(سیرتِ نبویؐ کے چند اسباق)
ارکانِ اسلام میں ’’صلوٰۃ‘‘ دوسرا اہم ترین رُکن ہے۔ لیکن صدیوں سے یہ کسی تبدیلی، نئے پَن اور اختراع سے محفوظ ہے۔ بلکہ اگر نماز میں اختراعات کی جائیں تو وہ فاسد ہوجائے گی۔ لگے بندھے طریقے سے ہر روز، بار بار ایک جیسی عبادت کی جاتی ہے اور قیامت تک کی جاتی رہے گی۔ لیکن اس لگی بندھی اور بار بار ایک ہی طرح دہرائی جانے والی۔۔۔ نماز جیسی عبادت میں بھی، دین کا حکم ہے کہ آنکھیں کُھلی رکھو۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمہ وقت مُتغیر دنیا، مُعاملاتِ دنیا اور مسلسل اور لحظہ بہ لحظہ بدلتے زمان و مکاں کے متعلق۔۔۔ ہمارا دین، آنکھیں کھلی رکھنے کا حکم نہ دیتا ہو۔ اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ نے ہمیں سمع، بصر اور فواد کی تین زبردست قوتیں دی ہیں۔ سننے، دیکھنے، سمجھنے اور تجزیہ کرکے بہتر سے بہتر اقدام کرنے کی راہ دکھائی ہے۔ دین کے اس مزاج کو۔۔۔ خود ’’اِقامتِ دین‘‘ کی جدوجہد کے لیے بھی کیوں نہ اپنایا جائے اور بھرپور اپنایا جائے؟
اِسی زاویۂ نظر نے درجِ ذیل خیالات کے اظہار کی جسارت دی ہے۔
ایک سوال اکثر ذہن میں آتا ہے کہ اگر ہمارے آقا و رہبر، نبئ اکرم، خاتم النبیین، حضرت محمد مصطفی بن عبداﷲ الہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم جزیرہ نمائے عرب کے بجائے۔۔۔ فارس یا روم میں پیدا ہوئے ہوتے۔۔۔ تو کیا تاریخی واقعات اور نتائج وہی ہوتے جو کہ ہمیں معلوم ہیں؟ اِس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ اگر آپؐ فارس یا روم میں مبعوث کیے گئے ہوتے۔۔۔ تو کیا آپؐ کی دعوت کا اُسلوب اور طریقہ کار، سیاسی پالیسی اور حکمت کاری (Political Policy & Strategy) وہی ہوتی جو آپؐ جزیرہ نمائے عرب میں اختیار کرتے نظر آتے ہیں؟ زیادہ اہم، لیکن مشکل سوال یہ ہے کہ دوسری صورت میں، وہ پالیسی کیا ہوتی؟ وہاں حکمتِ عملی کیسی ہوتی؟ فارس میں کیا، کیا گیا ہوتا؟ اور روم میں دعوت اور سیاست سے کس طرح عہدہ برآ ہوا جاتا؟
یہ سوالات اس لیے پیدا ہوئے ہیں کہ کم از کم میرے علم کی حد تک یہ تینوں (رومی، ایرانی، عرب) مُعاشرے اور ان میں قائم سماجی، مَعاشی، سیاسی، تہذیبی، لسانی اور عسکری نظام (اگر کوئی تھا، اور جیسا بھی تھا) اور وہاں کے حالات ہرگز یکساں نہیں تھے۔ مثلاً یہ کہ فارس و روم میں عظیم الشان بادشاہتیں، صدیوں سے قائم تھیں۔ اُن کے پاس اپنے دور کے مُستحکم اور مؤثر ترین نظام ہائے سیاسی و معاشی و عسکری موجود تھے۔ باجبروت اور ہمہ مقتدر بادشاہوں کے سلسلے تھے۔ ان کے ہاں بڑے بڑے اور متمدَّن شہر اور قصبات تھے۔ صوبوں، ضلعوں، تحصیلوں جیسے کئی سطحی حکومتی ڈھانچے قائم تھے۔ قوت و اقتدار کا بڑا حصہ، بادشاہ یا شہنشاہ کی کرسی میں مرتکز تھا۔۔۔ لیکن مُعاشرتی طور پر۔۔۔ ایرانی سلطنت، رومی سلطنت سے جدا تھی۔۔۔ اور یہ دونوں معاشرے عرب سماج سے الگ تھے۔ اِسی طرح اِن خطوں کی صدہا برس کی تاریخ بھی اور آب و ہوا بھی جدا تھی۔ نتیجتاً وہاں کے انسانوں کے مزاج بھی الگ تھے۔
جزیرہ نمائے عرب (تقریباً وہ تمام خطّہ جو آج سعودی عرب کی ریاست میں شامل ہے) بالکل مختلف کیفیت کا حامل تھا۔ اس کی تاریخ بھی جدا، اس کی مُعاشرت اور آبادی کی تقسیم (Demography) بھی الگ، اس کی سیاست و معیشت بھی منفرد اور اس کا عسکری نظام بھی علیحدہ طرز کا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ پورے جزیرہ نمائے عرب میں کوئی دریا اور قابلِ ذکر جھیل نہیں ہے۔۔۔ وسیع و عریض قابلِ کاشت رقبے نہیں ہیں۔۔۔ وہاں زیادہ اور گھنی آبادیاں آج بھی نہیں ہیں۔۔۔ موسم سخت گرم رہتا ہے۔ تیل اور معدنیات کی دریافت سے قبل۔۔۔ یہ خطۂ زمین، کسی طالع آزما بیرونی حکمراں کے لیے کوئی کشش نہیں رکھتا تھا۔ صرف یمن کا خطہ، بحری آمد و رفت کے اہم دروازے کی حیثیت سے۔۔۔ حملہ آوروں اور توسیع پسندوں کے لیے اہمیت اور کشش کا حامل تھا اور آج بھی ہے۔
بقیہ جزیرہ نمائے عرب پر صدیوں (بلکہ غالب امکان ہے کہ ہزاروں سال) سے کوئی بڑی لشکر کشی نہیں ہوئی اور نہ وہاں کوئی ’’بادشاہ‘‘ حکمراں رہا (ابرہہ کی لشکر کشی، الگ مُعاملہ تھی)۔ کوئی مرکزی اقتدار یا بڑا مرکزِ اقتدار بھی نبئ اکرمؐ کی آمد کے وقت وہاں موجود نہیں تھا۔۔۔ بلکہ صدیوں سے نہیں تھا۔ اُس وقت وہاں کوئی بڑا شہر بھی آباد نہیں تھا۔ سب سے بڑا شہر مکہ تھا، جس کی آبادی بارہ سے سولہ ہزار کے آس پاس بتائی جاتی ہے۔ اس سے چھوٹے شہر طائف اور یثرِب (مدینہ) تھے۔ یثرب کی آبادی چھے ہزار کے لگ بھگ تھی۔ اس کے علاوہ چھوٹی چھوٹی آبادیاں تھیں، جو دور دور اور منتشر تھیں۔ ان شہروں اور آبادیوں کے بھی کوئی اکلوتے حاکم نہیں ہوتے تھے۔ بلکہ ایک ایک شہر میں کئی کئی سردار مل کر نظام چلایا کرتے تھے۔ خود مکہ شہر پر کوئی فردِ واحد حکمراں نہیں تھا۔ دس نمائندہ سرداروں کی مجلس میں فیصلے ہوا کرتے تھے۔ اسی لیے ان کا نظام، وحدانی اور آمرانہ نہیں، شورائی کہلا سکتا ہے۔
قبائلیت اور بَدوِیّت سے معمور، یہ عرب خطہ اور مُعاشرہ۔۔۔ نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلمکو اتفاقاً نہیں ملا تھا یا اس معاشرہ کو آپؐ حادثاتی طور پر حاصل نہیں ہوگئے تھے۔ بلکہ ہمارا یقین ہے کہ اُن مخصوص نتائج کو۔۔۔ جو بِعثتِ محمدیؐ کے نتیجے میں تاریخ کا حصہ بنے۔۔۔ حاصل کرنے کے لیے اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ نے جزیرہ نمائے عرب کو صدیوں کے تعامل سے گزار کر ایسا بنا دیا تھا۔ اِسی طرح حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دعوتی و سیاسی پالیسی اور حکمتِ عملی اپنائی، وہ بالکل اُسی معاشرے اور تاریخ کے اُسی مخصوص مرحلے کے لیے تھی اور بالکل درست تھی۔ وقت و حالات نے بھی اس کی گواہی دی ہے۔
یہاں پھر وہی سوال سامنے آتا ہے کہ اگر آپؐ فارس یا روم میں مبعوث کیے جاتے یا مثلاً آپؐ کسی بگڑی ہوئی مسلمان قوم میں بھیجے گئے ہوتے (انبیائے بنی اسرائیل کی طرح)۔۔۔ تو کیا آپؐ پھر بھی ویسی ہی دعوتی و سیاسی پالیسی اور حکمتِ عملی لے کر چلتے جو آپؐ جزیرہ نمائے عرب کے مشرک، اور ساتھ ہی منتشر مُعاشرے میں لے کر چلے؟ یکساں نتائج والا سوال بھی اپنی جگہ برقرار ہے۔
بہت ڈرتے ہوئے، لیکن ذمہ داری کے ساتھ ایک اور سوال اٹھانا چاہتا ہوں کہ عموماً ایک عام مسلمان۔۔۔ سیرتِ نبوی کے انفرادی حوالوں کو اہمیت دیتا ہے تاکہ ذاتی زندگی میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرسکے۔۔۔ اور اگر وہ اجتماعی زندگی کے حوالوں سے دلچسپی رکھتا بھی ہے تو اس لیے کہ وہ اپنے دور کی اجتماعی زندگی میں، اُس شاندار اور بابرکت دور کی جھلکیاں دیکھنا چاہتا ہے۔ لیکن اپنے دور کو، حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا خلفائے راشدین کے دور جیسا بنا دینے سے۔۔۔ اور اُس میں اپنا مؤثر کردار ادا کرنے سے۔۔۔ عام آدمی کو کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی اور اکثریت کو ہو بھی نہیں سکتی۔۔۔ چاہے ہم کتنی ہی خواہش کریں یا خواب دیکھیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ آج جو مختصر سا گروہ، اسلامی تحریک کے نام سے (کئی نسلوں سے) مسلسل محوِ سفر ہے۔۔۔ کیا اس کا سماجی و تاریخی شعور، اُس کا سیرتِ نبوی اور جُہدِ نبوی کو دیکھنے کا انداز اور نقطۂ نظر۔۔۔ وہی ہونا چاہیے جو ایک عام مسلمان کا یا مُعاشرے کی اکثریت کا ہوتا ہے؟۔۔۔ اور یہ بھی کہ ’’محوِ سفر‘‘ رہنا ہی مقصود و مطلوب ہے؟ یا راہِ سفر کے احوال و کیفیات و تجربات پر غور و فکر کرنا اور سیرتِ نبوی کے نورِ حکمت سے رہنمائی لے کر۔۔۔ اپنی لگام (Steering)، اپنے ایکسیلیٹر اور اپنے بریک کا درست اور بہتر استعمال کرنا بھی، اس کی ذمہ داری ہے؟ مسلسل اور اَن تھک سفر کرنا، سفر کے درست ہونے کی دلیل نہیں۔۔۔ اور نہ ہی کولہو کے بیل کی طرح، صبح تا شام چلتے رہنا، مدام چلنا، کامیابی کی ضمانت ہے۔۔۔ حالانکہ یہ ’’سفر‘‘ خود ایک عمل ہے اور بڑے تسلسل، انہماک اور یکسوئی کا عمل ہے۔
ایک اور سوال جو میرے ذہنی اُفُق پر اٹک جاتا ہے کہ قرآن نے متعدد انبیا علیہم السلام کے جو قصے اور ان کے اجزا، تکرار و تواتر سے بیان کیے ہیں۔۔۔ تو کیا یہ محض عبرت و گداز پیدا کرنے کے لیے ہیں؟ یا ان کی کوئی اور زیادہ فعال (Dynamic) حکمت بھی ہے؟ کیا یہ قرآنی واقعات اور حوالے، اس لیے بھی نہیں ہیں، کہ قیامت تک بدلتے چلے جانے والے زمان و مکان۔۔۔ اور ایک ہی دور میں الگ الگ خطوں کے، الگ الگ احوال و کیفیات میں اسلامی جدوجہد کے لیے۔۔۔ یہ اشارات کا کام کریں، نورِ ہدایت و رہنمائی بنیں؟
جزیرہ نمائے عرب کے مشرک مُعاشرے کی کیفیات و احوال کو، آخر پاکستانی مسلم مُعاشرے میں کس طرح، جوں کا توں منطبق کیا جاسکتا ہے؟ یہاں نہ وسیع و عریض خطے میں بکھرا ہوا، لیکن کم آباد، بَدوی مُعاشرہ ہے۔۔۔ نہ ’’لامرکزی‘‘ اقتدار ہے اور نہ لات و منات کے پجاریوں کی اکثریت ہے۔ اس لیے ہماری جدوجہد مکی دور کی ہرگز نہیں۔ اسی طرح نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت و حاکمیت میں جو مدنی دور گزرا، ہم اس پر بھی اپنا انطباق نہیں کر سکتے۔ ہمارا مُعاشرہ ہرگز مدنی اوصاف کا حامل نہیں۔ اس کے برعکس پاکستانی مُعاشرہ، بہت سے اسلامی اور بہت سے نااسلامی عناصر کا ملغوبہ ہے۔ یہاں اسلام، ریاست کا آئینی دین ضرور ہے۔۔۔ مگر عملاً بیشتر امورِ مملکت دین و شریعت سے غفلت و لاپروائی اور بے نیازی سے۔۔۔ اور شاید بعض امور سرکشی و بغاوت کی کیفیت میں چلائے جارہے ہیں۔ لہٰذا پاکستانی سماج بھی اور نظام بھی۔۔۔ اسلام و غیراسلام کا آمیزہ، بلکہ مرکب ہے۔ یہ ایک تیسری کیفیت ہے، مکی و مدنی تقسیم کے حوالے سے۔۔۔!!
ابھی تک جو کچھ عرض کیا گیا ہے، اس سے یہ غلط فہمی پیدا نہ ہو کہ خدانخواستہ راقم، سیرت و سنت کے اتباع کا قائل نہیں۔ الحمدﷲ، ہمارا دل اس پر پوری طرح مطمئن ہے کہ:
بمصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ اُو نہ رسیدی، تمام بو لہبیست
(خود کو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلمسے وابستہ رکھو اور وہیں سے سند لاؤ کہ وہی سراپا دین ہیں۔ اگر کوئی بات اُن کی سند سے خالی ہو تو پھر سب کچھ بو لہبی ہے۔)
اور اِس قرآنی ہدایت پر بھی پختہ ایمان ہے کہ:
وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُق وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا (رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ تمہیں دیں، وہ لے لو۔۔ اور جس سے تمہیں روکیں، اُس سے رک جاؤ۔۔۔ الحشر:7)
قیامت تک کے لیے اب محمد عربیصلی اللہ علیہ وسلم ہی سب سے مستند حوالہ ہیں۔۔۔ انفرادی زندگی کے لیے بھی اور اجتماعی زندگی کے لیے بھی۔ وہی سرچشمۂ ہدایت اور نورِ نظر نواز ہیں۔ درجِ بالا سطور کا مقصود، بس اس بات پر متوجہ کرنا ہے کہ نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین سماجی و تاریخی شعور کے ذریعے اپنے دور کے جزیرہ نمائے عرب میں اسلامی جدوجہد اُس طرح کی جیسی وہاں کی جانی چاہیے تھی۔ اس کا نتیجہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اس تاریخی عمل کی ہو بہو ’’کاپی کرنا‘‘ دین کو مطلوب نہیں ہے، کیونکہ نہ ہمارا سماج ویسا ہے اور نہ تاریخ کا صفحہ وہی ہے۔ البتہ نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نورِ بصیرت اور سرچشمۂ حکمت سے رہنمائی لے کر۔۔۔ اپنے دورِ تاریخ اور اپنے سماج کے تقاضوں کے مطابق ہی جدوجہد، پالیسی اور حکمتِ عملی مرتب کرنی چاہیے۔ یہی اُسوۂ ہادئ برحق ہے، یہی سُنتِ داعئ اعظم صلی اﷲ علیہ وسلم ہے۔ ایسا ہی کرنا ہر اسلامی تحریک کی بنیادی اور اساسی ذمہ داری ہے۔
نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلمکی اسلامی جدوجہد کا پہلا نکتہ تو یہی تھا کہ سماجی شعور اور تاریخی شعور۔۔۔ جتنا پختہ، ہمہ گیر اور مکمل ہوگا، اسی لحاظ سے جدوجہد بہتر اور زیادہ نتیجہ خیز ہوگی۔ دوسری رہنمائی یہ ملتی ہے کہ دعوت کا ایک الگ دائرہ ہے اور سیاست کا الگ۔ کبھی یہ دائرے، جزوی طور پر Overlap کرتے ہیں، کبھی بالکل یکساں ہوجاتے ہیں اور اکثر الگ رہتے ہیں۔ البتہ دعوت کا دائرہ، سیاست کے دائرے کی نفی نہیں کرتا اور نہ سیاست کا دائرہ دعوت کے دائرے سے متصادم ہوتا ہے۔ سیاست کے دائرے کو آج کی اصطلاح میں “Power Politics” کہنا، ہمارے مدعا کو زیادہ واضح کرے گا۔ نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دور میں، اقتدار و اختیار کی حرکیات (Dynamics of Power Politics) کا جیسا غیرمعمولی شعور و ادراک تھا۔۔۔ اور جس خوبصورتی، کمالِ مہارت اور لچک و پختگی کے نازک توازن سے آپؐ نے اس کو برتا۔۔۔ وہ خود لاجواب و بے مثال ہے۔ آپؐ کی سیاسی کامیابیوں میں، اپنے عہد کی Power Politics کی حرکیات کا شعور و ادراک اور حُسنِ استعمال۔۔۔ سیرت کا نہایت روشن باب اور بڑا اہم سبق ہے۔
پاکستانی معاشرے میں بھی دعوت کا کام، ایک الگ دائرے کا کام ہے اور Power Politics اپنا الگ دائرہ رکھتی ہے۔ ناچیز کی رائے میں اسلامی تحریک کا بڑا کمزور پہلو، پاکستانی سماج اور اس خطے کی تاریخ کا کمزور شعور و ادراک ہے۔۔۔ اور اس سے بڑھ کر، پاکستانی معاشرے کی ’’پاور پالیٹکس‘‘ کی حرکیات پر کم توجہی اور اس کے تقاضوں سے عہدہ برآ نہ ہوسکنا ہے۔ پھر یہ کہ خود پاکستانی سماج ہم آہنگ اور یک جہت نہیں ہے۔ یہ بہت سے دیگر ملکوں سے زیادہ رنگا رنگی کا حامل ہے۔ ہمارا معاشرہ یکساں و یک رنگ (Homogeneous) نہیں، بڑا متنوع اور بوقلموں (Heterogeneous) ہے۔۔۔ بلکہ بعض پہلوؤں سے متضاد عناصر کا آمیزہ ہے۔ جب تک پاکستانی سماج کی سیاسی حرکیات کے ادراک اور بہتر استعمال کی صلاحیت نہیں بڑھائی جائے گی، اُس وقت تک کوئی غیرمعمولی سیاسی پیش رفت بھی نہیں ہوسکے گی۔ مثلاً یہ کہ اس خطے میں مسلم اقلیت کی، غیر مسلم اکثریت پر صدیوں کی حکومت نے۔۔۔ ایک خاص قسم کا سماج و کلچر، اجتماعی مزاج اور مخصوص قسم کی ’’اسلامیت‘‘ پیدا کی ہے۔ یہ پورا خطہ، حنفی اکثریت کا حامل ہے۔ عادتاً ہی سہی، اکثریت ’’بریلوی‘‘ ہے۔ رویّے میں لوگ لبرل ہیں۔ خانقاہ و مزار، قوالی و دھمال، قرآن خوانی و عرس۔۔۔ اہلِ مُعاشرہ کے شعور سے بڑھ کر اُن کے لاشعور میں بسی ہوئی اسلامی علامتیں ہیں۔ برصغیر میں صرف مجدد الف ثانیؒ ، شاہ ولیؒ اﷲ اور اورنگزیب عالمگیر ہی نہیں۔۔۔ جلال الدین اکبر اور نورالدین جہانگیر بھی گزرے ہیں اور اُن کا ’’دینِ الٰہی اکبر شاہی‘‘ بھی یکسر ناپید نہیں ہوا ہے۔
’’پاور پالیٹکس‘‘ کے حوالے سے یہ نکتہ بھی، سیرتِ نبوی سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی حرکیات کو بروئے کار لاکر۔۔۔ اختیار و اقتدار حاصل بھی کیا گیا اور اسے Snowball Effect سے بھی گزارا گیا۔ مدینہ جیسی ایک ’’شہری ریاست‘‘ (City State) بنائی گئی، جو اگرچہ کہ چھوٹی تھی، مگر آج کے معنوں میں ایک ’’قومی ریاست‘‘ (Nation State) تھی۔ جہاں مسلمانوں اور یہودیوں کو برابری حاصل تھی۔ دونوں گروہ جس معاہدے (میثاقِ مدینہ) میں بندھے تھے، اس نے یہ ’’قومی ریاست‘‘ بنائی تھی۔ (’’میثاقِ مدینہ‘‘ کی تحریر، بحمدﷲ تاریخ نے محفوظ رکھی ہے اور آج بھی دیکھی جاسکتی ہے)۔ تاریخ کی گواہی ہے کہ مدینہ کی ’’شہری ریاست‘‘ کو بنیاد بنا کر۔۔۔ ایک طرف اختیار و اقتدار کو ضرب دیا جاتا رہا، اُس کے ذریعے مزید اختیار و اقتدار حاصل کیا جاتا رہا اور حدودِ ریاست بڑھتی رہیں۔۔۔ تو دوسری طرف جوں جوں اسلام کا اختیار و اقتدار مستحکم ہوتا گیا، اسے زیادہ خالص اسلامیت کی طرف موڑا جاتا رہا۔۔۔ جہاں رکاوٹ محسوس ہوئی، توقف کیا گیا یا حکمت عملی بدلی گئی۔ بالآخر اُس معاشرے کی وہ ’’سیاسی حرکیات‘‘ (Dynamics of Power Politics) ہی بدل کر رکھ دی گئیں، جن کی سیڑھی استعمال کرکے اختیار و اقتدار کی منزل تک پہنچا گیا تھا۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اُس وقت کی سیاسی حرکیات کو (حرام و ناجائز امور سے اجتناب کرتے ہوئے) پوری طرح بروئے کار لاکر، آگے بڑھا گیا۔ لیکن ایسا کرلینے کے بعد، ’’پاور پالیٹکس‘‘ کی اُس دور کی حرکیات اور تقاضوں کو، جوں کا توں برقرار نہیں رکھا گیا۔۔۔ بلکہ جوں جوں موقع ملا، نئی حرکیات اور نئے تقاضے پیدا کیے گئے۔ ایک نیا سیاسی جہاں ظہور میں لایا گیا۔
پاکستانی معاشرے میں کام کرنے والی اسلامی تحریک کو آج ’’لمحۂ قیام و سکون‘‘ یا ‘‘عرصۂ اعتکاف‘‘ (Pause) کی ضرورت ہے۔ اپنے سماج، اس کی نفسیات اور اِس خطے کے تاریخی عوامل کا جائزہ لینا، غور کرنا اور نئے سرے سے اپنی حکمتِ عملی بنانا۔۔۔ خود تحریکِ اسلامی کی بقا و ارتقا کے لیے ناگزیر ہے۔ مگر ایسا اسی وقت ہوسکے گا جب اہلِ دین اُس ذہنی سانچے (Mind-Set) سے باہر آئیں گے کہ جس میں یا تو دورِ صحابہ، اُن کے پیشِ نظر ہوتا ہے یا پھر اپنا دور۔ درمیان کی تمام صدیاں نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہیں یا زیادہ سے زیادہ کچھ ’’جزیرے‘‘ درمیان میں بھی ابھرے نظر آتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ ایک تسلسل کا نام ہے۔ زمانہ تنی ہوئی مسلسل اور لامتناہی، لیکن مربوط رسّی کی طرح ہے۔ لوگ قینچی لے کر اور تاریخ کو ٹکڑوں میں کاٹ کر دیکھنے اور زمان و مکان کے گملے لگانے کی ذہنی ساخت رکھتے ہیں۔ اسی لیے اس خطے میں اسلامی جدوجہد، گملوں میں پودے لگانے پر منتج ہوتی رہی ہے۔۔۔ پوری کی پوری کھیتیاں اور بڑے بڑے باغ و گلزار لگانے کی طرف اہلِ دین گئے ہی نہیں۔
آخری بات یہ ہے کہ سماج یا مُعاشرہ اُس سے زیادہ مضبوط و مستحکم اور جاندار و توانا وجود رکھتا ہے، جتنا سیاسی نظام۔ اگرچہ کہ سیاسی نظام کی کاٹ زیادہ ہوتی ہے۔۔۔ مگر مضبوطی اور توانائی میں سماج و مُعاشرہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ایک نیا سماج بنانے کے لیے اسلامی تحریک کا کیا ایجنڈا اور کیا حکمتِ عملی ہے؟ کبھی اس پر بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔ ’’پاور پالیٹکس‘‘ بلکہ ’’روز مرہ کی سیاست‘‘ میں حد سے زیادہ، اور قد سے بڑھ کر مصروفیت نے۔۔۔ تحریک کی ترجیحات اور توازن کو متاثر کیا ہے اور اُسے بے وزن بھی کردیا ہے۔۔۔ سماجی تبدیلیوں کے عمل سے بے دخل بھی کیا ہے اور معاشرے کے اعصابی مراکز سے غافل اور دور بھی۔
اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ نے ماضی میں یہاں کی اسلامی تحریک کو اقتدار و اختیار کے بعض دائروں میں پہنچایا بھی ہے۔ صوبہ خیبرپختون خوا میں شراکتِ حکومت اور کراچی میں دو بار بلدیاتی اختیارات اور ایک بار شہری حکومتی نظام کا اقتدار۔۔۔ تحریکِ اسلامی کے اصحاب کے حصے میں آیا۔ مگر اپنے مخصوص و محدود مائنڈ سیٹ کی وجہ سے اُن مواقع کو تاریخ ساز نہ بنایا جاسکا۔۔۔ اور نہ ہی Snowball Effect پیدا کرکے اقتدار و اختیار کو ضرب دیا جا سکا۔ بلکہ ’’اپوزیشن والی سوچ‘‘ لے کر (محدود) اقتدار کا یہ عرصہ گزار ڈالا گیا۔۔۔ نئے وِژَن، نئی سوچ، نئے دور کا کوئی سورج۔۔۔ مذکورہ بالا عرصۂ اختیار و اقتدار میں طلوع نہ ہوسکا۔
اب ضرورت ہے کہ پاکستان کی اسلامی تحریک۔۔۔ دعوت کا کام، دعوت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر کرے اور سیاست کاری، اپنے سماج کے مختلف حصوں کی ’’پاور پالیٹکس‘‘ کی حرکیات کو مدنظر رکھ کر۔ یہ کیا ضروری ہے کہ خیبرپختون خوا کی طرز کی سیاست، پنجاب اور سندھ میں کی جائے؟ یا کراچی جیسی سیاست، ملاکنڈ ڈویژن میں ہو؟ اسلامی تحریک کو تنہائی سے بچنے، کم سے کم دشمن بنانے، موجود دشمنیوں کو کم یا غیرفعال کرنے اور طاقت کے مراکز میں پہنچنے اور موجود رہنے کی حکمتِ عملی لے کر چلنا ہوگا۔ اسے تو ’’دربارِ فرعون‘‘ کے مومنین بھی درکار ہیں اور جادوگروں میں چُھپے اہلِ ایمان بھی۔ مکہ میں مستور ایمان رکھنے والے بھی چاہئیں اور اردگرد پھیلے ’’قبائل‘‘ میں اپنے لیے نرم گوشے رکھنے والے عناصر بھی۔
اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ پاکستان کی اسلامی تحریک کو نئے در، نئے راستے، نئے مواقع، کشادہ وِژَن اور توانا تر عزمِ سفر عطا فرمائے۔
اہم بلاگز
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
حیا ہی پروانہ خیر
ویمن یونیورسٹی کی بس میں سب سے پہلی سوار ہونے والی حنا امتیاز معمول کے مطابق آج بھی کسی کتاب کی ورق گردانی میں گم تھی اس لیے اسے اپنے ارد گرد ہونے والی غیر معمولی ہلچل کا علم ہی نہ ہوا۔
آج کی کتب بینی نے اسے خاصا الجھن میں مبتلا کیا ہوا تھا فرانسیسی انقلاب کے وقت وہاں کی عوام نے قلم کاروں کی جس طرح پیروی کی وہ حیران تھی کہ کیسے کوئی قوم اپنے ہی جیسے انسانوں کے بنائے ہوئے افکار و نظریات کے پیچھے اندھا دھند چل پڑتی ہے چاہے وہ نظریات اخلاق سے کتنے ہی گرے ہوئے کیوں نہ ہوں۔
ڈرائیور کے ہارن کرنے پر اس نے کتاب سے سر اٹھایا تو بس مکمل خالی تھی اس کی ساتھی لیکچرار اور تمام طالبات بس سے پہلے ہی اتر چکی تھیں
یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ آج کیا دن ہے؟
کلاس میں داخل ہوکرحنا نے ابتدائی سلام دعا کے بعد طالبات کی طرف معنی خیز مسکراہٹ سے دیکھا
“ پیاری لڑکیو! آج خیر سے آپ میں سے بیشتر لڑکیوں نے سرخ رنگ کے دوپٹے اور بعض نے تو پورا لباس ہی سرخ پہنا ہے”
“جی میم! آج ویلنٹائن ڈے ہے نا” کسی ایک طالبہ نے جواب دیا
تو ساتھ ہی کسی دوسری طالبہ نے مزید وضاحت بھی پیش کردی “میم اب وہ جونا مناسب سا ویلنٹائن سب مناتے ہیں ویسا تو ہم کچھ نہیں کر رہے بس سب نے سوچا کہ ایک تہوار آرہا تو چلومنا لیا جائے تفریح ہو جائے گی”
ہممم۔۔تویہ باقی طالبات آپ کے ساتھ شامل کیوں نہ ہوئیں؟ جی نائلہ آپ کا اس دن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ حنا نے ایک طالبہ کو مخاطب کیا جوویلنٹائن ڈے منانے والی لڑکیوں میں شامل نہ تھی۔
میم میرے نزدیک ویلنٹائن اخلاقی لحاظ سے انتہائی نا مناسب تہوار ہے اوراس کا ایجنڈا حیا کے منافی ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے
"جب تم حیا نہ کرو تو جو جی چاہے کرو"
نائلہ لیکن ہم کوئی نا مناسب حرکت تو نہیں کر رہے نا۔ ایک دوسری طالبہ نے نائلہ کو ٹوکا
جی جی ایسا ہی ہے میری شہزادی! آپ کی نیت بالکل صاف ہے آپ کا مقصد تفریح کے علاوہ کچھ نہیں ہے یہ مجھے معلوم ہے۔ حنا نے خوبصورتی سے دونوں کی بات چیت میں مداخلت کی اور بات کو مزید آگے بڑھایا۔
لڑکیو!بات دراصل یہ ہے کہ جب ہم خود کو اسلام کے دائرے میں داخل کردیتے ہیں نہ۔۔۔ تو شعوری طور پر حیا کا اختیار کرنا ہمارے لیے اس طرح ضروری ہوجاتا ہے جس طرح سانس لینے کے لیے ہوا میں آکسیجن کا ہونا ضروری ہے کیوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
” حیا ایمان کی شاخوں میں ایک شاخ ہے۔ “
لیکن اللہ کی پناہ ہم ایسے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں جہاں حیا کو کم اعتمادی اور ترقی پذیر عناصر کے برخلاف گردانا جاتا ہے اور یہ وہ نظریات ہیں جو ہمارے کچھ نامی گرامی مہذب طبقے نے مغربی معاشرے سے شاید عاریتاً لیے تھے اور اب سارے معاشرے میں تیزی سے سرایت کر تے جا رہے ہیں
اس...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...