بدلتا ہوا شہر اقتدار

پچھلے دنوں الیکشن کے حوالے سے منعقدہ ورکشاپ میں اسلام آباد جانا ہوا۔ ورکشاپ کے آخری روز راولپنڈی اسلام آباد کے سرگرم صحافی رہنما بلال ڈار سے رابطہ کرنے کے بعد کراچی سے گئے ہوئے صحافی دوستوں کے ہمراہ نیشنل پریس کلب پہنچے تو وہاں ہمارے استقبال کےلیے انتہائی ملنسار اور نفیس خاتون صحافی فرح ناز بھی موجود تھیں۔ تھوڑی دیر بعد ہی بلال ڈار بھی ہمارے ساتھ شامل ہوگئے۔

کراچی کے بدلتے سیاسی منظرنامے اور کچرے کے چھوٹے چھوٹے پہاڑوں میں بدلتے کراچی پر تبصرہ کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کی خاموشی کے بارے میں بھی بات ہوئی جس پر خاکسار کی رائے تھی کہ آنے والے وقتوں میں اسلام آباد شہر خموشاں نہیں بلکہ ایک میٹروپولیٹن شہر ہوگا۔ جس تیزی سے یہاں تعلیمی ادارے اور شاپنگ مالز بن رہے ہیں، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ یہ شہر بھی بدلنے والا ہے۔ جناح سپر مارکیٹ کے پاس رہائش ہونے کی وجہ سے روز رات کو چہل قدمی کےلیے باہر نکلا کرتے تھے جس سے بخوبی اندازہ ہوا کہ یہاں کے لوگ بھی اب دیر تک جاگنے کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔ خاص طور پر ویک اینڈ پر خاصی گہماگہمی دیکھنے میں آئی۔

دوران گفتگو ایک صحافی دوست نے بتایا کہ انہوں نے کسی کتاب میں یہ بات پڑھی تھی کہ اسلام آباد کا بسنا ایک بزرگ کی پیش گوئی تھی کہ راول گاﺅں میں ایک بادشاہ بہت بڑا شہر تعمیر کرے گا۔ اس پیش گوئی کو صدر جنرل ایوب نے پورا کیا جب 1960میں ایوب خان نے جس شورشرابے، ہجوم اور ماحولیاتی آلودگی سے بچ کر اس سرسبز و شاداب چمن کو دارالحکومت بنایا تھا، آج انہی سڑکوں پر شام کے وقت ٹریفک جام ہوتاہے اور بازاروں میں رش دیکھنے کو ملتا ہے۔ محترمہ فرح ناز جو شروع ہی سے اسلام آباد کی رہائشی ہیں، انہوں نے بتایا کہ پہلے لوگ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے آبائی گھروں کو روانہ ہوجایا کرتے تھے جس کے باعث اسلام آباد شہر خموشاں کا منظر پیش کیا کرتا تھا۔ اب ایسا نہیں ہوتا، بس کچھ علاقے جہاں ہوسٹل وغیرہ ہیں وہاں ضرور لوگوں کی آمد و رفت کم ہوجاتی ہے اور انڈسٹریل ایریا سنسان ہوجاتا ہے۔

بدلتے اسلام آباد کی بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایاکہ ترقیاتی کاموں کی وجہ سے شہر گرد و غبار میں لپٹ گیا ہے۔ فضا میں دھوئیں اور مٹی کی آمیزش کے سبب آکسیجن کی مقدار بالکل کم ہوگئی ہے جس میں اہم کردار انڈسٹریل ایریا نے ادا کیا ہے۔ اس کی وجہ سے آلودگی اور درجہ حرارت بھی بڑھ گیا ہے۔ فضائی آلودگی کو قابو کرنے کےلیے جو گرین بیلٹس بنائی گئی تھیں، اب وہاں مارکیٹیں تعمیر کردی گئی ہیں جس پر میں نے کہا کہ آبپارہ مارکیٹ تو کراچی کی لیاقت مارکیٹ کا منظر پیش کرتی ہے جبکہ سپر مارکیٹ کلفٹن کے گلف شاپنگ سینٹر لگتا ہے۔

ہم نے پہلے سنا اور پڑھا تھا کہ اسلام آباد میں صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا تھا اور کئی دن تک بارش نہ ہونے پر گاڑیاں درختوں کی بھی دھلائی کیا کرتی تھیں۔ ہیلی کاپٹر کے ذریعے سڑک کنارے لگے درختوں پر اسپرے کیا جاتا تھا جس کی محترمہ نے تائید کی اور کہا بلکل ایسا ہی ہوتا تھا مگر اب بہت کم ہوتا ہے۔ کسی زمانے میں اسلام آباد دنیا کا نواں خوبصورت ترین شہر کہلاتا تھا۔ یہ دنیا کے بلند ترین پہاڑوں کوہ ہمالیہ کے سائے میں بسا ہوا ایک شہر ہے۔ اس کے مضافات میں سات ہزار سال پرانے یعنی پانچ ہزار سال قبل مسیح کے تہذیبی آثار ملتے ہیں۔

ایک صحافی دوست نے انجمن تاریخ و آثار شناسی پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر غضنفر مہدی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ان کے مطابق شہاب الدین غوری کی تعمیر کردہ ایک ہزار سال پرانی مسجد مارگلہ کی پہاڑی پر زمین بوس ہوچکی ہے۔ بدھ مت کے عہد کے چار ہزار سال پرانے غار منہدم ہوچکے ہیں، صرف ایک باقی ہے۔ راجہ آف ٹیکسلا نے جس جگہ سکندراعظم کے آگے ہتھیار ڈالے تھے، اس مقام کی حالت بھی خراب ہے۔ بدھ مت کے قدیم درختوں اور تالابوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ زیرو پوائنٹ کے قریب پنج پیر کی زیارت منہدم ہوچکی ہے اور 700 سال پرانا حضرت بابا فریدالدین گنج شکر کا چشمہ بند کردیا گیا ہے۔ لوئی دندہ اور سید پور کے آثارِ قدیمہ کی حالت بھی ابتر ہے جس کےلیے حکومت وقت کو دیکھ بھال کرنے، ان آثار کو بچانے اوران کی ثقافت کے تحفظ کےلیے جامع حکمت عملی مرتب کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

اسلام آباد کے ایک صحافی نے ہماری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ وطن عزیز کی بڑی بڑی ہستیاں اس شہر میں ابدی نیند سورہی ہیں 1965 میں 50 ایکڑ رقبے پر مشتمل پہلا ایچ ایٹ کا شہر خموشاں 2007 میں بند کرکے نیا قبرستان ایچ الیون میں قائم کیا گیا۔ ایچ ایٹ قبرستان میں مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے نامور افراد بھی ابدی نیند سو رہے ہیں جن میں احمد فراز، پروین شاکر، الطاف گوہر، قدرت اللہ شہاب، جوش ملیح آبادی، زبیدہ آغا، صدیق سالک، کرم حیدری، مولانا کوثر نیازی، ممتاز مفتی، محمد منشا یاد، مسعود ملک، طفیل نیازی، نسیم حجازی، بیگم وقار النساء نون، یاسین رضوی، قاضی علیم اللہ عارفی، مولانا محمد اسماعیل ذبیح، اعجاز راہی اور دیگر شامل ہیں۔

باتوں باتوں میں وقت کا پتا ہی نہیں چلا اور ہمارے دوسرے دوستوں کی کراچی کی فلائٹ تھی جبکہ ہمیں تو محترمہ فرح ناز کے ساتھ دوسرے دن صبح پارلیمنٹ ہاﺅس جانا تھا۔ اس لئے سب دوستوں نے بلال ڈار اور نیشنل پریس کلب کے عہدیداران سے اجازت لی اور محترمہ فرح ناز صاحبہ نے ہمیں ہوٹل تک چھوڑا۔۔۔

 

حصہ

جواب چھوڑ دیں