ضمیر کی آواز

اس کرہ ارض پے اگر ہم آواز کی بات کریں تو ضمیر کی آواز سے بڑھ کر کوئی آواز نہیں ہے۔یہ ضمیر کی آواز ہی تھی کہ جب آدمؑ کو جنت سے نکالا گیاتو اُنھوں نے ضمیر کی آواز بجالاتے ہوئے خداباری تعالٰی سے معافی کی طلب کی اور اللّہ تعالٰی نے قبول بھی کی۔مگر یہاں بات کسی عام شخص کی نہیں ہورہی بلکہ اس دنیا میں اُتارے گئے سب سے پہلے شخص کی ہو رہی ہے ۔مگر ہم سب تو عام انسان ہیں غلطیوں کی پتلے چلتے پھرتے گناہ و غلطیاں کر بیٹھتے ہیں اور کبھی غلطی سے ہمارا ضمیر ملامت کر بھی بیٹھے تو ہم اللّہ تعالٰی سے معافی مانگ لیتے ہیں مگر اُس کی مخلوق سے پھر بھی معافی نہیں مانگتے حالانکہ حقوق اللّہ کے ساتھ حقوق العباد بھی اہم ہے۔مگر اپنی انا کے خاطر معافی نہیں مانگتے کیوں کے ہم اگر معافی مانگ لینگے تو ہمارا سر جُھک جائے گا ہماری انا مجروح ہوجائے گی۔کیا ہم سے کوئی یہ سوچتا ہے کے ہمارے معاشرے میں بدحالی کا سبب کیا ہے کوئی بھی اس بات کے طرف دھیان نہیں دیتا سوچنا سمجھنا ہر انسان کا ذاتی حق ہے مگر ہم نے اپنے ارد گرد دیوار کھڑی کر رکھی ہے،جس میں سے ہم نکلنا ہی نہیں چاہتے ہر چیز کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھیرانا دوسروں پے کیچڑ اُچھالنا ہمارا معمول بن گیا ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ ایک سیاست دان دوسرے سیاست دان کو بُرا کہتا ہے اور پھر خود بھی وہ ہی کام کرتا ہے جو دوسرے نے کیا۔یہ عام بن گیا ہے۔اُس پے ستم یہ کہ حالات کو بہتر بنایا جائے یہ کہہ کے کچھ نہیں کرتے ہم سے پہلے والوں نے اتنا بگاڑ دیا ہے کے اُس کو صحیح کرتے کرتے وقت لگے گامگر حقیقت اس کے برعکس ہے اصل بات تو یہ غور طلب ہے کے ہمارا مُلک جو اب تک تیسری دنیا میں شمار کیا جاتا ہے اُس کی وجہ یہ ہے کہ ہر کوئی اپنی وجہ شہرت میں لگ گیا ہے،ملک جہاں تھا وہی کھڑا ہے اگر تھوڑی بہت ترقی ہونے بھی لگتی ہے تو نیا آنے والا پُرانے والے کا کام بُرا بھلا کہہ کر روک دیتا ہے لہذا ترقی پھر ادھوری رہ جاتی ہے۔آخر ہم کب تک صرف دوسرے کے طرف دیکھ کر بُرائیاں نکالتے رہیں گے،اپنے گریبان میں کب جھانکیں گے۔غلطی صرف حکمران کی نہیں۔ ہماری بھی ہیں جس کی وجہ سے ہم آج تک وہیں قدم جمائے ہوئے ہیں جہاں دوسرے نشان چھوڑ گئے تھے ۔نوجوان نسل بے روزگاری سے تنگ آکر دوسرے ممالک جارہے ہیں،اور پھر وہ بھی وہیں کے گُن گارہے ہیں ۔صرف حکومت کے بدل جانے سے ہمارے حالات نہیں بدلیں گے ،ہمیں خود کو بھی بدلنا ہوگا اوراپنی سوچ کو بھی،اپنے ضمیر کی آواز کو سنُناہوگا۔نئے آنے والے معماروں کے لئے خودکچھ کرنا ہوگا ورنہ شیطان کے چیلے ہمارے بازو کاٹتے چلے جائیں گے اور ہم پہلے والوں کی طرح کچھ نہیں کرپائیں گے۔ملک میں غربت ختم کرنے کے لئے ہمیں غریب کا دل رکھ کر سوچنا ہوگا تب ہیں جاکر مُلک سے غربت افلاس کا خاتمہ ہوگا۔کب تک ہم دوسروں کی کشتیاں جلا کر خوش ہوتے رہے گے،مُلک کی خوشحالی کے لئے ہمیں اپنے اندر سے تعصب کی بیماری کا خاتمہ کرنا ہوگا ۔دوسروں کے گھر پے کچڑا پھنکنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا کیوں کہ اسی کچرے کی مہک ہمارے گھر تک بھی آئے گی،اس لیے سوچنے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں