کچھ باتیں تعلیمی اداروں کے بارے میں

کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جن پر اپ تھوڑا سا اگر غور کریں توآپ کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں ۔ میں یونیورسٹی سے ہاسٹل جارہا تھا تو بور ہورہا تھا راستہ بھی تھوڑا سا لمبا تھا ۔ تو بوریت کو ختم کرنے کے لیے میں نے ریڈیو آن کیا سوچا اسی بہانے کچھ نیا سننے کو ملے گا اور سفر بھی آسانی سے گزرے گا ۔ اس وقت پتا نہیں کونسا پروگرام چل رہا تھا مجھے ابھی ٹھیک طرح سےیاد نہیں مگر جس موضوع پر وہ بات کررہے تھے وہ بہت اچھا لگا مجھے ۔ موضوع تھا “برابری “یعنی

 مساوات ” جس پر وہ ریڈیو میزبان بات کر رہا تھا ۔ اس کی ایک بات مجھے بہت اچھی لگی جو میں نے نوٹ کی کہ آجکل ہماری نئی نسل جو ہے جس کی تعداد بہت زیادہ ہے وہ تعلیم میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہی اور اس کی بڑی خوبصورت وجہ انہوں نے بیان کی ۔ اس نے کہا کہ ہماری جو نئی نسل ہے وہ تعلیم میں کم اور برینڈڈ کپڑوں اور جوتوں میں زیادہ دلچسپی لے رہی ہیں ۔ اس وجہ سے جو غریب یا لوئر کلاس طبقہ جو تعلیم کے لیے دیہاتوں سے شہروں کا رخ کرتے ہیں وہ ان امیر گھرانوں کے بچوں یا اپر کلاس طبقے کو دیکھ کر احساس محرومی اور احساس کمتری کا شکار ہوجاتا ہے جس سے معاشرے میں ایک تقسیم  پیدا ہوجاتا ہے ۔ اسکول ، کالجز اور یونیورسٹی جو تعلیم اور تربیت کی کی جگہ ہے وہاں بچے اس دوڑ میں لگ جاتے ہیں کہ جینز یا کوٹ میں نے کونسے برینڈ کا پہنا ہے اور جوتے مجھے کونسے برینڈ کے پہننے ہیں ۔ اس دوڑ میں جو لوئر کلاس یا غریب طبقہ ہے وہ لگ جاتا ہے اور اپنے مقصد سے وہ دور چلے جاتے ہیں  ۔اسکول جہاں سارے بچے یونیفارم پہن کرجاتے تھے وہاں یہ تاثر بہت کم پایا جاتا تھا کیونکہ وہاں یونیفارم ہوتی تھی جس کا مطلب اتحاد اور برابری تھی ۔ امیر لوگوں کے بچے بھی وہی یونیفارم پہنتے ،متوسط اور غریب بچے بھی وہی ایک ڈریس پہنتے ۔ توا سکولوں میں یہ تاثر بہت کم پایا جاتا ہے لیکن جب آپ یونیورسٹی لیول پر آجاتے ہے تو یہ معاشرتی تقسیم عروج پر ہوتی ہے۔اس کا بہترین حل یہ ہے کہ یکساں نظام تعلیم ہونا چاہیے،ا سکول لیول سے ماسٹر لیول تک ایک یونیفارم ہونا چاہیے تحقیق پر زیادہ زور دیا جائے بجائے رٹہ سسٹم کے۔

دوسرا جو اہم مسئلہ ہے وہ اسکولوں ،کالجز اور یونیورسٹیوں میں بھی آج کل بڑی اور چھوٹے برینڈز متعارف ہوئے ہیں ۔ جس کا یہ لوگ بڑی ہوشیاری کے ساتھ طلباء کے مستقبل کے ساتھ کھیل رہے ہیں ۔ وہ تعلیم کے بارے لوگ اکثر یہ جملہ کثرت سے استعمال کرتے ہیں ۔”علم بڑی دولت ہے ” واقعی علم بڑی دولت جس کی وجہ سے آج کل اتنی نئی نئی یونیورسٹیاں ، اسکول اور کالجز بن رہے ہیں ۔ ان سرمایہ داروں نے تعلیم کو بھی نہیں بخشا یہاں بھی یہ لوگ خاصے سرگرم ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا پرائیویٹ اسکول، کالجز اور یونیورسٹیاں نہیں بننے چاہیے ۔ بلکہ میں اس بات پہ زور دے رہا ہوں کے تعلیم کے شعبے سے وہ لوگ جو پیسہ کمانے کی غرض سے آتے ہیں ان کا خاتمہ ہونا چاہئے ۔

تیسری جو اہم بات ہے طلباء تنظیموں سے پابندی ہٹائی جائے اور اس کے لیے کالجز اور یونیورسٹیوں میں ایک قانون اور لائحہ عمل بنایا جائے جس کے رو سے وہ طلباء کے مسائل کو بھرپور انداز میں اجاگر کرے اور سیاست سے پاک طلباء تنظیموں کا وجود عمل میں لایا جائے ۔ جو طلباء کی تعلیم و تربیت میں مثبت کردار ادا کرسکے۔

باقی تعلیم کو ایسا معاشرتی نظام عطاء کیا جائے جو ہر قسم کے فتنے اور فساد سے پاک ہو ۔ فیسوں اور داخلوں میں کمی کی جائے بلکہ وہ لوگ جو مستحقین ہے ان کے لیے تو تعلیم کو پوری طور بلامعاوضہ کیا جائے ۔ کیونکہ پاکستانی معاشرے میں جہاں ان غریب اور بے بس لوگوں کو آگے جانے کے لیے کوئی چارا نہیں ہوتا تو  وہاں تعلیم ہی ایک واحد راستہ ہے جو ان کو کامیابی کی طرف آگے لے جاسکتا ہے لیکن پتہ نہیں یہ ہماری ملک کی بد نصیبی ہے کہ وہ لوگ یا تو مجبوری کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں اور کسی مستری ،کارخانے یا دوکان میں بطور مزدور لگ جاتے ہیں یا کسی دہشتگرد تنظیم یا کسی جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں چڑھ جاتے ہیں ۔

ان غریب گھرانوں سے جو بچے نکلتے ہیں زیادہ تر ان کی تعداد لائق ہوتی ہیں اور آگے پڑھنا چاہتے ہیں لیکن حکومت کی سرمایہ دارانہ پالیسیوں کی وجہ سے وہ لوگ زندگی کا مقصد حاصل کرنے میں نا کام ہوجاتے ہیں ۔

بہت سے ایسے لوگ ہے جو ان غریب گھرانوں سے نکلے اور تعلیم ہی کی بدولت آج وہ ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہیں اور بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں اور خدمت کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں ۔

ان میں ایک محمد صابر بھی ہے جو لاہور کا رہائشی ہے اور اس کا تعلق بھی بڑے غریب گھرانے سے ہے ۔ رہنے کے لیے ان کے پاس گھر نہیں تھا ۔ والدہ دوسروں لوگوں کے گھروں میں بطور ماسی کام کرتی تھی اور والد گدھا گاڑی چلاتے تھے۔ لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور کچرا جمع کرنے کا ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی تعلیم بھی جاری رکھی اور سخت محنت کے ساتھ اگے بڑھتا رہا ۔ اور آخر کار 2012 میں ایمرجنگ لیڈر آف پاکستان کے فیلو کی حیثیت سے امریکہ کا سفر کیا اور وہاں سے ٹرینیگ حاصل کی اس پروگرام کو اٹلانٹک کونسل چلاتا ہے اور یہ مستقبل کے نوجوانوں کو با اختیار بنانے کے لیے کام کرتی ہے ۔ محمد صابر جو آج کل اسلم آباد کے نام سے ایک ادارہ بھی چلاتے ہیں جو موبائل ٹوئلٹ اور تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اپنے خدمات لوگوں تک پہنچاتا ہے ۔۔

بہت سارے ایسے نوجوان موجود ہیں اس ملک کے اندر مگر ان کے لیے مواقع بہت کم ہے ۔ حکمرانوں کو چاہیے کو وہ ایسے پالیسی بنائیں جن سے غریب عوام کو فائدہ ہو اور عوام کو بھی چاہیے کے ایسے لوگوں کو منتخب کریں جو ان کے دکھ درد اور ان کے مسائل کو سمجھے ۔اقبال نے کیا خوب کہا ہے ۔۔۔۔

ذرا نم ہو تو یہ مٹھی بڑی زرخیز ہے ساقی۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں