احسن اقبال،یہ سیاست نہیں آخرت کا معاملہ ہے

اسلام کی بنیاد توحید، عقیدہ ختم نبوت ﷺ اور معاشرتی انصاف پر قائم ہے۔
قرآن کی زبان میں ظلم صرف یہ بھی نہیں کہ کسی کا قتل کر دیا جائے بلکہ علم رکھنے کے باوجود غلط اور گمراہی پہ اصرار کیا جائے’ یہ بھی ظلم ہے۔ اور بستیوں کی تباہی موخر الذکر ظلم پر ہی ہوئی ہے۔

گزشتہ روزپارلیمنٹ میں وزیر داخلہ صاحب احسن اقبال نے وزیر قانون زاہد حامد کا جس طرح دفاع کیا تو مجھے زمانہ جاہلیت میں اپنے قبیلے کی ہر حال میں حمایت و اعانت کی  روایات یاد آگئیں۔

 سمجھیں کہ تعصب کسے کہتے ہیں؟
جنگ یمامہ کے دوران رات کے وقت کچھ مسلمان سپاہی اپنے لشکر سے نکلے تاکہ چہل قدمی کرسکیں- کچھ دور جاکر ان کا سامنا مخالف لشکر کے کچھ سپاہیوں سے ہوگیا- ایک مسلمان سپاہی نے مخالف لشکر کے ایک سپاہی کو پہچانتے ہوئے پوچھا کہ اے فلاں! کیا تم بنی حنیفہ کے اس وفد میں شامل نہیں تھے، جو مدینہ آیا تھا اور اسلام قبول کیا تھا
اس نے اثبات میں جواب دیا۔
مسلمان سپاہی نے پوچھا کہ کیا تمہیں یقین نہیں ہے کہ حضرت محمد ﷺ، اللہ کے سچے نبی ہیں اور مسیلمہ کا دعوی نبوت جھوٹ پر مبنی ہے۔
مخالف کا جواب محض جواب نہیں تھابلکہ تعصب کا عملی مظاہرہ تھا جو آدمی کی عقل کو اندھا کردیتا ہے اور درست فیصلے کرنے کی صلاحیت سے محروم کردیتا ہے۔اوربعض اوقات دین و دنیا دونوں ہی ہاتھ سے جاتے ہیں۔
اس نے جواب دیا تھا کہ
“میرے نزدیک ربیعہ کا جھوٹا مضر کے سچے سے بہتر ہے”

وزیر قانون نے پارلیمنٹ اپنی توصیف بیان کرتے ہوئے اپنے حج اور عمرہ کا زکر کیا تو خیال آیا کہ محترم سے عرض کروں کہ یقین جانئیے حضور ابوجہل نے آپ سے زیادہ حج اورعمرے کیئے ۔ آپ سے کہیں زیادہ حاجیوں کی خدمت کی  آپ سے کہیں زیادہ حاجیوں کو پانی پلایا ۔
اسکے لئیے تو نبی مہربان ﷺ نے دعا کی ۔ مگرباوجود اسلام کی دعوت کو برحق ماننے کہ وہ محض تعصب میں جہنم نشین بنا کہ نبوت بنو ہاشم میں کیسے آگئی ۔

مشرف کی باقیات کو اصولی طور پہ گلے لگانے کر ان کو وزارت کا عہدہ دینے والوں یعنی نواز شریف نے ہی امریکہ کی فرمایش پہ “باریک کام” کر کے ختم بنوت ﷺ کے اصولی قانون کو بدلا تھا ۔ وہ پریس کانفرنس تو آج بھی موجود ہے کہ جس میں وزیر موصوف نےرعونت آمیز لہجے میں برملا کہا تھا کہ کوئی قانون اقرار ختم نبوت ﷺ تبدیلی نہیں کی گئی۔ تو پھر کون سی ترمیم واپس لی گئ ؟ دال میں کچھ کالا تھا یا پوری دال ہی کالی تھی ؟ آپ کا یہ کہنا آپ کے عمل سے میل نہیں کھاتا کہ ” مجھ سے کوئی ایسی بات منسوب ہو جس سے نبیﷺ کی شان میں نعوذ باللہ کوئی حرف آئے۔ میں نے دو حج کئے ہیں میں سچا عاشق رسول ﷺ ہوں”۔ آپ نے اپنی غلطی کی معافی بھی نہیں مانگی۔ اس کا اقرار بھی نہیں کیا اور قانون میں کی گئی تبدیلی واپس لے لی ۔ کیا یہ کسی مذاق سے کم نہیں کہ تبدیلی واپس بھی لے رہے ہیں اور غلطی کا اقرار بھی نہیں کر رہے۔

احسن اقبال صاحب یہ سیاست کا نہیں آخرت کا معاملہ ہے ۔ کالی بھیڑیں کہیں اور نہیں آپ کے ساتھ موجود ہیں ۔ ظلم کا ساتھ تعصب، پارٹی کی محبت اور مخالفت برائے مخالفت کے نام پر مت دیں ۔ اپنی والدہ کے نام کی ہی لاج رکھیئے  آپ کا یہ جملہ نہایت افسوسناک اور کاٹ دار ہے کہ “ہم سب مسلمان ہیں، ہمارا اتنا ہی ختم نبوت پر ایمان ہے جتنا کسی اور کا ہے۔ زاہد حامد کو یہ وضاحتیں پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم ہر کسی کو صفائی دینے کے پابند نہیں ہیں ۔”

وزیر صاحب ، اپنی گردن میں سریا مت لائیے ۔ سچ بولیں ۔ اتنا بڑا باریک کام زاہد حامد صاحب نے ایسے ہی نہیں کیا ۔ اقرار کریں ۔ اس دنیا اور آخرت دونوں میں آپ کا قد بلند ہو گا

تحریک لبیک یا رسول اللہ ﷺ کی حکمت عملی اور طریقہ کار سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر مطالبے سے نہیں ۔ وزیر قانون زاہد حامد جو مشرف کی باقیات ہیں ان کو فوری طور پہ برطرف ہونا چاہئے۔

دوسرا معاملہ علی امین گنڈا پور کا ہے ۔ جن کا تعلق تحریک انصاف سے ہے ۔ جو کچھ بھی ڈیرہ اسماعیل خان میں ہوا ہے اس کی آزادانہ تحقیقات کی جانی چاہئے ۔ موصوف کی گاڑی سے شہد کی بوتلیں پہلے بھی برآمد ہو چکی ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ آبرو ریزی کے واقعے کے براہ راست ذمہ دار نہ ہوں مگران کی ظالم ؛ طاقتور، بااختیار، جاگیردار طبقے کی حمایت تحریک انصاف کے چہرے کو داغدار کر رہی ہے۔

ہمت کریں اور سچ بولیں ؛ اگر موصوف ذمہ دار ہیں یا براہ راست یا بالواسطہ یا مجرموں کی حمایت اور طرف داری میں ملوث ہیں تو ان کو اپنی پارٹی کے ہی کٹہرے میں کھڑا کیجئیے ۔

کسی معصوم کی عصمت و عفت و عزت و حرمت کسی بھی قسم کی سیاست سے اور سیاسی مفادات سے بالا تر ہے ۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا اپنے بھائی کی مدد کرو ظالم ہو یا مظلوم اور ظالم کی مدد اس طرح کرو کہ اس کو ظلم سے روکو

تو کیا تحریک انصاف کی قیادت ظالم کےساتھ ہے یا مظلوم کے ساتھ ۔ اس وقت حقیقت اور واقعات کچھ اور بتا ررہے ہیں مظلوم بچی کے ساتھ سوائے زبانی جمع خرچ کے کچھ نظر نہیں آیا۔

انسانوں کی دنیوی اور اخروی زندگیوں کی تباہی ۔ صرف اور صرف تعصب اور وابستگی کے نام پہ ظلم کا ساتھ دینے پر ہے آئیے ان زنجیروں کو توڑیں اور یاد رکھئے ۔ آخرت موجود ہے ورنہ قدرت ظالم ہوتی۔

حصہ
mm
کاشف حفیظ صدیقی ایک تحقیقاتی ادارے سے وابستہ ہیں ۔ کراچی کے مقامی روزنامے میں طویل عرصہ "منظر۔پس منظر" کے نام سے کالمز بھی لکھتے رہے ہیں ۔ 7 تحقیقی کتب کے مصنف بھی ہیں ۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں