بیوی _ متعلّمہ سے معلّمہ تک 

        اہلیہ نے ابتدا ہی میں بتا دیا کہ ان کا ناظرہ ختم نہیں ہوپایا تھا ، اس لیے وہ قرآن بہت اٹک اٹک کر پڑھ پاتی ہیں۔ میں نے کہا : “کوئی بات نہیں ، میں پڑھا دوں گا ”  اگلے دن سے کلاس لگنے لگی۔اکثر صبح ، ورنہ دوپہر ، شام یا رات میں سونے سے قبل ، یہاں تک کہ ان کا قرآن بھی ختم ہوگیا اور وہ درست تلفّظ کے ساتھ قرآن پڑھنے لگیں۔

       میں گھر میں کبھی کبھی کہتا کہ کیسے لوگ ہیں جو قرآن مجید کو بے سمجھے بوجھے پڑھتے ہیں، دنیا میں کوئی کتاب ایسی نہیں جسے بغیر سمجھے پڑھا جاتا ہو ، سوائے اللہ کی کتاب کے ۔ میں نے دیکھا کہ اہلیہ اب اس مصحف سے تلاوت کرنے لگیں جس میں ترجمہ بھی تھا۔ وہ جتنے حصے کی تلاوت کرتیں اس کا ترجمہ بھی پڑھ لیتیں۔ کچھ دنوں کے بعد انھوں نے خواہش کی کہ ان کے موبائل میں قرآن مجید مع ترجمہ کا آڈیو اپ لوڈ کروادیا جائے۔ تعمیل کی گئی۔ پھر تو روزانہ صبح گھر میں قرآن اور اس کے ترجمے کی آواز سنائی دینے لگی۔ ناشتہ یا کھانا بناتے وقت بھی وہ اسے آن کر لیتیں۔ کبھی رات میں سونے کے لیے بستر پر پہنچتا تو دیکھتا کہ موبائل سے تلاوت و ترجمہ کی آواز آرہی ہے اور وہ سو رہی ہیں ، یعنی بستر پر جاتے وقت انھوں نے اسے آن کر لیا تھا ، سنتے سنتے وہ نیند کی آغوش میں پہنچ گئیں اور موبائل بجتا رہا۔ میں کہتا کہ مجھے یہ بے ادبی معلوم ہوتی ہے کہ کوئی دوسرا کام کرتے ہوئے تلاوت و ترجمہ سنا جائے ۔ وہ کہتیں : ” کام کرتے ہوئے قرآن کی کچھ باتیں کان میں پڑ جائیں تو بُرا نہیں”

       اہلیہ کی تعلیم ہندی میڈیم سے ہوئی تھی،ان کی اردو کم زور تھی۔اردو خواندگی بہتر بنانے کے لیے میں نے ایک ترکیب اختیار کی۔انہیں کہانیاں اور ناول پڑھنے کا شوق تھا۔ میں نے ابن صفی کے ناول لاکر دینے شروع کیے ، جنھیں وہ بہت شوق سے پڑھنے لگیں۔ میرے آفس میں بہت سے اردو رسائل آتے تھے ۔میں بعض رسائل گھر لانے لگا۔ان میں سے کوئی کہانی ، کسی حدیث کی تشریح ، سیرتِ نبوی یا سیرتِ صحابہ سے متعلق کوئی مضمون دوپہر میں کھانے کے دوران یا رات میں کسی وقت پڑھ کر سناتا۔ کبھی ادھورا سناتا ، تاکہ بقیہ وہ خود پڑھ لیں۔کبھی اپنا حاصلِ مطالعہ گھر میں زبانی اپنے الفاظ میں بیان کرتا۔

       لوگ میرے پاس فقہی استفسارات بھیجتے ہیں۔ کبھی ان کا جواب لکھنے سے قبل گھر میں سناتا اور اہلیہ سے کہتا کہ اس کا کیا جواب دیا جائے ؟ کبھی جواب لکھ کر سناتا اور دریافت کرتا کہ یہ جواب درست ہے یا اس میں کچھ تبدیلی کی ضرورت ہے ؟ اس طرح اہلیہ کا ذہنی افق وسیع ہوتا گیا اور ان کی دینی معلومات میں اضافہ ہوتا رہا۔

        میں نے محسوس کیا کہ اہلیہ کے اندر علم میں اضافہ کے ساتھ عمل کا جذبہ بڑھ رہا ہے ۔ انفاق فی سبیل اللہ کے موضوع پر میں نے بارہا تقریریں کی ہیں ، لیکن خود اپنے اندر عمل کا ویسا جذبہ پیدا نہ ہوسکا ، جیسا اہلیہ کے اندر دیکھا ۔جماعت کے بیت المال میں اعانت کے طور پر انھوں نے کچھ رقم دی تو میں نے کہا : ” میں تو دیتا ہوں، آپ کو بھی دینے کی کیا ضرورت ہے؟” کہنے لگیں : ” آپ اپنے لیے دیتے ہیں، مجھے بھی ثواب کمانا ہے ۔” پھر انھوں نے ماہانہ اعانت دینے کا معمول بنا لیا۔

      گھر میں انھوں نے ایک کام والی لگا رکھی ہے ۔ روزانہ اسے چائے پلانا اور ناشتہ کرانا  ان کا معمول ہے ۔ طے شدہ اجرت کے علاوہ ، اس کے کبھی بیمار  ہونے پر اور اس کے خاندان میں کسی کی شادی ہونے پر ، الگ سے تعاون کرتی رہتی ہیں۔وہ چاہے جتنے ناغے کر لے ، اس کی اجرت نہیں کاٹتیں میں نے کہا : ” ایسے ہی رویّے کی وجہ سے کام والیاں اور لاپروا ہوجاتی ہیں ، ناغوں کا پیسہ کاٹ لینا چاہیے _” کہنے لگیں : ” ہم کتنا پیسہ دیتے ہی ہیں کہ اس میں سے بھی کم کرلیں _”  ہم 15 دن کے لیے وطن  گئے ۔ میں نے کہا : ” اس بار کام والی کو نصف ماہ کی اجرت دیجیے گا _” کہنے لگیں : ” یہ درست نہیں ، کام والی کا کوئی عذر تو تھا نہیں ، ہم نے اس سے کام نہیں لیا ہے ، اس لیے اس کا پیسہ کاٹنا جائز نہیں۔

       رشتے داروں کے یہاں پہنچنا تو دور کی بات ہے ، میں اپنی کوتاہی کی وجہ سے موبائل کے ذریعے بھی ان کی خیریت نہیں لے پاتا۔ اس طرح کافی عرصہ بیت جاتا ہے ، ان کی خیریت نہیں مل پاتی۔ میں نے دیکھا کہ اہلیہ اپنے میکے اور سسرال دونوں جگہوں کے رشتے داروں سے برابر رابطہ رکھتی ہیں اور جلدی جلدی موبائل سے ان کی خیریت دریافت کرتی رہتی ہیں ۔اس وجہ سے میرے اپنے رشتے دار بھی جتنی محبت مجھ سے کرتے ہیں اس سے زیادہ ان سے  کرتے ہیں۔

       ایک بار پردہ کے موضوع پر بات ہونے لگی ۔ میں نے کہا : ” مولانا مودودی نے چہرے کے پردے کو ضروری قرار دیا ہے ، جب کہ یہ بات صحیح نہیں _” کہنے لگیں : ” بالکل درست بات ہے ، چہرہ کھلا رہے تو کیسا پردہ؟” میں نے کہا : “علامہ البانی نے چہرہ کھلا رکھنے کا جائز کہا ہے _” کہنے لگیں: ” جائز ہو تو بھی چہرہ چھپانا بہتر ہے _” میں نے علامہ البانی کے بیان کردہ کچھ دلائل پیش کیے تو کہنے لگیں : ” اپنا علم اپنے پاس رکھیں، مجھے عمل کرنے دیں۔”

       خاص طور پر رمضان المبارک میں مجھے  شدت سے احساس ہوتا ہے کہ اہلیہ کا جذبہ عمل مجھ سے کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے ۔ دن میں تلاوت کرنا ، افطار بنانا،رات کا کھانا تیار کرنا ، مسجد جاکر تراویح مکمل 20 رکعت پڑھنا ، ( رات 11 بجے مسجد سے واپسی کے بعد سوتے سوتے 12 بج جاتے ہیں ) پھر 2 بجے ہی اٹھ جانا، تہجد پڑھنا ، تلاوت کرنا ، سحری تیار کرنا ، پورے ماہ رمضان میں ان کا روز کا معمول ہوتا ہے ۔ میں  کہتا ہوں : ” تراویح سے قیام اللیل کا ثواب حاصل ہوجاتا ہے _”  تو جواب دیتی ہیں : “سحری کے لیے اٹھنا ہی ہوتا ہے، میں چند رکعت اس وقت بھی پڑھ لوں تو کیا غلط ہے؟ ” یہ اس وقت ہے جب وہ متعدد أعذار میں مبتلا ہیں، جن سے انھیں اٹھنے بیٹھنے میں دشواری ہوتی ہے۔

        شکر ہے، اہلیہ سادہ موبائل استعمال کرتی ہیں۔ یہ تحریر ان کی نظر سے گزرتی تو مجھے معلوم ہے ، وہ یہی کہتیں : ” کیوں مجھے سرِ بازار کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔”

 

حصہ
mm
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی صاحبِ طرز قلم کار ،مصنف اور دانش ور ہیں۔ وہ تصنیفی اکیڈمی، جماعت اسلامی ہند کے سیکریٹری اور سہ ماہی مجلہ تحقیقات اسلامی کے نائب مدیربھی ہیں۔

2 تبصرے

  1. It all because of you , you are the success, you are great, I salute you. because your sincere heart gave her such opportunityto develop and learn.

جواب چھوڑ دیں