سیکولر دہشت گرد

حق و باطل کی لڑائی روز ازل سے جاری ہے اور تاقیامت جاری رہے گی۔ مثالی معاشرے کا بنیادی اصول ایک ہی ہے’’برداشت‘‘۔ دینی، دنیاوی ،معاشی ہو یا اخلاقی معاملات، ہر جگہ برادشت ، بردباری کے اصول کے تحت ہی زندگی کو کامیاب بنایا جا سکتا ہے تاہم مسائل اسی وقت جنم لیتے ہیں جب ہم کسی دوسرے کی حدود میں گھنسے کی کوشش کرتے ہیں۔ القاعدہ، طالبان،سپاہ صحابہ ، سپاہ محمد  یا عسکری جدوجہد کرنے والی دوسری  تنظیموں کے نظریات کو معاشرے نے اسی لئے مسترد کیا کیونکہ انہوں نے دوسروں پر اپنے مذہبی اور سیاسی نظریات تھوپنے کی کوشش کی۔ اب ایک جانب یہ دہشت گردانہ نظریات ماند پڑنے لگے ہیں تو دوسری جانب سیکولر دہشت گردی سر اٹھانے لگی ہے۔ سیکولر دہشت گردی نئی ٹرمنالوجی سہی،ابھی اس کی ابتدا ہے لیکن اگلے چند برسوں اس کے اثرات کھل کر سامنے آنے لگیں گےجو یقیناً بھیانک ہوں گے۔

القاعدہ ، طالبان یا دوسری شدت پسند تنظیموں نے ہتھیار کے ساتھ اپنے نظریات تھوپنے کی کوشش کی اور سیکولر دہشت گرد میڈیا، سوشل میڈیا اور عالمی طاقتوں کی مدد سے اپنے نظریات تھوپ رہے ہیں۔ آسان الفاظ میں لبرل ہونے کا مطلب اپنے کام سے کام رکھنے والا اور سیکولر ہونے کا مطلب لادین  ہونا ہے تاہم لبرل لوگ نہ اپنے کام سے کام رکھ رہے ہیں اور سیکولر ازم کے ماننے والوں کو صرف مذہب اسلام سے تکلیف ہے۔ ان کے نزدیک یہودیت یا عیسائیت کے انتہائی متنازع عقائد تو قابل قبول ہیں تاہم اسلام کسی صورت قابل برداشت نہیں۔انہیں چرچ پرپورا دن گزارنے والے عیسائی اور پوری دنیا کو اپنے سے حقیر جاننے والے یہودی سے کوئی تکلیف نہیں ،البتہ مسلمان کے 15 منٹ مسجد میں گزارنے کو فوراً وقت کا ضیاع قرار دے دیتے ہیں۔ اب شرمین عبیدچنائے کا معاملہ ہی دیکھ لیں، زنا کے درجنوں مقدمات کا سامنا کرنے والے ہالی ووڈ ڈائریکٹر کی بانہوں میں بھی خود کو محفوظ سمجھنے والی شرمین عبید کو فیس بک کی ایک فرینڈ ریکوسٹ پر اتنی زیادہ تکلیف ہوئی کہ آسمان سر پر اٹھا لیا۔پاکستانی میڈیا بالخصوص انگلش اخبارات کا مطالعہ کریں،ہر روز اسلام پر حملہ ایسے کیا جاتا ہے، جیسے دین ان کے گھر کی لونڈی ہو۔ ایسے جملے بھی پڑھنے کو مل جاتے ہیں، بقول ایک ’’عظیم سیکولر مفکر‘‘’’اب ہمیں قرآن پاک سے اوپر ہو کر سوچنا چاہئے‘‘(نعوذ باللہ)۔ اب کیا یہ الفاظ دہشت گردی نہیں۔دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ،محض چند عبادات کا مجموعہ نہیں اور اس مکمل ضابطہ حیات کے لئے قرآن پاک مشعل راہ ہے جس کی تعلیمات میں روزازل سے قیامت تک کی ہر حقیقت کا احاطہ کر دیا گیا ہے۔ اس میں کسی صورت کوئی کمی و بیشی نہیں تاہم  اپنے خودساختہ نظریات دوسروں پر تھوپنے والے سیکولر دہشت گرد اسلام پر حملے کر کے مغرب کو تو خوش کر سکتے ہیں مگر وہ یہ بات بھول جاتے ہیں، مغرب کی طرف جا کر تو سورج بھی ڈوب جاتا ہے،بندہ کیا چیز۔ پاکستانی میڈیا کا ایک بڑا حصہ انہی سیکولر نظریات کے حامل لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں، جو پاکستان، اس کے عوام اور اسلام کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ علمائے دین کی کردارکشی ان کی سب سے مرغوب غذا ہے تاہم اگر ماروی سرمد کو کوئی آنکھ بھی مار دے تو سارے یک قالب ، یک جان ہو کر ہلہ بول دیتے ہیں اوراس بات کو اتنا بڑا مسئلہ بنا دیتے ہیں گویا پاک ،بھارت جنگ شروع ہو گئی ہو۔

اگر کوئی خاتون اپنی مرضی سے خود کو بے نقاب کرے اور ان عظیم مفکروں سے روابط استوار کرے تو سب اچھا ، لیکن اگر وہی خاتون اپنی مرضی سے پردے کا اہتمام کرے تو وہ چھوٹے اور بوسیدہ مائنڈ بلکہ بسا اوقات ’’دہشت گرد بھی قرار پاتی ہے ۔ پھر جب یہ لبرل طبقہ کسی کی ماں بہن کی عزت آبرو پر حملہ کرتے ہیں تو بڑے فخریہ انداز میں بتاتے پھرتے ہیں تاہم جب معاشرہ ان کی ماں بہن کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرے تو وہی لبرل جل بھُن کیوں جاتے ہیں۔ اس وقت ’’آزادی ، ہر کسی کے لئے‘‘ جیسے نظریات کہاں چلے جاتے ہیں، تاہم اللہ تعالیٰ ان کی ماؤں بہنوں کی عزت و آبرو بھی محفوظ رکھے۔

ان سیکولر دہشت گردوں کے گندے عقائد کا ہر محاذ ہر مقابلہ بھی ناگزیر ہوتاجا رہا ہے،شدت پسندانہ نظریات کے ساتھ ساتھ لادینیت کو روکنا بھی اتنا ہی ضروری ہے کیونکہ اگر مذاہب کی دیوار ہٹا دی جائے تو دنیا کا ہر انسان وحشی اور درندہ بن جائے گا۔

 

حصہ

جواب چھوڑ دیں