مکافاتِ عمل

ٹی وی پہ چلنے والی سرخ پٹی کے مطابق اے سی ایل سی کا سابق پولیس افسر ملک ارشاد جیل میں حرکت قلب بند ہونے سے مرگیا ۔۔۔۔
میں نے ٹی وی کے کونے میں نظر آنے والے وقت پہ نگاہ دوڑائی تو شب کا آخری پہر تھا ، ساڑھے تین بج چکے تھے ۔
پلک جھپکنے سے بھی کم وقت میں ، میں اچانک دو ہزار نو کی ایسی ہی ایک تکلیف دہ رات اور کم و بیش اتنے ہی وقت جا پہنچا ۔ جب تکیہ کے نیچے رکھا فون بلبلانے لگا ، فون پہ طارق کا نام اور ہندسے جگمگا رہے تھے ۔
دل سے آواز نکلی کہ خدا خیر کرے کیونکہ اُن دنوں پیپلزپارٹی اے این پی اور ایم کیو ایم کی مشترکہ سرکار میں کراچی بیروت بن چکا تھا اردو بولنے والوں کے علاقوں سے کوئٹہ وال اپنے ہوٹلز اونے پونے بیچ کر اپنے شہروں کو منتقل ہورہے تھے ، پتلون پہنے مہاجر بنارس و لیاری سے نہیں گزرتے تھے اور پشتون و بلوچ ان کی آبادیوں سے ، شہر کے مختلف علاقے سندھی ، پشتون ، مہاجر ، بلوچ اور طالبان کے درمیان منقسم تھے ساتھ ہی فرقہ وارانہ بنیادوں پہ ہدف بنا کر قتل عام کا سلسلہ بھی عروج پہ تھا ۔
فون کان سے لگاتے ہی مجھے دوسری جانب بے پناہ شور محسوس ہواجس میں سائرن کی آوازیں سب سے بلند تھیں چیخ و پکار اور موبائل کے اسپیکر سے تیزا ہوا کی آواز گویا کان چیر رہی تھی ۔
فیض بھائی انہوں نے سب کو مار دیا ہے یہ دھشتگرد یا ڈاکو نہیں تاجر تھے گاڑی خریدنے آئے تھے  ۔
طارق ترین کے بے ربط جملے اور شور سے یہ اندازہ تو ہوگیا تھا کہ کوئی بڑا حادثہ ہوچکا ہے ۔
کون دھشت گرد نہیں تھے ؟ کس نے کس کو مارا ؟ میں نے تقریباً چیختے ہوئے اس سے پوچھا ۔
ملک ارشاد ، اے سی ایل سی والے نے چمن کے چار تاجروں کو جعلی مقابلے میں مارا ہے ، یہ میرے مہمان بھی تھے چمن سے آئے تھے اور نئی گاڑی کی بکنگ کرا رکھی تھی جو آج دن میں ملی، رات میں کھانا وغیرہ کھا کر نکلے تھے واپسی کے لئیے اور انہیں ملک ارشاد نے قتل کردیا ، خدا کی قسم یہ عام تاجر ہیں ان کا سارا ریکارڈ موجود ہے ۔
طارق نے تفصیلات سے آگاہ کیا ۔
غم و غصے کی ایک لہر پورے جسم میں دوڑ گئی کہ خدایا کیسا ظلم ہے یہ ، خیر ۔
دفتر رابطہ ہوا تو کرائم رپورٹر نے بتلایا کہ پولیس کے مطابق مقابلہ ہے لیکن ہم قریبی دوستوں کے حوالے سے خبر چلاسکتے ہیں کہ یہ ڈاکو یا دھشتگرد نہیں بلکہ تاجر تھے ۔
لاشیں آبائی علاقے منتقل اور اخبارات میں شور مچ چکا تھا چند ایک مظاہرے بھی ہوئے پھر ہمیشہ کی طرح بات آئی گئی ہوگئی ، قصہ پارینہ بن چکی ۔
ملک ارشاد کے خلاف عدالت کی مدد سے مقدمہ قائم ہوا اور اسکی کئی ایسی  کہانیاں کھلیں کہ محافظ کے روپ میں اصل قاتل و ڈاکو یہی پولیس والا تھا جس کا دھندہ حفاظت نہیں بلکہ مظلوموں پہ ظلم تھا ۔
ایک عرصہ مفرور رہنے کے بعد وہ گرفتار ہوا اور چمن کے تاجروں سمیت متعدد ایسے اغواء اور کار چوری کے مقدمات اس پہ چلتے رہے ، اسے سزائیں بھی ہوئیں جسکے خلاف اسکی اپلیں زیر سماعت تھیں کہ ایسے میں وہ بیتی شب اپنے جرائم کیساتھ رب حقیقی سے جا ملا ۔
بلاشبہ ، ہم ظالم مظلوم خوبصورت بدبصورت خوش قسمت بدقسمت امیرغریب اورسب کچھ ہونے کے باوجود” مر” جاتے ہیں ۔۔۔
لیکن سوچتے پھر بھی نہیں ، کم از کم میں تو نہیں سوچتا اور آپ ۔؟

حصہ
mm
فیض اللہ خان معروف صحافی ہیں۔۔صحافیانہ تجسس انہیں افغانستان تک لے گیاجہاں انہوں نے پانچ ماہ تک جرم بے گناہی کی سزا کاٹی۔۔بہت تتیکھا مگر دل کی آواز بن کر لکھتے ہیں۔کراچی میں ایک نجی ٹی وی چینل س وابستہ ہیں

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں