جب کتاب کو جامعہ میں داخلہ نہ ملا

کہتے ہیں کہ کسی گھر کا ماحول دیکھنا ہوتو وہاں کے بچوں کو دیکھ لو سب پتا چل جا ئے گا ، ایسے ہی اگرکسی یونیورسٹی کے بارے میں جا ننا ہو تو وہاں کے طلبا کو دیکھ لیں تو اس کی تمام تر صورت حال واضح ہوجائے گی ۔

میں بات کر رہا ہوں این ای ڈی یو نیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنا لو جی کی جہاں کے طلبہ نہ صرف ذہین اور باصلاحیت ہیں بلکہ بہت محنتی بھی ہیں ، جو اپنی پڑھائی کے ساتھ دیگر غیر نصابی سرگرمیاں اور تعلیمی پروگرام کے انعقاد میں بھی کسی سے کم نہیں ہیں ۔

ایسا ہی ایک پروگرام اسلامی جمعیت طلبہ این ای ڈی یو نیو رسٹی کی طرف سے کیا گیا ،جس کا عنوان  ’’ایجوکیشن فیسٹا اور بک فیئر ‘‘کے نام سے ہونے والا یہ ایونٹ  22,21,اور  23نومبر 2017 کو تین دن تک جا ری رہا ، جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی معروف سیاسی ،سماجی و مذہبی شخصیات نے شرکت کی اور طلبہ کی کوششوں کو سراہا ۔

پروگرام کے پہلے روز کا افتتاح ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی شہلا رضا اور ڈاکٹر معراج الہدی صدیقی امیر جماعت اسلامی صوبہ سندھ نے کیا ۔ اور بک فیئر کے مختلف اسٹالوں کا دورہ  بھی کیا ، اس مو قع پرشہلا رضا طلبہ کو داد دیئے بغیر  نہ رہ سکیں ان کا کہنا تھا کہ جمعیت کی طرف سے منعقد کردہ یہ کتب میلہ طلبہ کے لیے کسی انعام سے کم نہیں ہے جس میں طلبہ کو ان کے کورس اور ان کی پسند کی تمام کتابیں ایک ہی جگہ پر ڈسکائونٹ کے ساتھ مل جا تی ہیں ، انہوں نے کہا کہ جب ہم طالب علم تھے تو اس زمانے میں بھی جمعیت اس طرح کے کتب میلے کیا کرتی تھی ، اس کی یہ روایت آج بھی قائم ہے ، جس پر جمعیت اور ان کے تمام ذمہ داران مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ کتب میلے میں شریک ہو نے والے طلبہ کے چہروں پر خو شی دیدنی تھی ۔

تاہم اس میں سب سےزیادہ افسوس نا ک بات یہ تھی کہ اس کتب میلے کے انعقاد کی اجازت جامعہ کی حدود میں نہ مل سکی مجبوراًیہ کتب میلہ سڑک  پر کتابیں رکھ کر کیا گیا ۔یہ منظر دیکھ کر میں بہت افسردہ ہو گیا اور یہ سوچنے لگا کہ جب ایک یو نیورسٹی طلبا کو اپنی حدود میں ایک مثبت علم دوست سرگرمی اور کتب میلے کے انعقاد کی اجازت نہیں دیتی تو پھر معاشرے میں کتب بینی اورعلم کا فروغ کیسے ہو گا ، یہ بے چارے طلبہ کہاں جا ئیں گے اور علم کی طرف کیسے راغب ہوں گے ۔

مگر یہ امر بھی بہت خوش آئند ہے کہ جہاں ایک طرف یونیورسٹی کی انتظامیہ ان طالب علموں کے ساتھ کو ئی تعاون نہیں کرتی اور ان کے پروگرام میں روڑے اٹکاتی نظر آتی ہے ، وہیں دوسری طرف یہ طلبہ تمام تر مخالفتوں اور مشکلات کے باوجود بغیر کسی انتظامی و مالی تعاون کے نہ صرف  ایک علم دوست اور کتاب دوست سرگرمی کا کامیابی سے انعقاد کرتے ہیں بلکہ اس سلسلے کو جاری رکھتے ہو ئے مسلسل تین روز تک  اپنے ثابت قدم ہونے کا ثبوت بھی پیش کرتے ہیں ۔

غرض یہ کہ معاشرے کے ہر طبقے کو ان طلبہ کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور اس طرح کی مثبت سرگرمیوں میں ان کے ساتھ تعاون بھی کرنا چاہیے تاکہ ہم ملک کا روشن مستقبل دیکھ سکیں ۔

 

حصہ

2 تبصرے

Leave a Reply to محمد انظر انور