تاریخ بڑی سفاک ہوتی ہے ۔ اس کی سفاکیت کا زور جب چلتا ہے تو بڑے بڑے جرنیل، راجے، مہا راجے، کمانڈر وقت کے دبیز پردے میں گم ہوجاتے ہیں اور یہی تاریخ جب کسی پر مہربان ہوتی ہے تو انار کلی جیسے کردار کہ جن کے وجود پر بھی اکثر تاریخ دانوں کو شک ہے وہ بھی امر ہوجاتے ہیں۔ ہم نے تاریخ کے ایسے ہی گم نام کرداروں سے گردہٹانے کی کوشش کی ہے کہ جنہوں نے اپنی فہم و فراست اور دلیری کے باعث اپنے اپنے دور میں ان مٹ نقوش چھوڑدئے ہیں۔سردار بیرم خان ہندوستان کی مغل سلطنت کا ایک ایسا ہی گم نام کردار ہے۔
ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد 1526 ء میں پانی پت کے میدان میں ظہیر الدین بابر کے ہاتھوں ابراہیم لودھی کی شکست کے بعد پڑی تھی اور ظہیر الدین بابر ہی مغلیہ سلطنت کا بانی تسلیم کیا جاتا ہے مگر مغلیہ سلطنت کی تاریخ میں ایک دور ایسا بھی آیا تھا جب اس کا وجود ہندوستان سے ختم ہوتا نظر آرہا تھا ۔ ایسے میں سردار بیرم خان وہ کردار ہے کہ جس کی دلیری، فہم و فراست اور سپہ سالارانہ صلاحیتوں نے مغلیہ سلطنت کو وہ مضبوط اور مستحکم بنیاد فراہم کی کہ آنے والے کئی صدیوں تک کیلئے مغلیہ سلطنت مامون اور محفوظ ہوگئی۔
ظہیر الدین بابر اس لحاظ سے بڑا بد قسمت تھا کہ ہندوستان کے تخت پر وہ صرف پانچ سال ہی حکومت کر سکا۔ اور1530 ء میں ایک ڈرامائی انداز میں اس کی موت واقع ہوگئی۔ نصیر الدین ہمایوں تخت نشین ہو اور مغل سلطنت میں برادرانہ کشمکش شروع ہوئی۔ نتیجتاً مغل تخت پر افغان سردار شیر شاہ سوری قابض ہوگیا۔ اور ہمایوں کو ہندوستان سے فرارہونا پڑا۔ شیر شاہ سوری کو بھی ہندوستان کا تخت چند سال کیلئے ہی نصیب ہوا اور چند سال ہی میں وہ وفات پاگیا۔ شیر شاہ سوری کے جانشین نا اہل ثابت ہوئے اور تخت کیلئے آپس میں لڑائیاں شروع کردیں۔جس سے ہندوستان دوبارہ فتح کرنے کا موقع ہمایوں کو مل گیا اور اس نے سوری خاندان سے ایک کے بعد ایک علاقے واپس لینے شروع کردئے ۔ سردار بیرم خان مغل فوج میں اسی دوران شامل ہوا۔ وہ ایک ایرانی طالع آزما تھا۔ میدان جنگ میں بیرم خان کی دلیری اور بہادری کو جلد ہی ہمایوں کی نگاہوں نے بھانپ لیا۔ بیرم خان ہمایوں کے مقربین میں شامل ہوگیا۔ اور پھر ایک دن ہمایوں نے بیرم خان کو شہزادہ اکبر کا اتالین مقرر کردیا۔ اب سردار بیرم خان ولی عہد شہزادہ اکبر کا نگران تھا۔ اس نے اکبر کو رموز سلطنت سمجھانے شروع کئے۔ ابھی بیرم خان کو اکبر کا اتالیق مقرر ہوئے چند دن ہی ہوئے تھے کہ ہمایوں کا ایک حادثے میں انتقال ہوگیا۔ یہ وقت مغلیہ سلطنت کیلئے نہایت کڑا تھا۔ شیر شاہ سوری کے جانشین اگرچہ شکست خوردہ تھے مگر موجود تھے۔ بیرم خان نے ہمایوں کی وفات کی خبر ملتے ہی تیرہ سالہ مغل شہزادے کی تخت نشینی کا اعلان کردیا۔ یہ اقدام بلا شبہ بیرم خان کی مغلیہ خاندان سے وفاداری کا عین ثبوت تھا۔ مگر افسوس اس وفاداری کا صلہ اسے نہ مل سکا۔
بہر حال اکبر کے تخت نشین ہوتے ہی مغلیہ سلطنت کے دشمنوں نے کمر کس لی وہ سمجھ رہے تھے کہ مغلیہ سلطنت اب چراغ سحری ہے جسے باد مخالف کا ایک ہی جھونکا آسانی سے لے جا سکتا ہے۔ ہندوستان کے وہ شکست خوردہ حکمران جو کابل اور قندھار سے لے کر دہلی اور آگرہ تک ہمایوں سے مار کھا کر ہندوستان سے فرار کی راہیں تلاش کررہے تھے ان کی ہمتیں اچانک بڑھ گئیں۔ نو عمر اکبر کے بادشاہ بنتے ہی افغانستان اور ہندوستان میں ایک ساتھ بغاوتیں بر پا ہوگئیں۔سلیمان ، شاہ ابو المعالی، سکندر شاہ سوری، احمد شاہ عادل، غرض ہر طرف بغاوتیں اور شورشیں نظر آنے لگیں۔ ایسے میں عملی طور پر مغل سلطنت کی زمام اقتدار بیرم خان نے سنبھال لی۔ اب وہ وزیر اعظم، سپہ سالار، اتالیق سب کچھ تھا۔ نو عمر بادشاہ اکبر ہر معاملے میں بیرم خان کے مشورے کا محتاج تھا۔ وہ بیرم خان کو ’’خان بابا‘‘ کے نام سے یاد کرتا تھا۔ بیرم خان ایک لائق سپہ سالار اور مشیر تھا۔ اس نے اپنی دلیری اور تدبر کو کام میں لاتے ہوئے ایک ایک کرکے بغاوتوں پر قابو پانا شروع کیا۔ ان شورشوں اور بغاوتوں میں سب سے اہم اور خطرناک شورش ہیموں بقال کی تھی۔ ہیموں بقال سوری خاندان کے آخری حکمران احمد شاہ عادل کا وزیر اعظم اور سپہ سالار تھا۔ اس نے ایک ہزار ہاتھی اور پچاس ہزار گھڑ سوار کے لشکر جرار سے مغل سلطنت کے ایک اہم مرکز آگرہ پر حملہ کردیا ۔ آگرہ میں مغل پسپا ہوگئے اور مغل لشکر دہلی چلا گیا۔مغل لشکر کے تعاقب میں ہیموں بقال دہلی پہنچ گیا۔ مغل وہاں بھی پسپا ہوگئے۔ اب مغلوں کے تعاقب میں ہیموں بقال نے پنجاب کا رُخ کیا جہاں نو عمر اکبر مغل سلطنت کی بقا کی جنگ لڑ رہا تھا۔ ہیموں بقال کی آمد کی خبر سن کر اکبر گھبرا گیا۔ کئی امراء سلطنت نے اسے مشورہ دیا کہ اس وقت ہندوستان سے بھاگ کر کابل چلے جانا چاہیے اور پھر نئی تیاریاں کرکے ہندوستان واپس آئیں گے۔اگر اس وقت اکبر ہندوستان سے فرار ہوجاتا تو شاید ہندوستان میں مغل دوبارہ اقتدار حاصل نہ کر پاتے۔ اب ہمیں اس موقع پر بیرم خان کا دلیر اور جنگجو یانہ کردار نظر آتا ہے۔ اس نے فرار کی تجویز رد کردی اور کہا:
’’بادشاہ تو ابھی بچہ ہے، تاریخ اسے تو معاف کردے گی، مگر ہمارے منہ پر شکست کی سیاہی گر جائے گی۔ ہم مرجائیں گے یا فتح حاصل کرلیں گے۔‘‘
یہ سن کر اکبر نے اعلان کردیا کہ:
’’ہم لڑیں گے، مریں گے مگر ہندوستان سے واپس نہیں جائیں گے، خان بابا درست کہتے ہیں۔‘‘
پانی پت کے تاریخی میدان میں جہاں بابر نے ابراہیم لودھی کو شکست دے کرمغل سلطنت کی بنیاد رکھی تھی آج اسی میدان میں مغل سلطنت کی بقا کیلئے بیرم خان کی سربراہی میں مغل لشکرہیموں بقال سے بر سر بیکار تھا۔ بیرم خان نے کمال بہادری کے ساتھ میدان جنگ کے مروجہ اصولوں پر دلیرانہ انداز میں عمل کرتے ہوئے ہیموں بقال کو شکست سے دو چار کردیا۔ ہیموں بقال زخمی حالت میں مغل دربار میں پیش ہوا۔ بیرم خان نے اس کا سر تن سے جدا کردیا۔ اس فتح کے اگلے دن اکبر فاتحا نہ انداز میں دہلی میں داخل ہوا۔ اکبر کی یہ فتح بلا شبہ بیرم خان کی قائدانہ صلاحیتیوں کی مرہون منت تھی اور اسی فتح سے بیرم خان ہندوستان میں مغل سلطنت کا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔ اسی طرح آہستہ آہستہ بیرم خان نے بغاوتوں پر قابو پانا شروع کیا۔ پنجاب کے کئی علاقے، آگرہ، پشاور اور اودھ دوبارہ مغل راجہ میں شامل ہوگئے۔ اکبر نے آگرہ کو درالسلطنت قرار دیا اور بیرم خان کی مشاورت سے امرائے سلطنت کو ذمہ داریاں اور جاگیریں عطا کرنا شروع کیں۔ اب بیرم خان کو مغلیہ سلطنت میں اہم شخصیت سمجھا جانے لگا تھا۔ اکبر کیلئے بیشتر فیصلوں میں بیرم خان کی رضامندی شامل ہوتی تھی۔ بیرم خان کو مغل سلطنت میں غیر معمولی اختیارات حاصل ہوئے۔
اب جہاں بیرم خان کی طاقت میں اضافہ ہوا وہاں اس کے دشمنوں میں بھی اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ یہ کوششیں شروع ہوگئیں کہ کسی طرح بیرم خان کو اکبر کی نظروں سے گرایا جاسکے۔ ان سازشی عناصر میں اہم نام ماھم انگہ کا آتا ہے۔ یہ عورت بچپن میں اکبر کی انّا کے فرائض انجام دیتی رہی تھی۔ اس لیے اکبر کو اس سے ایک خاص انسیت اور محبت تھی۔ ماھم انگہ کی خواہش تھی کہ اکبر کا نکاح مرزا کامران کے خاندان میں ہو۔ مرزا کامران، ہمایوں کا بھائی تھا اور بابر کے بعد تخت نشینی پر مرزا کامران اور ہمایوں کی کئی لڑائیاں ہوئی تھیں ۔ مرزا کامران پر قابو پانے کے بعد ہمایوں نے اسے اندھا کردیا تھا۔ بیرم خان دشمن خاندان میں نکاح کا شدید مخالف تھا۔ ماھم انگہ اکبر پر سے بیرم خان کے اثرات کم کرنا چاہتی تھی۔ ان دونوں میں کشمکش شروع ہوگئی اور نکاح کے معاملے میں ماھم انگہ کا پلڑا بھاری رہا اور بیرم خان کی مخالفت کے باوجود اکبر نے مرزا کامران کے خاندان میں نکاح کرلیا۔ اب ماھم انگہ نے کچھ امرائے سلطنت اپنے ساتھ ملا لئے اور آہستہ آہستہ انہوں نے مل کر اکبر کے کان بھرنے شروع کردئے ۔ انہوں نے اکبر کو یہ احساس دلانا شروع کردیا کہ بیرم خان کا اقتدار مغل دربار کیلئے خطرناک ہوتا جارہا ہے۔ اور یہ کہ بیرم خان کسی بھی وقت اکبر کو معزول کرکے مغل سلطنت پر قبضہ کرلے گا۔
اسی دوران بیرم خان کے حکم سے دو امرائے سلطنت مرزا تردی بیگ اور مصاحب بیگ کو قتل کردیا گیا۔بیرم خان کے اس اقدام سے اس کے مخالفین کو موقع مل گیا اور انہوں نے اکبر کو یہ باور کرایا کہ بیرم خان مغلیہ سلطنت کے وفادار امراء کو ختم کرکے اپنے اقتدار کی راہ ہموار کر رہا ہے۔
اسی دوران ہاتھیوں والا واقعہ رونما ہوگیا۔ اس واقعے کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ہاتھیوں کے تماشے میں کچھ ہاتھی بے قابو ہوگئے اور اس کیفیت میں انہوں نے بیرم خان کے خیموں کو نقصان پہنچا دیا۔ اس پر بیرم خان چراغ پا ہوگیا اور اس نے فیل بانوں کو قتل کروادیا۔ سازشی امراء نے بادشاہ سے کہا کہ شاہی فیل بانوں کو قتل کرکے بیرم خان نے دیدہ و دانستہ بادشاہ کی توہین کی ہے۔اسی طرح کے اور بھی کئی چھوٹے چھوٹے واقعات پیش آتے رہے اور بیرم خان کے مخالفین کہ جن میں ماھم انگہ سر فہرست تھی اکبر کو اس کے خلاف اکساتے رہے۔یہاں تک کہ اکبر بیرم خان سے متنفر ہوگیا اور اس سے گلو خلاصی پانے کے بارے میں سوچنے لگا اور پھر ایک دن جب بیرم خان دارالسلطنت سے دور تھا ،اکبر نے شاہی فرمان کے ذریعے اس معذول کرتے ہوئے امور سلطنت خود سنبھالنے کا اعلان کردیا ،ایک روایت کے مطابق اس وقت اکبر بادشاہ کی عمر اٹھارہ برس تھی ۔
بیرم خان کو اکبر کے اس شاہی فرمان کا علم ہوا تو وہ بڑا سٹپٹایااور اس نے اکبر کو ملاقات کا پیغام بھیجا۔ وہ چاہتا تھا کہ ملاقات کرکے اکبر کے دل کو اپنے لئے صاف کرنے کی کوشش کرے۔ اس موقع پر ماھم انگہ پھر سامنے آگئی اور اکبر کو بیرم خان سے ملنے سے روک دیا اور کہا کہ اس ملاقات میں اکبر کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے ۔ہر طرف سے مایوس ہوکر بیرم خان نے کچھ دوستوں سے مدد لینے کی خاطر پنجاب کا رخ کیا۔اکبر پہلے ہی محتاط تھا اس نے بیرم خان کو روکنے کیلئے ایک لشکر روانہ کردیا ۔گجرات کے مقام پر مغلیہ سلطنت کے اس عظیم معمار کا آخر کا ر مغل لشکر سے ٹکراؤ ہوگیا ۔اس معرکے میں بیرم خان نے شکست کھائی اور دربار اکبری میں پیش کیا گیا ۔دربار میں اکبر نے بیرم خان کو بڑی عزت دی اور اس طرح پیش آیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ آخر میں اکبر نے بیرم خان کو بغرض عبادت حجاز مقدس کا سفر کرنے کا مشورہ دیا ۔اس زمانے میں حجاز کا سفر نہایت دشوار اور طویل تھا۔اس سفر میں عازمین حج کو لوٹ مار اور قتل غارت گری کا بھی سامنا پیش آسکتا تھا ،عازمین، حج کا سفر حج سے پہلے کہا سنا معاف کروانے کا اسی زمانے میں پڑا ۔
بادشاہ وقت جب کسی امیر یا مصاحب سے حد درجہ ناراض ہوتا یا اس سے شدید خطرہ لاحق ہوتا تو بادشاہ اس امیر کو سفر حجاز پر جانے کا کہتا ۔اس کا مطلب یہ ہوتا کہ بادشاہ اس شخص کو اپنی سلطنت کے کسی گوشے میں بھی دیکھنا نہیں چاہتا ہے۔ اکثر اوقات ایسے شخص کو قتل کرکے کسی جنگل بیابان میں پھینک دیا جاتا اور وہ دوران سفر ہی لاپتہ ہوجاتا، ایسا کچھ بیرم خان کے ساتھ بھی ہوا۔سفر حجاز کے دوران ایک شخص مبارک خان اس کے تعاقب میں لگ گیا۔ ایک روایت کے مطابق بیرم خان نے پانی پت کی لڑائی میں مبارک خان کے باپ کو قتل کیا تھا ۔جب سے مبارک خان بیرم خان کا دشمن بن گیا تھا اب اسے موقع مل گیا اور راستے میں اس نے موقع پا کر بیرم خان کا قتل کرکے اس کے تمام اسباب اور مال و دولت لوٹ لی ۔
بیرم خان کے بیٹے عبدالرحیم خان اور بیوہ سلیمہ بیگم کو دربارِ اکبری میں پیش کیا گیا ۔اکبر نے سلیمہ بیگم سے نکاح کرلیا اور اس کے بیٹے کو زیر کفالت لے لیا ۔یوں مغل سلطنت کا یہ عظیم معمار ایک سازشی عورت اور چند امراء کی بھینٹ چڑھ کر ختم ہوگیا ۔
8 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
حیا ہی پروانہ خیر
ویمن یونیورسٹی کی بس میں سب سے پہلی سوار ہونے والی حنا امتیاز معمول کے مطابق آج بھی کسی کتاب کی ورق گردانی میں گم تھی اس لیے اسے اپنے ارد گرد ہونے والی غیر معمولی ہلچل کا علم ہی نہ ہوا۔
آج کی کتب بینی نے اسے خاصا الجھن میں مبتلا کیا ہوا تھا فرانسیسی انقلاب کے وقت وہاں کی عوام نے قلم کاروں کی جس طرح پیروی کی وہ حیران تھی کہ کیسے کوئی قوم اپنے ہی جیسے انسانوں کے بنائے ہوئے افکار و نظریات کے پیچھے اندھا دھند چل پڑتی ہے چاہے وہ نظریات اخلاق سے کتنے ہی گرے ہوئے کیوں نہ ہوں۔
ڈرائیور کے ہارن کرنے پر اس نے کتاب سے سر اٹھایا تو بس مکمل خالی تھی اس کی ساتھی لیکچرار اور تمام طالبات بس سے پہلے ہی اتر چکی تھیں
یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ آج کیا دن ہے؟
کلاس میں داخل ہوکرحنا نے ابتدائی سلام دعا کے بعد طالبات کی طرف معنی خیز مسکراہٹ سے دیکھا
“ پیاری لڑکیو! آج خیر سے آپ میں سے بیشتر لڑکیوں نے سرخ رنگ کے دوپٹے اور بعض نے تو پورا لباس ہی سرخ پہنا ہے”
“جی میم! آج ویلنٹائن ڈے ہے نا” کسی ایک طالبہ نے جواب دیا
تو ساتھ ہی کسی دوسری طالبہ نے مزید وضاحت بھی پیش کردی “میم اب وہ جونا مناسب سا ویلنٹائن سب مناتے ہیں ویسا تو ہم کچھ نہیں کر رہے بس سب نے سوچا کہ ایک تہوار آرہا تو چلومنا لیا جائے تفریح ہو جائے گی”
ہممم۔۔تویہ باقی طالبات آپ کے ساتھ شامل کیوں نہ ہوئیں؟ جی نائلہ آپ کا اس دن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ حنا نے ایک طالبہ کو مخاطب کیا جوویلنٹائن ڈے منانے والی لڑکیوں میں شامل نہ تھی۔
میم میرے نزدیک ویلنٹائن اخلاقی لحاظ سے انتہائی نا مناسب تہوار ہے اوراس کا ایجنڈا حیا کے منافی ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے
"جب تم حیا نہ کرو تو جو جی چاہے کرو"
نائلہ لیکن ہم کوئی نا مناسب حرکت تو نہیں کر رہے نا۔ ایک دوسری طالبہ نے نائلہ کو ٹوکا
جی جی ایسا ہی ہے میری شہزادی! آپ کی نیت بالکل صاف ہے آپ کا مقصد تفریح کے علاوہ کچھ نہیں ہے یہ مجھے معلوم ہے۔ حنا نے خوبصورتی سے دونوں کی بات چیت میں مداخلت کی اور بات کو مزید آگے بڑھایا۔
لڑکیو!بات دراصل یہ ہے کہ جب ہم خود کو اسلام کے دائرے میں داخل کردیتے ہیں نہ۔۔۔ تو شعوری طور پر حیا کا اختیار کرنا ہمارے لیے اس طرح ضروری ہوجاتا ہے جس طرح سانس لینے کے لیے ہوا میں آکسیجن کا ہونا ضروری ہے کیوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
” حیا ایمان کی شاخوں میں ایک شاخ ہے۔ “
لیکن اللہ کی پناہ ہم ایسے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں جہاں حیا کو کم اعتمادی اور ترقی پذیر عناصر کے برخلاف گردانا جاتا ہے اور یہ وہ نظریات ہیں جو ہمارے کچھ نامی گرامی مہذب طبقے نے مغربی معاشرے سے شاید عاریتاً لیے تھے اور اب سارے معاشرے میں تیزی سے سرایت کر تے جا رہے ہیں
اس...
مایوس مت ہونا
ڈاکٹر فہمیدہ آپ نے تو میرا ووٹ ضائع ہی کروا دیا۔ساجدہ بیگم اپنا چیک اپ کروانے آئی تو ساتھ ہی شکوہ کر بیٹھی،میرے شوہر نے کہا بھی تھا، کہ اس شہر میں جماعت کو کوئی نہیں جانتاووٹ ضائع ہوجائے گا،لیکن میں سمجھی کیا پتاقوم ایک موقع دے ہی دیں دین دار لوگوں کو، ساجدہ باجی تو گویا آج بھری بیٹھی تھیں۔ کیا آپ نےامیر جماعت سراج الحق صاحب کا بیان نہیں سنا؟ڈاکٹر فہمیدہ نے تمہید باندھی، جب ایک نیوز اینکر نے سراج الحق صاحب سےسوال کیا،لوگ جماعت اسلامی کو ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ تو سراج الحق صاحب کا جواب تھا: ہر صبح فجر کے وقت مسجد سے اذان کی آواز آتی ہے” *حَیّ عَلی الْفَلاحِ حیّ عَلی الْفَلاحِ* اس آواز کو سن کر اگر کروڑوں لوگ سوتے ہیں اور چند ہزار لوگ اٹھ کر مسجدوں میں جاتے ہیں، تو یہ اس آذان یا موذن کی کمی نہیں ہے۔یہ تو ان لوگوں کی کمی ہے جنہوں نے نیند نہیں چھوڑی اور مسجد کی طرف نہیں دوڑے۔ اس لیے ہم تو اذان دیتے رہیں گےاور پکارتےرہیں گے کہ آو تمہاری دنیا اور آخرت کی کامیابی اس نظام میں ہے،جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں پیش کرچکے ہیں۔
نہیں ڈاکٹر صاحبہ میں تو سوچ رہی تھی ساجدہ باجی نے بات کاٹی،اتنا وقت کا ضیاع ہوا اتنا پیسہ خرچ ہوا اور گھرگھر جاکےسمجھایا بھی لوگوں کو بس اسی لیے نتیجہ دیکھ کرمایوس ہوگئی۔ سادہ طبیعت کی ساجدہ باجی پھر سے گویا ہوئیں۔ ساجدہ باجی کیا آپ نے وہ آیت نہیں پڑھی" الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا"(مال اور اولاد تو دنیا کی زندگی کی رونق ہیں، اور تیرے رب کے ہاں باقی رہنے والی نیکیاں ثواب اور آخرت کی امید کے لحاظ سے بہتر ہیں۔) اس لیے میری بہن یہ ہرگز نہ سوچو کہ ہمارا پیسہ یا وقت ضائع ہوا،ارے اس کا اجر تو اللہ تعالٰی کے ذمہ ہے۔
ہماری ساری تگ ودو اللہ کے دین کو قائم کرنے اور اس ملک میں قرآن کا قانوں نافذ کرنے کے لیے ہے۔ہم نے بالکل مایوس نہیں ہونا اللہ کو ہماری یہی کوشش ہی درکار ہے۔اللہ پاک اپنے جن بندوں سے محبت کرتا انھیں آزمائش میں بھی ڈالتاہےتاکہ پتا چل سکے کون سخت وقت پہ ثابت قدم رہتاہےاور کس کے قدم ڈگمگاتے ہیں،ڈاکٹر فہمیدہ نے نرمی سے سمجھایا۔پھر تو ڈاکٹر صاحبہ ہمیں دوبارہ سے اس مہم کی تیاری میں جُت جانا چاہیے۔بالکل میری بہن!نظام کب نافذ ہوگا یہ تو اللہ ہی جانتا ہے،لیکن ہماری کوشش تو ہرحال میں جاری رہنی چاہیے۔ ہم تو اللہ کے سامنے عزر پیش کرنے والے بن سکیں، کہ اے اللہ میں نے اپنی پوری کوشش کی جہاں تک ہوسکا میں نکلی،جہاں مجھے پکارا گیا میں نے لبیک کہا، میرے مولا تو جانتا ہے،میں نےاپنی طرف سے کوئی کمی نہیں چھوڑی، ہر گھر پہ دستک دی، ہر فرد کودعوت دی، لیکن یارب تو گواہ رہنا میری اس ادنٰی سی کوشش پہ اور مجھے ہمت دے کہ میں اور زیادہ دین کی خدمت کرسکوں، ڈاکٹر فہمیدہ فرط جذبات سے بولیں۔ ساجدہ باجی شرمندگی سے...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...
بہت اچھا اور معلوماتی مضمون ہے، اُمید ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
ماشاءاللہ نہائیت عمدہ کاوش ہے۔
عدیل سلیم جملانہ کا تاریخ پر عبور قابل ستائش ہے۔ خاص کر تاریخ کی گمنام/غیر معروف شعبوں پر آپ نہایت عبور رکھتے ہیں۔
شکریہ۔ ۔
اعظم صاحب اور حمود الرحمن صاحب
مضمون کے آخر میں ۔۔ بیرم خان۔۔ کے ہونہار بیٹے ۔۔۔ عبدالرحیم خان ۔۔۔ کا ذکر سرسری انداز میں کیا ہے۔ جب کہ یہ بڑا نام چند مزید سطروں کا متقاضی تھا۔ یہی عبدالرحیم خان۔۔۔اپنی خداد صلاحتیوں کے سبب اکبر کے نورتوں میں ۔۔۔ عبدالرحیم خانِ خاناں ۔۔۔ کے نام سے مشہور ہوا۔
اسی طرح خود بیرم خان کے انتقال کے بارے میں بھی کئی روایات ہیں۔ جن میں سے ایک ۔۔۔ ہیمو بقال ۔۔۔۔ کے ایک کمانڈر کی انتقامی کاروائی بھی بتائی جاتی ہے۔
اس بات سے آپ بخوبی آگاہ ہیں کہ اگرتاریخی مضامین کے آخر میں اگر واقعات کے علمی ماخذ شامل کر دیئے جائیں تو مضامین کا وزن کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
اللہ کرے زورِ رقم اور زیادہ ۔۔۔
(زورِ قلم ۔۔۔ درست نہیں ہے )
محترم ۔۔۔۔آپ کی تحریر اچھی اور حوصلہ افزاء ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت زبردست تاریخ کے اوراق سے ایک خوبصورت اور معلوماتی تحریر
شکریہ سرفراز عالم صاحب
مغل تاریخ پر مذید کچھ شائع کریں عدیل بھائی ۔۔۔