ماہنامہ ساتھی کا چالیس سالہ سفر

اللہ نے مجھے بھی یہ اعزاز بخشا کے میں زمانہ طالبعلمی میں اور آج بھی اس رسالہ کا قاری ہوں اور یہ بھی اللہ نے اعزاز بخشا کے سال  دوہزار تیرہ چودہ میں اس ادارہ کا حصہ رہا اور بطور سرکولیشن انچارج ذمہ داری ادا کی۔۔۔

ماہنامہ ساتھی کی ایک اور خاص بات کے اسکی پوری ٹیم جو کہ مدیر،  مجلس ادارت اور سرکولیشن ٹیم پر مشتمل ہوتی ہے سب کے سب طالبعلم اور فی سبیل اللہ کام کرتے ہیں۔

ماضی کی حسین یادیں اس ادارہ سے وابستہ ہیں، شہید شمعون قیصر کا ساتھ رہا کہ جن کے بارے میں یہ بات بلکل صادق آتی ہے کہ ” ڈھونڈو گے اگرملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم”.  دوہزارتیرہ میں حافظ فصیح اللہ حسینی بھائی جو اس وقت مدیر ساتھی تھے اور ساتھ میں اعظم طارق کوہستانی بھائی(موجودہ مدیر) یوسف منیر بھائی طلال بھائی کے ساتھ رہ کر کام کرنا، بہت سے تجربات کرنا میری زندگی کا اہم حصہ ہے گو کہ شرارتیں کرنا ایک دوسرے کو تنگ کرنا پھر منانا، رات دیر تک جاگ کر کام کرنا، ایک دوسرے کےخوشی اورغم میں شریک ہونا گوکہ لکھنے بیٹھے تو اس موضوع پر کتاب لکھ دی جائے۔ بے شمار قصے اور یادیں اس ادارے سے وابستہ ہیں۔

جب قلم اٹھالیا ہے تو ایک واقع کا ضرور ذکر کرونگا،  ساتھی کا پینتیس سالہ نمبر لانا تھا اور اس میں ساتھی کی ٹیم کا ایک ایڈونچر بھی شائع کرنا تھا جس کی ذمہ داری اعظم طارق کوہستانی بھائی کی تھی، خیر دومرتبہ پروگرام ملتوی ہونے کے بعد(اس بات کا ذکر سابق مدیر نجیب احمد حنفی بھائی نے پینتیس سالہ نمبر کی تحریر میں کیا تھا) ہم ایک جزیرے پر پہنچے اور ایک بھرپور ایڈونچر کیا مگر جب اسکو  اعظم طارق کوہستانی بھائی نے تحریر کیا تو کہانی بدل ڈالی یعنی اگر آپ اس کا اصلی احوال جاننا چاہتے ہیں تو مجلس ادارت کے ساتھی اعظم بھائی،  یوسف بھائی اور صہیبب شفیع بھائی کی جگہ بالترتیب راقم الحروف، طلال اور اسامہ بھائی کو رکھ کر پڑھیں تو سب سمجھ آجائے گا۔

ایک اور حقیقت یہ کہ اس ادارہ نے معاشرہ کو بہت سے روشن ستارے دیے جو کہ معاشرے کے ماتھے کا جھومر ہیں اور بالخصوص ننھے اذہان کی تربیت،  اسلام اور پاکستان سے محبت،  والدین اور اساتذہ کا احترام اور معاشرے میں کار آمد بنانے میں ناقابل تسخیر کردار ادا کیا ہے۔

اللہ رب العالمین ماہنامہ ساتھی کراچی کو دن دگنی اور رات چوگنی ترقی عطا فرمائے اور ساتھیوں کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ آمین

 

حصہ

3 تبصرے

جواب چھوڑ دیں