معاملات کی درستگی دین کا اہم باب

آج وہ صاحب دوبارہ سے اسی دروازے کے سامنے نظر آئے ۔ صبح گزرتے ہوئے متعجب نگاہوں سے ان پر اچٹتی نگاہ ڈالی اور سلام عرض کیا۔ انہوں نے سلام کا جواب دیا اور میری نظروں کی حیرانگی کوبھانپتے ہوئے گویا ہوئے: ’’ادھار تو بندہ کسی کو دے ہی نہیں ، ا ب دیکھو ناں ! آج تیسرا دن ہے روزانہ ادھر کے چکر لگاتا ہوں۔ کبھی گھر پر نہیں ہوتے تو کبھی پیسے نہیں ہوتے۔ پھر انہوں نے جیب سے ایک چرمرائی ہوئی کاپی نکال کر دکھائی کہ یہ دیکھو میرے ساتھ لکھت کی تھی کہ اس تاریخ کو ادھار لوٹا دوں گا۔ اب تو مجال کہ کسی کو قرض دوں۔ ساتھ ہی انہوں نے وہ کاپی لپیٹتے ہوئے اس گھر کا رخ کیا جب کہ میں اپنے راستے ہو لیا۔ دکانوں پر لگے اسٹکر’’ ادھار ایک جنگ ہے اسی لیے بند ہے‘‘ خوب سے سمجھ آگیا تھا۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’قرض لینے سے بچو ،کیوں کہ وہ را ت کے وقت رنج و فکر پیدا کرتا ہے اور دن کو ذلت و خواری میں مبتلا کرتا ہے۔ ( بہیقی فی شعب الایمان)
اول تو قرض لینے سے احتراز برتنا چاہئے کہ حضور ﷺ نے فرمایا :کہ اے مسلمانو! اگر تم میں سے کوئی آدمی پیوند پر پیوند لگائے اور پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہے تو اس سے بہتر ہے کہ وہ قرض لے اور اس کے ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔( مسند امام احمد) ہمیں مفلسی ، محتاجی اور ذلت و خواری سے پناہ مانگتے رہنا چاہیے۔ لیکن اگر کسی نے ضرورت کے وقت اپنے کسی مسلمان بھائی سے قر ض لے لیا تو معاہدے پر پورا اترے اور وعدے کی پاسداری کرے.۔معامالات کی درستگی دین کا اہم باب ہیں ۔ جسے بدقسمتی سے ہم لوگوں نے اپنی زندگیوں سے خارج کر دیا ہے۔ اور دین صرف نماز، روزہ، حج و عمرہ اور اوراد و وظائف پر منحصر کر دیا ہے۔روپے پیسے کے لین دین کو آزاد چھوڑ دیا جیسے اس سے ہمارا کوئی تعلق ہی نہیں۔حالاں کہ شریعت اسلامیہ کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ عبادات کے احکامات ایک چوتھائی جب کہ تین چوتھائی معاملات و معاشرت کے متعلق ہیں۔
معاملات کی کمزوری تمام طبقات میں پائی جاتی ہے۔دینی فکر رکھنے والے لوگ بھی معاملات میں سستی برتتے ہیں۔ جس کا اثر جہاں ان کی شخصیت پر پڑتا ہے وہیں عبادات اور دین پر بھی پڑتا ہے ۔ مقابل والے دین سے متنفر ہو جاتے ہیں۔ جب کہ یہ تواس شخص کا اپنافعل ہے ۔ دین تو وعدے کی پاسداری، معاملات کی درستگی کا حکم دیتا ہے۔مولانا اشرف علی تھانوی ؒ فرمایا کرتے تھے ’’ مجھے جب کسی مرید یا شاگرد کے متعلق پتا چلتا ہے کہ یہ عبادات میں سستی کرتا ہے تو اتنا دکھ نہیں ہوتا جتنا جب پتا چلتا ہے کہ فلاں شخص معاملات میں سستی کرتا ہے۔معاملات یہ مقام رکھتے ہیں کہ اگر انسان روپے پیسے کے معاملات میں کوتاہی برتتا ہے ، حلا ل حرام، جائز ناجائز کا امتیاز نہیں رکھتا تو اس کا اثر عبادات پر پڑتا ہے کہ اجر و ثواب ضائع ہو جاتا ہے۔علماء فرماتے ہیں کہ :عبادات میں کوتاہی ہو جائے تو اس کی تلافی قدرے آسان ہے فرض نماز چھوٹ گئی تو اب زندگی میں قضاء لوٹا لو، اگر زندگی میں ادا نہ کر سکے، تو وصیت کر لے کہ گر میں مر جاؤں اور نمازیں ادا نہ ہوئی ہوں تو میرے مال میں سے فدیہ ادا کر دیا جائے۔اور توبہ کر لے اللہ کریم کے ہاں تلافی ممکن ہے۔ لیکن اگر کسی کا مال ناجائز طریقہ سے کھا لیا ، ہڑپ کر لیا، تو اس کی تلافی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک صاحب حق معاف نہ کر دے۔ چاہے وہ ہزار توبہ کرے، ہزار نفلیں پڑھے، ہزار تسبیح پھیرے۔
معاملات کے شعبے میں مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ اپنی بات کا سچا اور پکا ہوتا ہے۔ وہ کسی دھوکا دہی، فراڈ، فریب، بدعہدی کا معاملہ نہیں کرتا اور بے جا طریقے سے دوسرے کا حق غصب کرنے کی فکر میں نہیں رہتا۔چناں چہ ارشاد ہے:’’اور وہ مومن فلاح یافتہ ہیں جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کا پاس کرنے والے ہوتے ہیں‘‘۔امانت کے لغوی معنی میں ہر وہ چیز شامل ہے جس کی ذمہ داری کسی شخص نے اٹھائی ہو، اور اس کے معاملے میں اس پر بھروسہ کیا گیا ہو۔ لیکن آج الٹ ہو گیا ہے۔ معاملات کی درستگی میں کفار تو صاف ستھرے نکلتے ہیں ۔ جو وعدہ کریں نبھاتے ہیں ، بات کے سچے ثابت ہوتے ہیں، دیگر لین دین کے معاملات میں بھی کھرے نکلتے ہیں۔ مختصر یہ کہ مسلمانوں کی تمام صفات پر وہ لوگ پورا اترتے ہیں سوائے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے۔ مگر افسوس ہم مسلمان بہت سستی برتتے ہیں۔ کھرا بول کے کھوٹا بیچتے ہیں۔ معاہدہ کر کے توڑ دیتے ہیں۔ اشیائے فروخت میں ملاوٹ یا ان کے عیب کو چھپا دیتے ہیں۔ معاملات کی صفائی، ایفائے عہد مومن کا وہ طرہ امتیاز رہا ہے جسے دیکھ کر بہت سے کافر مسلمان ہوئے۔
مگر آج وعدہ خلافی کو ہم جرم ہی نہیں سمجھتے ، معاملات کو دین سے بالکل ہی الگ سمجھتے ہیں۔ نماز تو پنج وقتہ پڑھیں گے، تسبیح بھی اہتمام سے پھیریں گے، لیکن جب معاملے کہ باری آئے گی تو ناپ تول میں کمی، وعدی خلافی، جھوٹ، فریب، دھوکا۔ جب کہ اس سب سے دین اسلام سختی سے منع کرتا ہے۔ معاملات میں ہم اگر صاف نہیں تو ہمارے بقیہ سارے اعمال ضائع ہو جائیں گے۔ خدارا! نبی ﷺ کی صفات کو زندگی میں لا کر آپ ﷺ کے اسوہ کو اپنائیے۔سیرت طیبہ کا مطالعہ کیجیے۔حضرت معاذؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ سب سے عمدہ پیشہ ان سوداگروں کا ہے جو بولتے ہیں تو سچ بولتے ہیں(جھوٹ نہیں بولتے) اور اگر ان کے پاس امانت رکھوائی جائے تو خیانت نہیں کرتے اور جب وعدہ کرتے ہیں تو اس وعدہ کے خلاف کبھی نہیں کرتے، جب کوئی چیز فروخت کرتے ہیں تو اس کی بے حد تعریف نہیں کرتے اور جب کوئی چیزخریدتے ہیں تو اس کی قیمت ادا کرنے میں دیر نہیں کرتے اور اگر ان کا قرض کسی کے ذمہ ہو تو مقروض پر سختی نہیں کرتے۔ بیہقی

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں