسکے۔

یہ سب نہ ہو تو بھی اِس بارے میں سوچنے میں حرج نہیں کہ اِس سے ہماری روزی روٹی جُڑی ہے۔

مثلاً، شہر میں اہم پریس کانفرنس ہونے جارہی ہے، جیسا کہ گزشتہ دنوں متحدہ و پی ایس پی کے ملن جیسی نیوز کانفرنس، یا گڑھی خدا بخش میں بی بی و بھٹو کی برسی یا تحریک انصاف کا جلسہ، ہوتا یوں ہے کہ ایسے کسی بھی موقع پر ہر چینل کی انتظامیہ متحرک ہوجاتی ہے، ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بہترین کوریج کا سہرا اپنے سر باندھے، اِس غرض سے ڈرون کیمرے پرواز بھرتے ہیں، بلندی سے جلسے کی عکسبندی کی جا رہی ہوتی ہے، تقریب کی جگہ کے چار کونوں میں چار رپورٹرز تعینات کیے جاتے ہیں اور تمام کارروائی لمحہ بہ لمحہ براہِ راست دکھانے کا پورا پورا انتظام کیا جاتا ہے، اضافی ممبران اور اضافی سامان ہر وقت دستیاب رہتا ہے، ذرا سوچو اِس میں کس کا بھلا ہے؟

تین تین گھنٹوں کی تاخیر سے شروع ہونے والی پریس کانفرس سے اُکتانے کے بجائے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ یہ سب نہ ہو تو چینلز کو ہماری کیا اور کیوں ضرورت؟

جب ملک میں، شہر میں یہ سب نہیں ہوگا تو یقین مانو نشریاتی اداروں کو بھی ہماری قطعی ضرورت نہیں۔ کام جتنی وسعت اختیار کرے گا نچلے اسٹاف کی اہمیت اُتنی ہی نمایاں ہوگی پھر ایک تار کھینچنے والا کیبل مین ہو یا سج دھج کر ٹی وی پر آنے والا اینکر پرسن، اہمیت ہر ایک کی ہوگی اور حصہ بقدر جثہ ملے گا۔

سو، انتخابات ہوں جلسے جلوس یا سیمنار، دراصل یہ ہماری روزی روٹی کے جُڑے رہنے کا سبب ہیں۔

صورتحال سے لطف لینے، موجودہ حالات سے سیکھنے اور رقم ہوتی تاریخ کا دلچسپ حصہ بننے کی ضرورت ہے ناکہ ناک بھویں چڑھا کر وقت بے وقت بڑبڑانے کی، اُمید ہے کہ میں اپنا نکتہ سمجھانے میں کسی قدر کامیاب رہا ہوں گا۔

اِس ذاتی تجربے سے ہٹ کر ویسے یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے اجتماعات کی کوریج کرتے رپورٹرز کی الگ ہی محفل ہوتی ہے، اُن کی گفتگو میں معلومات خاصی دلچسپ ہوتی ہیں۔ اتفاق سے اِس صنعت سے وابستہ افراد کو عام لوگوں کی نسبت دو ڈھائی اضافی باتیں معلوم ہوتی ہیں تو رُعب جھاڑنا کبھی نہیں بھولتے۔ چونکہ رپورٹرز کو اپنے اپنے شعبے کے ماہر یا سرکاری افسران تک رسائی میسر ہوتی ہے تو وہ اُن کی کسی حد تک چائنا کاپی بننے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، مثلاً لیاری آپریشن یا کراچی میں ہدف بنا کر قتل کردینے والے ایام کی بات ہے جب جرائم کی سرگرمیوں کو رپورٹ کرنے والے رپورٹرز دہشتگردی سے متاثرہ مقام پر پولیس افسران کے ساتھ اُنہی کے انداز میں کھڑے ہوکر ہاتھ میں قیمتی موبائل، مہنگی سگریٹ کا ڈبہ اور منہ سے دھواں خارج کرتے ہوئے حالات پر کچھ اِس طرح تبصرہ کرتے ہیں جیسے وہ خود متعلقہ علاقے کے ایس پی ہوں۔

یہی حال سیاسی رپورٹرز کا ہوتا ہے۔ جب بعض رپورٹرز اسمبلی میں وزراء، ایم این اے و ایم پی ایز کے ساتھ کھڑے ہوں تو کسی وزیر سے کم نہ لگتے اور اُنہیں مشورہ یوں دیتے ہیں جیسے اُن کے مشیر وہی ہوں اور وہ بھی بغیر کسی معاوضے کے۔

اگر عدالتی رپورٹرز کی بات کی جائے تو وہ وکلاء کے ساتھ قانون پر یوں گفتگو کرتے ہیں جیسے کوئی بِنا کوٹ کے جج ہوں۔ اِسی طرح سرکاری افسران کے دفتر میں بے دھڑک گُھسنے والے صحافی کرسی پر اطمینان سے بیٹھ کر چائے کی یوں فرمائش کرتے ہیں جیسے برسوں کی بے تکلف دوستی قائم ہو۔

مجھے تو اکثر اوقات لگتا ہے کہ ہم صحافیوں کی عزت کی بڑی وجہ اُن کے ’شر‘ سے محفوظ رہنے کے لیے کی جاتی ہے۔ ہمارے کئی دوست ہر پریس کانفرس کے بعد سوال داغنا ضروری سمجھتے ہیں چاہے اُس کی ضرورت ہو یا نہیں۔ اِس کی ایک وجہ اپنی شکل اگلے کے دماغ میں نقش کرانا اور دوسری کوئی چٹپٹی خبر نکالنا ہے، اور ہاں بات بات پر مختلف سیاسی جماعتوں کی پریس کانفرنس کا بائیکاٹ تو الگ ہی لطیفہ ہے اُس کی تفصیل پھر کبھی سہی۔

بہرحال یہ سب فطری اور ضرورت کے مطابق بھی ہے کیونکہ اِس شعبے کا کام ہی کچھ ایسا ہے، لیکن بہتر ہوگا کہ اِس کے مسائل، خامیوں اور خوبیوں کا ادراک کرکے ایسی فضاء بنائی جائے کہ ہمیں اپنا کام بوجھ نہیں دلچسپی سے بھرپور لگے اور زیادہ سے زیادہ ملک کے مثبت تشخص کو نمایاں کرنے کا موقع حاصل ہوسکے۔

 

حصہ
mm
فیض اللہ خان معروف صحافی ہیں۔۔صحافیانہ تجسس انہیں افغانستان تک لے گیاجہاں انہوں نے پانچ ماہ تک جرم بے گناہی کی سزا کاٹی۔۔بہت تتیکھا مگر دل کی آواز بن کر لکھتے ہیں۔کراچی میں ایک نجی ٹی وی چینل س وابستہ ہیں

جواب چھوڑ دیں