جنت کے مسافر–اک خواب–ایک حقیقت

رات کس پہر آنکھ لگی اندازہ نہیں -سینے پر رکھی کتاب بدن سے ڈھلک کر بستر پرآگری تھی،وہ کتاب کیا اک داستان تھی۔گزرے ہوئے اچھے برے دنوں کی بےشمار یادیں ،- سامراجی برہمنوں اور متعصب ہندؤوں کی عیاری ومکاری سے پردہ اٹھاتی حقائق پر مبنی خونچکاں داستان – ایک ایسا سچ جو سانحہ سقوط مشرقی پاکستان کے پنتالیس سال کے بعد بھی اپنوں میں اجنبی بن گیا اور غیروں میں معتوب ٹہرا – اس وفاداری اور غداری کی داستان کو پڑھتے وقت جانے کتنی مرتبہ آنکھوں سے آپ ہی آپ آنسو رواں ہوئے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب پپوٹے بوجھل ہوتے چلے گئے اور آپ ہی آپ بند بھی – آنکھ کھلی تو کچھ نہ تھا بجز چند حسین یادوں اور ایک باوقار ملاقات کے جو میرے سابقہ مشرقی پاکستانی بھائیوں سے ہوئی – قارئین کو بتا تا چلوں کہ میں بسلسلہ ملازمت تین سے زائد مرتبہ بنگلہ دیش جا چکا ہوں- ڈھاکه ،کھلنا ، چاٹگانگ، سلہٹ ، رانگا ماٹی ،کومیلا اور راجشاہی کے علاقے ایک سے زائد بار دیکھے – ( عبدالقادر مولا اور میر قاسم علی سے بھی ملاقا ت کا شرف حاصل رہا ) مقامی بنگالیوں سے ملاقا تیں بھی کیں اور ان سے اس سانحے پر تفصیلی گفتگو بھی ہوتی رہی – ان ملاقاتیوں میں بزنس مین کمیونٹی کے افراد بھی تهے اور سابقہ پاکستان آرمی ( موجودہ بنگلہ دیش سابق فوجی بھی ) اور عوامی لیگی ایکٹوسٹ ( سابقہ مکتی باہنی ) کے افراد بھی کہ جن کے گھر کے مرکزی دروازے پر ایسی تصویر فریم کر کے لگائی گئی تھی جس میں صاحب خانہ کندھے پر بندوق رکھے آزادی کی جنگ میں شریک دکھائی دے رہے ہیں – المختصر بنگلہ دیش میں گزرے حسین لمحات اور یادداشتیں میرے ذھن کے کینوس پر اپنا رنگ جما چکی ہیں – میری سیلانی طبعیت اور سیمابی مزاج نے ان یادوں کو ایک انتہائ خوبصورت منظر میں ڈھالنے کے بعد حسین و جمیل پوٹریٹ تشکیل دے دیا – رانگا ماٹی کا گھنا جنگل ، چاٹگانگ کا گہرا پر سکون ساحل جو سال میں ایک بار ضرور اپنے جوبن پر آکر نشیبی آبادی پر قہر بن کر ٹوٹتا ہے – بل کھاتے ندی نالے ، گیلی نرم مٹی اور جا بجا خشکی پر موجود چھوٹی چھوٹی کشتیاں جو سیلابی حالات میں استمعال ہوتیں- آبادی کے وسط میں قدرتی تالاب ،پانی کے جوہڑ جو بستی والوں کی آبی ضروریات کو پورا کرنے کے علاوہ بھی بہت کام آتا – ڈھاکه شہر میں لاکھوں کی تعداد میں سڑک کے بیچوں بیچ چلتے سائکل رکشہ اور رنگ برنگی لنگیوں میں اپنا بدن چھپاتے سائیکل رکشہ ڈرائیور سواریوں کو کھینچنے میں مصروف – دھان منڈی ، موتی جھیل ،میر پور ،گلشن ،بونانی اور جامع مسجد بیت المکرم ، اس کی بغل میں کرکٹ اسٹیڈیم جس کے اطراف بھرے بازار۔

سولہ دسمبر کو 1971مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا – مگر سب پہلے کی طرح اپنی جگہ موجود ہے -کچھ بھی تو نہیں بدلا – ہاں اگر کچھ تبدیل ہوا ہے تو وہ ہے ، پرچم – شناخت – لہجہ -سوچنے اور دیکھنے کا زاویہ – جس کوواپس لانا ، تبدیل کرنا اب شاید ہمارے لئے ممکن نہیں – اب ہمیں سمجھوتا کرنا ھوگا – حالات سے -اپنے آپ سے اپنے اطراف پیش آنے والی حقیقتوں سے۔

اس صبح میں نے اپنی آنکھ کھلنے سے پہلے جو منظر دیکھا اس کو بیان نہ کرنا آپ کے ساتھ زیادتی کے مترادف ھوگا اسی خیال کے پیش نظر آپ بھی اس منظر میں شریک ہو جائیں- اس رات میں اپنے بہت سے احباب کے ساتھ کسی دوست کے مہمان خانے میں موجود ہوں – مہمان خانہ دوستوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا ہے – مزید احباب بھی آتے جارہے ہیں – بیٹھنے کے لئے فرشی نشست کا ا ھتمام کیا گیا ہے ، مھمان خاص کے لئے دو صوفے دیوار کے ساتھ لگائے گئے ہیں جن پر مولانا عبدا لقادر شہید اور میر قاسم علی شہید تشریف رکھے ہوئے ہیں – میری گود میں میرا سب سے چھوٹا بیٹا بھی ہے جو ماحول کو سمجھنے کی اپنی سی کوشش کررہا ہے – اس کو یوں بےکل دیکھتے ہوئے میر قاسم علی نے آگے بڑھ کر اپنی گود میں بٹھا لیا اور مجھ سے بولے ” بالکل میرے پوتے جیسا ہے ، اس کا خیال کرنا ، حا فظ قرآن بنانا ” میں نے جواب دیا ” الحمدللہ حفظ کررہا ہے” – اس جواب پر بے انتہا خوش ھوئے – تقریب میں سوال و جواب کی نشست بھی تھی – شرکاء محفل یکے بعد دیگرے اپنے ذھن کے مطابق سوالات کر رہے تھے – تمام سوالات کا تعلق بنگلہ دیش جماعت اسلامی ، وہاں کے موجودہ حالات ، سیاسی کشمکش ، مصائب و مشکلات، اور حسینہ واجد کی جانب سے تازہ ترین مظالم ، پھانسیوں اور گرفتاریوں کے حوالے سے تھا – کچھ سوال سقوط مشرقی پاکستان اور پاکستانی فوج کے کردار اور جماعت اسلامی کے مزاحمت کے فیصلے کے حوالے سے بھی کئے گئے – ہر سوال کا جواب دونوں ذمہ داران نے نہایت تسلی آمیز اندا ز میں دیا۔

ایک سوال کے جواب میں جو جماعت اسلامی بنگلہ دیش پر موجودہ آزمایش کے تناظر میں کیا گیا تھا عبدالقادر مولا شہید نے بتایا کہ ” آپ کس آزمائش کی بات کر رہے ہیں ؟ ھمارے اوپر تو اس سے بڑی آزمائشیں ماضی میں دو مرتبہ پہلے بھی گزر چکی ہیں – پہلی آزمائش اس دن آئی تھی جب پاکستان دو لخت ہوا تھا – اس رات تو ہم تمام ہی آزمائے گیے تھے – بہت سے اپنی مراد پا گئے – بہت سے گرفتار ھوئے – ڈھاکه چاٹگانگ ، سید پور ،کھلنا کا کوئ میدان ایسا نہیں تھا جہاں ہمارا خون نہ بہا ہو ، مکتی باہنی کے غنڈے ڈھونڈھ ڈھونڈھ کے ہمیں گھروں سے باہر لاتے ، برھنہ کرنے کے بعد مارتے ،تصویر بنواتے اس طرح جیسے ھرن کا شکاری ھرن مارنے کے بعد شکار کئے گئے جانور کے ساتھ فوٹو بنواتا ہے – جب فوٹو سیشن پورا ھوجاتا تو جئے بنگلہ کے نعروں کی گونج میں سنگین بھونک کر سانس اور زندگی کا رشتہ ختم کردیا جاتا – عالم یہ تھا کہ ایک ایک میدان میں سو سو لاشیں بے کفن پڑی ھوتیں – کتے بلی اپنی بھوک مٹانے کو لاشیں سونگھتے اور مکتی باہنی کے غنڈے زندہ رہ جانے والے غیر بنگالیوں اور جماعت کے کارکنوں کو سونگھتے – پاس پڑوس کے رہنے والے بھی اپنی جان کے خوف سے ہماری مخبری کرنے میں آسرا نہیں کرتے تھے – گھر کے ملازم بھی کسی نہ کسی کام کے بہانے سے گھر سے باہر نکلتے اور واپسی میں مکتی باہنی کے غنڈوں کو لےکر آجاتے – غیر بنگالی آ بادیوں میں جو قتل عام مکتی باہنی کے ہاتھوں ہوا اس کا کوئ ریکارڈ نہیں ہے – تین ساڑھے تین لاکھ غیر بنگالی لاشیں اسکولوں اور پناہ گزین کیمپوں سے ملیں – کلاس روم میں خون کی تہہ سخت پپڑیوں کی شکل میں جم چکی تهیں – غیر ملکی صحافیوں میں جس نے اں مناظر کی تصویر بنائ اس کو مکتی باہنی کے غنڈوں نے مار مار کر بھاگنے پر مجبور کردیا- کیمرے چھین لئے گئے – چاٹگانگ میں ایک ایک میدان میں اوپر تلے بیسیوں لاشیں پڑی تهیں – زندہ بچنے والے اسطرح زندہ بچے کہ ان میں سے بہت سے لاشوں کے نیچے چھپ گئے او ر اں کے جسم سے بہنے والے خون کو اپنے اوپر مل لیا تاکہ انہیں بھی مردہ سمجھ کر نالے میں پھینک دیا جائے۔

متحدہ پاکستان سے محبت کرنے بہت سے جوان رانگا ماٹی کے پہاڑوں میں چلے گئے چکما قبائل نے ان کو پناہ تو دی مگر جو بھی بارڈر فورسز کے ھاتھ آیا زندہ نہیں بچ سکا – زمین ہم پر تنگ ہو چکی تھی آسمان نے اپنا دامن ہمارے لیے وا کردیا تھا – کچھ ساتھیوں نے بھیس بدلا اور ھاتھ میں لوٹا مصلی پکڑ کر تبلیغ پر نکل گئے – کچھ جیل چلے گئے – جیل قدرے بہتر جگہ تھی اس لئے کہ فوری طور پر سنگینوں سے نہیں مارے جارہے تھے – وہاں پر غداری کا مقدمہ بن رہا تھا جس سے بچنا نسبتا آسان تھا -عبدالقادر مولا بے تکان بول رہے تھے میرے بیٹے نے میرے کان میں کھسر پسر کرنی شروع کی مولانا کہتے کہتے رک گئے اور پوچھا ” یہ بچہ کیا پوچھ رہا ہے ؟” میں نے بات کا رخ موڑنے کےلئے کہا کہ ” کچھ نہیں آپ گفتگو جاری رکھیں ” مولانا نے بچے سے ھی پوچھ لیا ” بیٹا آپ کیا پوچھ رہے ہیں اپنے ابو سے ؟ بچے نے معصومیت سے کہا ” انکل آپ تو مر چکے تھے ، آپ کو تو پھانسی ہو گئی تھی پھر ادہر کیسے ؟ ” عبدالقادر مولا بہت زور ہنسے ، بولے ” بیٹا آپ کو آپ کے ابو نے یہ نہیں بتایا کہ جو اللہ کے راستے میں مارے جاتے ہیں ان کو موت نہیں آتی ، وہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ” اس کے بعد سلسلہ تکلم وہیں سے شروع ہوتا ہے جہاں سے منقطع ہوا تھا – اللہ نے اتنے سخت اور نا سازگار حالات میں بھی ہم میں سے بہت کو زندہ رکھا – ھم نے جیل میں ہی موقع غنیمت جان کر اپنی تنظیم جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے نام سے منظم کرنا شروع کیا اور جو رہائ پاچکے تهے انہوں نے جیل سے باہر نکلنے کے ساتھ ھی موتی جھیل کے پاس ایک پارک میں چار کارکنوں سے دوبارہ اقامت دین کی جدوجہد شروع کردی – اندرون ڈھاکه ہم منظم ہورہے تھے – شیخ مجیب طاقت کے نشئے میں اپنے ہندوستانی سرپرستوں کی گود میں جا بیٹھا تھا – ون پار ٹی سسٹم کے جنون نے اس کی آمریت کو طشت ازبام کردیا تھا – عین ممکن تھا کہ بھارت اس کے ذریعے ہندوستان سے الحاق کا اعلان کروادیتا – عام بنگالی پاکستان سے علیحدہ تو ہوگیا تھا مگر اس کو یہ ہر گز منظور نہ تھا کہ بنگلہ دیش اب اپنی شناخت کھو کر ہندوستان بن جائے – بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمان کی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف تحریک جنم لے چکی تھی- اور یہ وقت بھی ہم نے دیکھا کہ بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر 15 اگست 1975ء کو بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کو اس کے اپنے گھر میں 37 افراد بشمول اہل خانہ قتل کر دیا۔ صرف ان کی دو بیٹیاں شیخ حسینہ اور شیخ ریحانہ زندہ بچیں جو اس وقت جرمنی میں زیر تعلیم تھیں۔ ڈھائ دن تک اس کی لاش بے گور و کفن پڑی رہی – پھر فوج نے ھی اس کی لاش اس کے آبائ گاوں فرید پور پہنچا ئی بنا کفن کے دفن کیا – اور سونار بنگلہ کا خالق اپنے ھی لوگوں کے ہاتھوں اپنے بھیانک انجام کو پہنچا – جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے لئے شیخ مجیب کی موت بھی ایک آزمایش تھی – عوامی لیگی ایک مرتبہ پھر جان کے دشمن بن گئے – وہ مجیب کے خلاف بنگالی فوج کی بغاوت کے پیچھے جماعت اسلامی کا ہاتھ تلاش کرنے لگے – فسادات میں جماعت اسلامی کے افراد کو اپنا نشانہ بنایا – مگر اللہ نے اس بار بھی ہماری مدد کی اور عام انتخابات میں ہمیں بھر پور عوامی تائید میسر آئی – پھر ہم نے مخلوط حکومت بھی بنائی اور پوری تندہی کے ساتھ بنگلہ دیش کے استحکام کے لئے اپنا کردار ادا کرنا شروع کیا – جماعت اسلامی بنگلہ دیش کےلئے حالات جب جب خراب ھوئے اس کے نتیجے میں عوامی تائید کا وزن ھمارے حق میں آتا چلا گیا – ھم سمجھتے ہیں کہ اسوقت جو آزمائش ہم پر آئ ہوئ ہے اس میں بھی بہتری کی کؤی نہ کؤی سبیل اللہ ہمارے لئے نکال دیں گے – ہم نه پہلے مایوس ہوئے تھے اور نہ ہی اب – مایوسی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا – زندگی موت الله کے اختیار میں ہے وہ جیسے اور جب چاہے واپس لے – میر قاسم علی شہید سے سوال کیا گیا کہ ” پاک فوج نے ھتیار ڈال کر آپ لوگوں کو تنہا کردیا اس پر آپ کیا کہتے ہیں ” جواب بہت مد لل تھا میر قاسم بولے ” دیکھیں جناب جہاں تک نظریہ پاکستان اور اس نظرئیے کی حمایت میں متحدہ پاکستان کو بچا نے کی جدوجہد کا تعلق ہے جماعت اسلامی نے کبهی فوج کی طرف نہیں دیکھا – ہماری اپنی سوچ تھی کہ جس طرح بھی ممکن ہو پاکستان کو ٹو ٹنے سے بچایا جا ئے – پاکستان کو ہماری ضرورت تھی – ہم کیسے پیچھے رہ سکتے تھے – ہندوستان نظریاتی محاذ پر پاکستان بننے کے بعد سے مسلسل نفرت آمیز پرو پیگنڈا کر رہا تھا جس کا جواب مشرقی پاکستان میں اسلامی چھا تر و شبر اور جماعت اسلامی نے ہر موقع پر دیا – یہ کیسے ممکن تھا کہ جب عملی میدان میں نکلنے کا وقت ہو تو ہم اپنے مؤقف سے رو گردانی کریں – پاک فوج نے ھتھیار ضرور ڈالے مگر ہم نے آخری سانس تک اپنا کردار ادا کیا – ہمارا وعدہ اللہ سے تھا ، فوج سے نہیں – ہم سمجھتے ہیں کہ متحدہ پاکستان کی فوج پاکستان بچا نے کی جدوجہد کر رہی تھی اس لئے اس کا ساتھ دے کر ہم نے کوئ غلطی نہیں کی – اب جب کہ بنگلہ دیش بن گیا ہے اور ہم وہاں کے شہری ہیں تو ہم وہاں کے بھی اسی طرح وفادار ہیں جیسے متحدہ پاکستان کے تھے – ہمارا مؤقف دو ٹوک اور واضح ھے – قائد اعظم نے دو قومی نظریہ میں اسلامی نظام اور دستور پاکستان کے سوال پر وضاحت کرتے ھوئے قرآن پاک کو ھاتھ میں اٹھا کر لوگوں کو بولا تھا کہ یه ہے اس نئی مملکت کا دستور اور منشور ! اب آپ ھی بتائیے کہ قائد اعظم اس جواب کے بعد بھی کسی اور سوال کی گنجائش باقی رہ جاتی هے ؟ رات بہت بیت چکی تھی – میرا بیٹا میری گود میں ہی سو چکا تھا- سوالات تو اور بھی بہت ہوئے مگر ان دونوں شہدا کو کہیں اور بھی جانا تھا – ان کی سواری آچکی تھی انہوں نے شرکاء محفل سے اجازت طلب کی اور پھر ملنے کا وعدہ کرکے رخت سفر باندھ لیا – جنت کے مسافر اپنے سفر پر روانہ ھوگئے۔

حصہ

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں